جان ایف کینیڈی خیالات کے سفر میں (دوسرا اور آخری حصہ)

نادر شاہ عادل  جمعرات 10 اکتوبر 2019

جان کینیڈی نے آزاد پریس کے حوالہ سے کہا کہ لیڈر وہ نہیں جو عوام کو وہی چیز دے جس کی عوام خواہش کرتے ہیں،بلکہ لیڈر وہ ہے جو عوام کو باخبر رکھے، اس میں جذبہ پیدا کرے، وہ زندگی میں کچھ رد عمل دے ، خطرات پر بات کرے، موقع پر بولے، بحرانوں کی نشاندہی کرے ، ہمارے چوائسز کو پہچانے، زندگی کو کسی موڑ پر لے آئے، رہبری کرے ، تعلیم دے ، اورکبھی کبھار عوامی رائے کو برہم بھی کر دے۔ کینیڈی کی اکثر تقاریر میںاس بات کا تاثر ملتا تھا کہ عوام بھیڑچال سے گریز کریں ، دلیری سے اختلاف رائے کریں۔

کینیڈی کا کہنا تھا کہ کوشش اور حوصلہ کسی مقصد سے  عاری ہوں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اندھیرے کو لعنت ملامت کرنے کے لیے ہم یہاں جمع نہیں ہوئے، بلکہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ کوئی چراغ جلائیں ،جس کی روشنی ہمیں راستہ دے ، اور ہم محفوظ رہیں۔ ہمارے لیے دانشمندی سے مستقبل کی طرف سفر کرنا دشوار نہ ہو۔

کینیڈی ہی کا یہ مشہور قول ہے کہ یہ مت پوچھو کہ وطن نے مجھے کیا دیا، یہ دیکھو کہ تم نے مادر وطن کی طرف کیا گل پھینکے اور اسے کتنا ثمر بارکیا۔ ایک تقریر میں ان کی تلقین پوشیدہ تھی کہ چھت کی تعمیرومرمت کاکام اس وقت شروع کرو جب سورج چمک رہا ہو۔

وہ کہتے تھے کہ جغرافیہ نے ہمیں ہمسایہ بنایا۔ تاریخ نے دوست ، معاشیات نے شراکت دار اور ضرورت نے اتحادی ، لہذا جس خدا نے ہم کو باہم ملادیا ہے اسے جدا مت کرنا۔ اس کا یہ قول بھی فکر انگیز ہے کہ فتح کے ہزار باپ مگر شکست کھانے والے شخص کی قسمت میں یتیمی اور لاوارثی لکھی ہے۔ جان کینیڈی نے ایک تقریر میں کہا کہ جب طاقت انسان کو رعونت اور تکبر پر مائل کرتی ہے تو شاعری اسے احساس دلاتی ہے کہ انسان مجبور بھی ہے اورخواہشات کی ایک حد ہے۔ جب طاقت انسان کی تشویش اور اضطراب کو سکیڑتی ہے تو شاعری اسے ثروت ودولت کا ادراک اور وجود کو کثرت پسندی کا عکس دیتی ہے، اور جب طاقت آدمی کوکرپٹ کرتی ہے تو شاعری اسے نکھارتی اور سنوارتی ہے۔

امریکا کے اس صدر کا کہنا تھا کہ آزادی کی قیمت بھاری ہوتی ہے اور امریکیوں نے یہ بھاری قیمت ادا بھی کی ہے، لیکن ایک راستہ جو ہم کبھی منتخب نہیںکرسکتے وہ سرنڈرکرنے اور شکستگی کا ہے جو ہمیں گوارا نہیں۔ کینیڈی نے کہا کہ سچ کا سب سے بڑا دشمن جھوٹ نہیں ہے، چاہے دانستہ بولا جائے، گھناؤنی تدبیر سے بولا جائے، اس میں ترغیب ، مکر وفریب ہو، فرضی یا خیالی ہو۔ حقیقت پسندی سے ماورا ہو ۔

کینیڈی نے کئی عشرے قبل کہا تھا کہ اس ملک (ریاست ہائے متحدہ امریکا) میں ایک منصوبہ اور پلاٹ ہے کہ ہر شخص کو غلام بناؤ، عورت ہو بچہ ہو اور میرا یہ عہد ہے کہ اس منصوبہ کو بے نقاب کروں گا۔ اس کا کہنا تھا کہ بچے دنیا کے بیش بہا وسائل ہیں اور مستقبل کی بہترین امید۔ ایک انسان مرسکتا ہے قوموں کے مقدر میں عروج و زوال بھی ہے، لیکن ایک خیال( آئیڈیا) کو موت نہیںآتی ، وہ زندہ رہتا ہے۔

کینیڈی کے مطابق ہم اس چیزکا انتخاب کرتے ہیں کہ اسی عشرے میں ہم چاند پر پہنچیں اور دوسرے کام مکمل کرلیتے ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ آسان ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ مشکل بھی ہیں اور دشوار ہیں۔کینیڈی کی والدہ روز کینیڈی نے ایک بارکہا تھا کہ جب کبھی میں کسی نوزائیدہ بچے کو ہاتھوں سے اوپر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوںکہ میں نے اس کو جوکہا اور اس کے ساتھ کیا کیا اس کا اثر صرف اس بچے پر ہوا یا اس بچے نے بڑا ہوکر جو تاثر پیدا کیا وہ ایک دن کا تھا، ایک ہفتے کا ایک سال کا یا تاحیات۔ اس کے اثرات سفر کرتے رہے۔ بس یہ خیال اور تخیل ایک ماں کے لیے بہت صبر آزما اور شاندار ہوتا ہے۔

کینیڈی نے کہا کہ عمل میں مضمر بہت سارے خطرات ہوتے ہیں جب کہ اس کی قیمت بھی بھاری ہوتی ہے، مگر اس کی اہمیت ایک مطمئن اور آسودہ ’’ بے عملی‘‘ کے مقابلہ میں خصوصی ہوتی ہے۔کینیڈی کے نزدیک جتنا ہماراعلم وسیع اور بیکراں ہوتا ہے جہالت اتنی ہی شدت سے بے نقاب ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنے دشمن کو ضرور معاف کرو مگر اس کا نام یاد رکھو۔ یہ بات بھی کہنے کی حد تک کینیڈی کے حصے میں آئی کہ جو پر امن انقلاب کا راستہ روکتے ہیں وہ پرتشدد انقلاب برپا ہونے کو ناگزیر بنا دیتے ہیں۔ یہ بھی اس کا انداز نظر تھا کہ جو سماج اپنے کثیر تعداد غریبوں کی مدد نہیں کرتا وہ اپنے مٹھی بھر امیروں کو بھی نہیں بچا سکتا۔

1963  میں کہی گئی کینیڈی کی یہ بات قابل غور ہے کہ اگر ہم اس وقت اپنے اختلافات ختم نہیں کرسکتے تو کم ازکم دنیا کو کثرت پسندی کے لیے محفوظ تو بنا سکتے ہیں۔ اگر آرٹ کا مقصد ثقافتوں کی جڑوں کو سیراب کرنا ہے تو فنکارکوکام کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے، ہمیں اس بات کی توقع نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا یکساں نظام اور رسم و راہ اپنا لے کیونکہ یکسانیت آزاد پسندوں کے لیے جیل خانہ ہوتی ہے اور شرح نموکی دشمن۔

کینیڈی خبردارکرتے ہیں کہ ہماری بڑھتی ہوئی نرم خوئی اور فٹنس کی کمی قومی سلامتی کے لیے زہر قاتل ہے۔ وہ انسانی دماغ کو نوع انسانی کا بنیادی سرمایہ کہتے ہیں۔ کینیڈی کا کہنا ہے کہ ساری مائیں یہی سوچتی ہیں کہ ان  کے بچے بڑے ہوکر امریکا کا صدر بنیں لیکن وہ اس پروسیس میں ان کو سیاستدان نہیں بنانا چاہتیں۔ جان ایف کینیڈی کہتے ہیں کہ غیرمشروط جنگ غیر مشروط فتح پر منتج نہیں ہوتی۔ اس سے تنازعات بھی ختم نہیں ہوتے اور نتیجتاً سپرپاورز بھی اس پر تشویش ظاہر نہیں کرتے۔

کینیڈی کا حس مزاح بھی انوکھا تھا۔کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ انٹیلی جنس اداروں کی ساری رپورٹیں سنسنی خیزنہیں ہوتیں،کچھ تو ایسی ہوتی ہیں جن کی خبر مجھے نیویارک ٹائمز سے ملتی ہے۔ دنیا کے مسائل کا حل بلاشبہ تشکیک پسندوں اور سنکی لوگوں کے پاس نہیں، کیونکہ ان کی حقائق تک رسائی نہیں ہوتی، ہمیں تو ایسے لوگ چاہئیں جو ان کو وہی خواب دکھائیں جو ہم نے کبھی دیکھے ہی نہیں۔ ایک جگہ وہ یہ فرماتے ہیں کہ مقامی داخلی پالیسی ہمیں صرف شکست دے سکتی ہے مگر خارجہ پالیسی قوم کو مروا بھی سکتی ہے۔

کینیڈی نے موجودہ حالات کے حوالہ سے کیا عالمگیر سچ کہا ہے کہ ہمیں خوفزدہ ہوکرکبھی مذاکرات نہیں کرنے چاہئیں۔ مگر مذاکرات کرنے سے خوف بھی نہیں کھانا چاہیے۔ان کا یہ ایک فکر انگیز قول دیکھیے کہ جس بچے کو ہم تعلیم نہ دلاسکے ،اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے وہ بچہ کھو دیا۔

وہ سوال کرتے ہیں کہ تمہیں کچھ خبر ہے کہ میں کون سی ذمے داری نبھا رہا ہوں؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہیں کہ میں وہ شخص ہوں جو صرف صدر نکسن اور وائٹ ہاؤس کے درمیان کھڑا ہے۔کینیڈی نے آج اکیسویں صدی کے سیاق وسباق میں امریکا کے بارے میں دلچسپ وعجیب بات کہی ۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا والے جانتے ہیں کہ امریکا جنگ شروع نہیں کرے گا۔ امریکیوں کی اس نسل نے کئی جنگیں اور نفرتیں دیکھ لی ہیں۔ ہم اب امن کی دنیا بسائیں گے جہاں کمزور محفوظ ہوگا اور طاقتور انصاف پسند۔کینیڈی کا کہنا تھا کہ میں تصور پرست ہوں مگر توہمات اور الجھاؤ سے بے نیاز۔ میں اس بات پر نروس ہوتا ہوں جب لوگ خواتین کے بارے میں باتیں کرتے ہیں چاہے ان کی سیاسی شمولیت پر یا بطور عورت وہ زیر بحث ہوتی ہے۔

مجھے امید ہے کہ کوئی امریکی الیکشن میں اپنا ووٹ میرے حق میں یا کسی دوسرے کے لیے زمین پر پھینک دے گا، یہ سوچ کر کہ یہ شخص تو مذہبی خیالات رکھتا ہے، ایسا سوچنا بھی فضول ہے۔ دنیا ایسے لوگوں سے بھری ہوئی ہے جو یہ سمھجنے سے قاصر ہیں کہ آزاد دنیا اور اشتراکی دنیا میں کیا فرق ہے۔ میرا ان سے یہی کہنا ہے کہ برلن چلے آؤ۔ کینیڈی کے نزدیک یہ بہت بڑی بد نصیبی ہے کہ امن کے قیام کے لیے جنگ کی تیاری کی جائے۔ میرا اس صدر پر یقین ہے جس کے مذہبی خیالات اس کی ذات سے جڑے ہوئے ہیں ، مذہب اس کا ذاتی عقیدہ ہے جو اس نے خود پر مسلط کیا اور نہ قوم پر۔

جنگ کا مسئلہ اس دن تک رہے گا جب تک اس باضمیر معترض بھی اسی شہرت و وقار کا حامل نہ جو جنگجو کو بھی حاصل ہے۔کینیڈٖی نے کہا کہ ہماری ترجیح خودارادیت کے اس عہد میں وہی ہوگی جو عالمی قتل عام کے وقت کی ہوگی۔ امریکی صدر نے حالات حاضرہ جیسی بات کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہم صدر بنے تو جس چیز نے ہمیں حیران کردیا وہ وہی خراب سیاسی صورتحال تھی جس کا ہم اس سے پہلے رونا روتے تھے۔

ہم خواہش مند ہونگے کہ کاش ویسی زندگی پھر جی لیں جو پہلے تھی مگر تاریخ ظالم ہے، ایسا نہیں ہونے دیتی۔جان فٹزگیرالڈ کینیڈی نے کہا کہ آؤ تعلیم پر  توجہ دیں۔ اسی سے ہماری قوم کی عظیم الشان صلاحیتیں بیدار ہونگی، اسی میں انفرادی طور پر امید اورخواب کے چراغ روشن ہونگے، سب لوگ فیضیاب ہونگے، قوم کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔کینیڈی کے بقول جو بری طرح ناکام ہوتے ہیں،کامیابی انھی کے قدم چومتی ہے۔ قیادت سیکھنے کے عمل سے دوچار رہتی ہے، یہ لازم و ملزوم ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔