لیتھیم آئن بیٹریوں کی ایجاد پر کیمسٹری کا نوبل انعام

ویب ڈیسک  بدھ 9 اکتوبر 2019
آج کیمیا کے نوبل انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔ (فوٹو: نوبل اکیڈمی)

آج کیمیا کے نوبل انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔ (فوٹو: نوبل اکیڈمی)

اسٹاک ہوم: رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنس کی جانب سے اس سال کیمیا کا نوبل انعام ایسے تین کیمیا دانوں کو دیا جارہا ہے جنہوں نے اپنی گراں قدر تحقیقات کی بدولت بار بار چارج ہونے کے قابل ’’لیتھیم آئن بیٹریز‘‘ ایجاد کیں۔ ان کے نام جون بی گڈاینف، ایم اسٹینلی وٹنگہم اور اکیرا یوشینو ہیں۔

اس سال ہر نوبل انعام کی رقم 90 لاکھ سویڈش کورونا ہے جو پاکستانی روپوں میں تقریباً 14 کروڑ روپے بنتی ہے۔ یہ رقم ان تینوں نوبل انعام یافتگان میں مساوی تقسیم کی جائے گی۔

97 سال کی عمر میں نوبل انعام کا ریکارڈ

آگے بڑھنے سے پہلے بتاتے چلیں کہ اس سال کیمیا کا نوبل انعام حاصل کرنے والے جرمن نژاد ڈاکٹر جون بی گڈاینف کی عمر اس وقت 97 سال ہے، جو اب تک نوبل انعام حاصل کرنے والے سب سے عمر رسیدہ سائنسدان بھی ہیں۔ وہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران امریکا چلے گئے تھے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ اتنی عمر رسیدگی کے باوجود بھی وہ آسٹن میں یونیورسٹی آف ٹیکساس سے بطور ورجینیا ایچ کوکریل پروفیسر اِن انجینئرنگ وابستہ ہیں۔

اس سال کیمیا کے دوسرے نوبل انعام یافتہ سائنسدان، ایم اسٹینلی وٹنگہم کا تعلق برطانیہ سے ہے لیکن وہ امریکا کی اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک سے بطور ممتاز پروفیسر وابستہ ہیں۔

جاپان سے تعلق رکھنے والے اکیرا یوشینو اس سال کیمیا کا نوبل انعام پانے والے تیسرے سائنسدان ہیں جو ٹوکیو، جاپان میں آساہی کاسی کارپوریشن کے اعزازی فیلو ہیں جبکہ ناگویا، جاپان میں واقع میجو یونیورسٹی میں پروفیسر بھی ہیں۔

نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں!

لیتھیم آئن بیٹریاں راتوں رات ایجاد نہیں ہوئیں بلکہ ان پر ابتدائی تحقیقات سے لے کر اوّلین تجارتی لیتھیم آئن بیٹری ایجاد ہونے تک میں 15 سال لگ گئے۔

1970 کی دہائی میں، تیل کے عالمی بحران کے پیشِ نظر، ڈاکٹر اسٹینلی نے حصولِ توانائی کے ایسے ذرائع پر کام شروع کیا جن کا انحصار تیل، گیس یا کوئلے (رکازی ایندھن) پر نہ ہو۔ اسی کوشش میں انہوں نے دریافت کیا کہ اس مقصد کےلیے لیتھیم کا استعمال کارآمد رہتا ہے۔ البتہ، دھاتی لیتھیم انتہائی آتش گیر ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ صرف تجرباتی طور پر ہی ایک کمزور سی لیتھیم آئن بیٹری تیار کرسکے جو صرف دو وولٹ تک کام کرسکتی تھی۔

اسی دوران جون گڈاینف نے کام کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اس بیٹری میں مزید تبدیلیاں تجویز کیں، جنہیں عملی جامہ پہنایا گیا تو چار وولٹ والی ایک تجرباتی لیتھیم آئن بیٹری تیار ہوگئی۔ البتہ، لیتھیم آئن بیٹری اب تک تجارتی پیمانے پر تیاری کے قابل نہ تھی۔

لیکن یہ مرحلہ بھی جاپان کے اکیرا یوشینو نے 1985 میں سر کرلیا؛ اور دنیا کی پہلی ایسی لیتھیم آئن بیٹری تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے جو تجارتی پیمانے پر فائدہ مند بھی تھی۔

وہ دن اور آج کا دن، دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا میں لیتھیم آئن بیٹریوں کا استعمال بڑھتا چلا گیا اور ان کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔

آج ایک عام لیتھیم آئن بیٹری بھی 300 سے 500 مرتبہ چارج کی جاسکتی ہے جبکہ بعض نئی لیتھیم آئن بیٹریوں کے بارے میں یہ دعوی بھی کیا جارہا ہے کہ وہ نہ صرف کم جگہ میں زیادہ بجلی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں بلکہ 10 ہزار سے ایک لاکھ مرتبہ ری چارج کیے جانے کے قابل بھی ہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ لیتھیم آئن بیٹریاں آج ہمارے لیپ ٹاپ کمپیوٹروں سے لے کر اسمارٹ فون تک میں استعمال ہورہی ہیں۔ آئندہ جب بھی اسمارٹ فون، ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ کمپیوٹر استعمال کریں گے تو امید ہے کہ یہ تینوں سائنسدان آپ کو یقیناً یاد آئیں گے۔

 

کیمیا (کیمسٹری) کے نوبل انعامات: چند دلچسپ تاریخی معلومات

  • 1901 سے 2018 تک کیمیا/ کیمسٹری کے شعبے میں 110 مرتبہ نوبل انعامات دیئے جاچکے ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران 8 سال ایسے تھے جن میں کوئی نوبل انعام نہیں دیا گیا۔ 1916، 1917، 1919، 1924، 1933، 1940، 1941 اور 1942 میں کیمیا کا کوئی نوبل انعام نہیں دیا گیا۔
  • ان 118 سال میں کُل 180 افراد کو نوبل انعام برائے کیمیا دیا جاچکا ہے جن میں سے فریڈرک سینگر وہ واحد کیمیادان تھے جنہیں اس زمرے میں دو مرتبہ (1958 اور 1980 میں) نوبل انعام سے نوازا گیا۔
  • ان میں سے 63 نوبل انعامات برائے کیمیا ایک ایک سائنسدان کو (بلا شرکتِ غیرے) دیئے گئے؛ 23 انعامات دو دو ماہرین کو مشترکہ طور پر؛ جبکہ کیمیا کے 26 نوبل انعامات میں تین تین تحقیق کاروں کو ایک ساتھ شریک قرار دیا گیا۔
  • نوبل اسمبلی کے دستور کے مطابق کوئی بھی ایک نوبل انعام تین سے زیادہ افراد میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔
  • کیمیا میں اب تک چار خواتین نوبل انعام حاصل کرچکی ہیں؛ اور یہ تعداد سائنس کے دوسرے شعبہ جات کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
  • 2018 تک کیمیا (کیمسٹری) کا نوبل انعام حاصل کرنے والوں کی اوسط عمر 58 سال رہی ہے۔
  • کیمیا میں سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ سائنسداں فریڈرک جولیٹ تھے جنہیں 35 سال کی عمر میں 1935 کے نوبل انعام برائے کیمیا میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مشترکہ طور پر حقدار قرار دیا گیا۔ ان کی  اہلیہ آئرین جولیٹ کیوری، مشہور خاتون سائنسدان میری کیوری کی بیٹی تھیں۔
  • اسی کٹیگری میں سب سے عمر رسیدہ سائنسداں جان بی فن تھے جنہیں 85 سال کی عمر میں 2002 کا نوبل انعام برائے کیمیا دیا گیا۔
  • ویسے تو کیمیا کا نوبل انعام حاصل کرنے والے افراد میں تین نام ایسے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ نوبل انعام حاصل کئے لیکن ان میں سے فریڈرک سینگر وہ واحد سائنسدان ہیں جنہیں کیمیا ہی کے شعبے میں دو مرتبہ نوبل انعام دیا گیا۔ میری کیوری اور لینس پاؤلنگ کو بھی اگرچہ دو دو مرتبہ نوبل انعام دیا گیا لیکن میری کیوری کو پہلا نوبل انعام فزکس میں جبکہ دوسرا کیمسٹری میں دیا گیا۔ اسی طرح لینس پاؤلنگ کو پہلا نوبل انعام کیمیا میں جبکہ دوسرا امن کے شعبے میں دیا گیا۔
  • نوبل انعام صرف زندہ افراد کو دیا جاتا ہے یعنی اس کےلئے کسی ایسے شخص کو نامزد نہیں کیا جاسکتا جو مرچکا ہو۔
  • 1974 میں نوبل فاؤنڈیشن کے آئین میں تبدیلی کے ذریعے فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ سے کسی بھی شخص کو بعد از مرگ (مرنے کے بعد) نوبل انعام نہیں دیا جائے گا؛ لیکن اگر نوبل انعام کا اعلان ہونے کے بعد متعلقہ فرد کا انتقال ہوجائے تو وہ نوبل انعام اسی کے نام رہے گا۔ 1974 سے پہلے صرف 2 افراد کو بعد از مرگ نوبل انعام دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد سے اب تک کسی کو مرنے کے بعد نوبل انعام نہیں دیا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔