ہالی ووڈ کی مشہور افواہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں

زنیرہ ضیاء  اتوار 13 اکتوبر 2019
ہالی ووڈ میں کئی ایسی کہانیاں مشہور ہیں جن کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں، فوٹوانٹرنیٹ

ہالی ووڈ میں کئی ایسی کہانیاں مشہور ہیں جن کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں، فوٹوانٹرنیٹ

لاس اینجلس: یہ کہاوت مشہور ہے کہ ہالی ووڈ اسکینڈلز کبھی نہیں مرتے حالانکہ وہ مکمل طور پر جھوٹ ہی نہ کیوں ہوں۔ ہالی ووڈ میں کئی ایسی کہانیاں مشہور ہیں جن کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن دہائیوں سے لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں اور لوگ ان پر آنکھیں بند کرکے یقین کرتے ہیں۔ ان افواہوں میں مقبول ترین مارشل آرٹسٹ اور اداکار بروس لی اور ان کے بیٹے برینڈن لی کی موت اور میٹرو گولڈون میئر کے دہاڑتے ہوئے شیر وغیرہ سے متعلق کئی کہانیاں مشہور ہیں جن کا درحقیقت سچائی سے کوئی لینا دینا نہیں۔

بروس لی کی موت سے متعلق گردش کرنیوالی افواہ

نومبر 1940 کو امریکی ریاست سان فرانسسکو کے علاقے چائنا ٹاؤن میں پیدا ہونے والے لی جن فین کا مارشل آرٹ کے فن میں کوئی ثانی نہیں۔ لی جن فن کو بروس لی کے نام سے جانا جاتا ہےاور وہ ہالی ووڈ کے مشہور اداکار، ہدایت کار، مارشل آرٹسٹ، انسٹرکٹر اور فلاسفر تھے۔ بروس لی دنیا کے جانے مانے مارشل آرٹسٹ تھے اور مارشل آرٹ کے فن میں کمال رکھتے تھے، تاہم ہالی ووڈ کا یہ مقبول اداکار صرف 32 سال کی عمر میں چل بسا۔

بروس لی کی اچانک موت نے ان کے چاہنے والوں کو حیران پریشان کردیا اوران کی موت کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں گردش کرنے لگیں جن میں سے ایک افواہ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے، جس کے مطابق بروس لی کی موت طبعی نہیں تھی بلکہ انہیں مارشل آرٹ کے سیکریٹس (خفیہ راز) غیر ملکیوں کو دینے کے باعث چائنیز مارشل آرٹس کمیونٹی کے کسی رکن نے غصے  میں قتل کردیا تھا۔

تاہم یہ افواہ درست نہیں ہے بروس لی کی موت مارشل آرٹ کے خفیہ راز ظاہر کرنے کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی بلکہ انہیں سر میں معمولی سے تکلیف ہوئی تھی انہوں نے اس تکلیف کے لیے دواکھائی تاہم وہ سر میں ہونے والی اس تکلیف کے باعث کوما میں چلے گئے جس کے دوران ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔ بروس لی کی موت کی وجہ شدید دماغی سوجن قرارد ی گئی تھی۔

بلیوز کلیوز کے میزبان اسٹیو برنس کی موت کی افواہ

نوے کی دہائی کے مشہورلائیو ایکشن اینی میٹڈ شو ’’بلیوز کلیوز‘‘ سے کون واقف نہیں۔ یہ پروگرام نوے کی دہائی میں بڑے ہونے والے بچوں کا بے حد پسندیدہ شو ہوا کرتا تھا اور لوگ شو کے میزبان اسٹیو برنس کو بھی بہت پسند کرتے تھے۔ تاہم 1998 میں اسٹیو برنس کی موت کے بارے میں افواہ زیر گردش تھی کہ اسٹیو کی منشیات کی زیادتی کے باعث موت واقع ہوگئی ہے۔ یہ افواہ اتنی پھیل گئی تھی کہ لوگ برسوں تک یقین ہی نہیں کرپائے تھے کہ اس میں کوئی سچائی نہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ اسٹیو برنس آج بھی زندہ ہیں۔

ایم جی ایم اسٹوڈیو کے شیر کی اپنے ٹرینر کو ہلاک کرنے کی افواہ

ایم جی ایم اسٹوڈیو(میٹرو گولڈون میئر) کا شمار ہالی ووڈ کے بڑے اور مشہور اسٹوڈیوز میں ہوتا ہے اور اس کی شہرت کی ایک وجہ اسٹوڈیو کے ’’لوگو‘‘ میں دہاڑتے ہوئے شیر کا چہرہ ہے۔ ویسے تو اس شیر کے بارے میں کئی افواہیں مشہور ہیں لیکن ایک افواہ جس پر لوگ بہت زیادہ یقین کرتے ہیں وہ یہ کہ ’’لوگو‘‘ کے فوٹو شوٹ کے بعد اس شیر نے اپنے ٹرینر اور اس کے دو اسٹنٹس پر حملہ کرکے انہیں ہلاک کردیا تھا۔

تاہم اس کہانی میں کوئی سچائی نہیں اور یہ بالکل من گھڑت کہانی ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایم جی ایم اسٹوڈیو میں استعمال ہونے والے تمام شیروں نے کبھی بھی کسی پر کوئی حملہ نہیں کیاتھا۔

بروس لی کے بیٹے برینڈن لی کی موت 

دنیا کے مقبول ترین مارشل آرٹسٹ بروس لی کے بیٹے برینڈن لی  بھی اپنے والد کی طرح بہت کم عمری میں اس دنیا سے چل بسے تھے۔ برینڈن لی کی موت 1994 میں فلم’’دی کرو‘‘کے ایک سین کے دوران ہوئی تھی۔ اس وقت شوٹنگ کے دوران دراصل برینڈن لی کی موت کا سین ہی فلمایا جارہا تھا اس سین میں بندوق میں نقلی گولیوں کی جگہ اصلی گولیاں بھردی گئی تھیں اور پیٹ میں گولی لگنے کی وجہ سے برینڈن لی صرف 28 برس کی عمر میں چل بسے تھے۔

برینڈن لی کی موت سے متعلق  دودہائیوں سے گردش کرنے والی افواہ کے مطابق فلمسازوں نے برینڈن لی کی موت کے سین کو فلم سے ہٹایا نہیں بلکہ فلم میں یہی سین استعمال ہوا ہے، تاہم اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ بلکہ برینڈن لی کی موت کے بعد اس سین کو دوبارہ لکھا گیا اور اسے فلمانے کے لیے برینڈن کے باڈی ڈبل کا استعمال کیا گیاتھا۔

اگر آپ فلم کا یہ سین دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا اس پورے سین میں اداکار کا چہرہ نہیں دکھایا نہیں گیا ہے سوائے آخری لمحات کے جب باڈل ڈبل کے چہرے پر برینڈن لی کا چہرہ کمپیوٹر کی مدد سے فکس کیا گیا۔ تاہم آج بھی بہت سے لوگ برینڈن لی کی موت سے متعلق گردش کرنے والی اس افواہ پر یقین کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔