بلدیاتی مسائل

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 10 اکتوبر 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہر ملک کی شاہراہوں کا شمار قومی اثاثوں میں ہوتا ہے اور قومیں اپنے قومی اثاثوں کی حفاظت پوری توجہ اور دیانتداری سے کرتی ہیں۔ کنسٹرکشن کا شعبہ ہر ملک میں خصوصی توجہ کا حامل ہوتا ہے، ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ اس شعبے میں نیچے سے اوپر تک قدم قدم پرکرپشن کا بازار گرم ہے۔

اس حوالے سے تازہ اطلاعات کے مطابق کراچی کی سڑکیں بھی ادھڑگئی ہیں اور اس وجہ سے سارا شہر تباہی وبربادی کا نظارہ پیش کر رہا ہے۔ کراچی کی جو سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہیں، معلوم ہوا ان کی حال ہی میں تعمیر نو کی گئی تھی یعنی سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے والی بات درست ثابت ہوتی ہے۔ سڑکوں کی اس حالت کی وجہ سارا شہر ٹریفک کے مسئلے سے دوچار ہوگیا ہے۔

ٹریفک جام تو روزمرہ کا مسئلہ ہے لیکن بارش میں ٹریفک جام کا حال یہ ہوتا ہے کہ کاروبار اور ملازمتوں پر آنے والے گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے رہتے ہیں ،گاڑیوں کا ستیا ناس ہو جاتا ہے۔

شعبہ تعمیرات میں بڑی کشش ہے کیونکہ یہ شعبہ کرپشن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ ہماری بے حسی کا عالم یہ ہے کہ سڑکیں بار بار ادھڑ جاتی ہیں اور ’’تعمیر نو‘‘ کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے یعنی کرپشن کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اینٹی کرپشن کے اداروں کی جتنی بھرمار ہوتی ہے،کرپشن میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے۔ شعبہ کنسٹرکشن میں اتنی کمیشن ہوتی ہے کہ ہر اوپر والا اس شعبے میں آنا چاہتا ہے اور جو اس شعبے میں آتا ہے اس کی ایسی ری کنسٹرکشن ہوتی ہے کہ ہر شہر میں اس کا ایک شاندار بنگلہ بنا ہوتا ہے۔

سڑکیں بنانا پانی کا اہتمام گٹر وغیرہ کا اہتمام بلدیہ کی ذمے داری ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے بلدیہ کے بارے میں یہ کہاوت عام ہے کہ ’’ کھایا پیا اور چل دیا ‘‘ ویسے تو یہ صورتحال ملک کے ہر شعبے کی ہے لیکن بلدیہ کا نام اس حوالے سے خصوصیت کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ ہمارے جمہوری دیوتاؤں نے بلدیہ سے بہت سارے اختیارات چھین کر صوبائی حکومت کے حوالے کر دیے ہیں۔ اس لیے بے چاری بلدیہ بیوہ ہوکر رہ گئی ہے۔

ہماری  جمہوریت میں ’’ ترقیاتی کام ‘‘ جب سے صوبائی حکومتوں کی تحویل میں آتے ہیں ، ایم این اے اور ایم پی اے حضرات کی لاٹری نکل آتی ہے، ترقیاتی فنڈز میں سے ہر ایم این اے ہر ایم پی اے کوکروڑوں روپے دیے جاتے ہیں اور ترقیاتی کام ہماری سڑکوں جیسا ہوتا ہے کہ یہاں ترقیاتی کاموں کے سر مونڈتے ہی اولے پڑ جاتے ہیں۔

ایک بات جو سمجھ سے باہر ہے وہ یہ ہے کہ سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ ناقص میٹریل کے استعمال سے ہوتی ہے کیا کسی ناقص میٹریل استعمال کرنے والے ٹھیکیدار کو اس حوالے سے قرار واقعی سزا دی گئی، ان کے لائسنس چھین لیے گئے، انھیں کام سے روک دیا گیا، ان کو اس بددیانتی پر بھرپور جرمانے کیے گئے؟ ان سارے سوالوں کے جواب اس لیے نفی میں آتے ہیں کہ سر سے پیر تک پورے کا پورا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ جب سیاں کوتوال ہو تو للوؤں، پنجوؤں سے کون ڈرتا ہے۔ ہمارے ملک کا نام پاکستان رکھا گیا ہے لیکن یہاں کے تمام کے تمام کام نا پاکستان سے اٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہی اس ملک کی خصوصیت ہے۔

ہمارے ملک میں کرپشن کی دیوی کا کیا حال ہے رات دن میڈیا میں اس کے بارے میں اتنا کچھ آتا ہے کہ سن سن کر ندامت سے سر نگوں ہوجاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے جمہوریت میں اس قدر ’’سہولتیں‘‘ فراہم کردی ہیں کہ ہر اوپر والا رات دن جمہوریت کی مالا جپتا رہتا ہے۔ پاکستان کا شمار انتہائی پسماندہ ملکوں میں ہوتا ہے بلاشبہ پاکستان ایک پسماندہ ترین ملک ہے جہاں کی 50 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے لیکن امرا ملک کا عالم یہ ہے کہ انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی دولت کتنی ہے، ان کے ملک کے اندر اور ملک کے باہر اثاثے کتنے ہیں۔ یہ اثاثے اسی کرپشن سے بنے ہوئے ہیں جو ہماری اشرافیہ کے لیے جائز ہے۔

کرپشن تو سرمایہ دارانہ نظام کا زیور ہے اور اشرافیہ اس زیور سے سر سے لے کر پیر تک لدی ہوئی ہے۔کیا کسی میں دم ہے کہ وہ سر سے لے کر پیر تک لدے ہوئے زیور سے اشرافیہ کے جسم پر نظر ڈالے۔ ہمارے ملک میں 22 کروڑ بھوکے پیاسے عوام رہتے ہیں ان کے ہاتھوں میں احتساب کی طاقت ہے لیکن وہ احتساب کا نام جانتے ہیں نہ مطلب۔ ویسے تو سرمایہ دارانہ جمہوریت لوٹ مارکا نام ہے لیکن ہماری اشرافیہ نے لوٹ مار کو جمہوریت کے رنگین پردے میں اس طرح چھپا دیا ہے کہ اس کی گندگی کھلی آنکھوں سے بھی نظر نہیں آتی۔ اس کی بدبو سے عوام کی ناک کے کیڑے اورکانوں کے پردے بے کار ہوگئے ہیں۔

پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے اب 72 سال ہو رہے ہیں اگر اٹھائیس سال اور گزر جائیں تو ایک صدی ہوجاتی ہے۔ کیا کسی مہذب اور جمہوری ملک میں لگ بھگ ایک صدی کے عرصے میں کیا سیوریج اور پینے کے پانی کا انتظام نہیں ہوسکتا۔ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کیسی بے شرمی ہے کہ صرف بارش کے موسم میں حکمران طبقے کو خیال آتا ہے کہ بارش نے شہر کو جل تھل بنا دیا ہے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں آبادیاں ندی نالوں میں بدل گئی ہیں گھروں کے صحن ہی نہیں بیڈ رومز تک ندی نالوں میں بدل گئے ہیں۔ چار درجن کے لگ بھگ جیتے جاگتے انسان کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوگئے ہیں۔ سیکڑوں کاریں ہزاروں موٹرسائیکلیں بے کار ہو رہی ہیں مالکان انھیں پانی میں گھسیٹتے پھر رہے ہیں۔

اسے ہم اپنی بے حسی کہیں یا۔۔۔۔۔کہ ان حالات کا جائزہ لے کر عوام کو ان عذابوں سے نجات دلانے کے بجائے ہم ’’ آزادی مارچ ‘‘ کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک تحریک آزادی کا نتیجہ اشرافیہ کی حکمرانی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے اور اس کے پھل جعلی اکاؤنٹس غریبوں کے اکاؤنٹس میں کروڑوں روپوں کی آمد کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔ وہ کون ملک و ملت کے غدار ہیں جو چوری اور لوٹ مار کا کروڑوں روپیہ دھوکے اور فریب سے غریبوں کے اکاؤنٹس میں چھپا رہے ہیں اور دوسری طرف وہ  اشرافیہ ہے جو کرپشن کے اربوں روپوں کو جعلی اکاؤنٹس میں ڈال کر بچانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے اور سارا شہر تالاب کا منظر پیش کر رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔