500 کرپٹ لوگوں کی نشانیاں

مزمل سہروردی  جمعرات 10 اکتوبر 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

وزیر اعظم عمران خان نے دورہ چین کے دوران دوبارہ اپنی اس خواہش کا اعادہ کیا ہے کہ وہ ملک میں پانچ سو کرپٹ لوگوں کو جیلوں میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ ادھوری بات کیوں کرتے ہیں۔ انھیں کہنا چاہیے کہ وہ ملک میں پانچ سو کرپٹ لوگوں کو سر عام پھانسی لگانا چاہتے ہیں۔

مجھے وزیر اعظم کی خواہش کی مخالفت کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آرہی۔ جو بھی کرپشن کے خلاف ہے وہ وزیر اعظم کی خواہش کی مخالفت کر ہی نہیں سکتا۔ صرف کرپشن کے حامی ہی اس کی مخالفت کر سکتے ہیں۔ ویسے یہ تو ضیاء الحق کے ریفرنڈم والی بات ہو گئی کہ جو اسلامی نظام کے حق میں ہے وہ ضیا ء الحق کے بھی حق میں ہے۔

میں سوچ رہا ہوں کہ ان پانچ سولوگوں میں کون شامل ہوںگے۔ ملک کے سیاسی منظر نامہ اور حالیہ بڑی بڑی ملاقاتوں کو سامنے رکھتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان پانچ سو لوگوں میں ایک بھی بڑا بزنس مین شامل نہیں ہوگا۔ ملک کے بڑے کاروباری لوگوں کو کرپشن سے استثنا مل گیا ہے۔ نیب نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ ٹیکس چوری کے کسی کیس کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ کاروباری طبقہ کا موقف مان لیا گیا ہے ۔

جہاں تک مجھ جیسے جاہل کو سمجھ آئی ہے ، عمرانی حکومت کی کرپشن کی نئی تعریف میں ٹیکس چوری کو کرپشن سے نکال دیا گیا ہے۔ اب ٹیکس چوری کو کرپشن نہیں سمجھا جائے گا۔ اس لیے اب ان پانچ سولوگوں میں کوئی بزنس مین شامل نہیں ہوگا۔

ان پانچ سولوگوں میں کوئی بیوروکریٹ بھی شامل نہیں ہوگا۔ نیب یہ اعلان بھی کر چکا ہے کہ وہ بے وجہ بیوروکریٹ کو تنگ نہیں کرے گا۔ جب سے یہ حکومت آئی ہے ملک کی بیوروکریسی نے قلم چھوڑ ہڑتال کی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے حکومت کا نظام کار نہیں چل رہا۔ فائلیں رک گئی ہیں۔ کوئی کام ہی نہیں ہو رہا۔  نیب قوانین میں جن ترامیم کا بہت چرچا ہے ان میں بیوروکریسی کو نیب کے چنگل سے چھڑانے کی بھی بات کی جا رہی ہے۔

ایک سپروائزری بورڈ بنانے کی بات کی جا رہی ہے جو بیوروکریسی کی شکایات کا جائزہ لے گا۔ اس میں بیوروکریٹ ہی شامل ہونگے۔ اس طرح مجھے یقین کامل ہے ان پانچ سو لوگوں میں جن کی بات ہمارے وزیر اعظم نے چین میں کی ہے کوئی بیوروکریٹ شامل نہیں ہے۔ بیوروکریٹ کرپٹ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے اس کو کرپشن کے چکر سے نکالے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔

ان پانچ سولوگوں میں اعلیٰ عدلیہ کا بھی کوئی نمایندہ شامل نہیں ہوگا۔ نیب قانون میں پہلے ہی موجود ہے کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی نمایندے کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کر سکتی۔ اس ضمن میں عدلیہ کا اپنا نظام موجود ہے۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ عمران خان اعلیٰ عدلیہ میں موجود نظام احتساب سے مکمل مطمئن ہونگے اور انھوں نے جن پانچ سوکرپٹ لوگوں کو گرفتار کرنے کی بات کی ہے، ان میں اداررہ جاتی عہدوں پر متمکن حضرات تو شامل نہیں ہیں۔

اب جب کہ کاروباری افراد، بیوروکریٹ  اور دیگر اداروں کے نمایندے ان پانچ سولوگوں میں شامل نہیں ہیں۔ تو پھر کون کون شامل ہے۔ میرے دوست نے مجھے کہا ہے کہ اس میں تحریک انصاف کے سنیئر عہدیداروں کو بھی شامل نہ کیا جائے۔ ویسے بھی تحریک انصاف کو اپنی نیک نامی اور کرپشن کے خلاف جدوجہد میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔

کرپشن کے خلاف گراں قدر خدمات کی وجہ سے یہ استثنا تحریک انصاف کا حق ہے۔ اس لیے مجھے قوی امید ہے کہ عمران خان نے چین میں جن پانچ سولوگوں کو گرفتار کرنے کی بات کی ہے، ان میں ان کا کوئی حکومتی عہدیدار اور ساتھی شامل نہیں ہوگا۔ ویسے بھی عمران خان کرپشن کے حوالے  سے زیرو ٹالرینس رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ارد گرد کسی بھی کرپٹ کو برداشت نہیں کر سکتے۔ جہاں تک اپوزیشن کی جماعتوں کا تعلق ہے ان میں سب کرپٹ ہیں۔ اس لیے ان کے سب افراد کو گرفتار کرنے سے ہی ملک سے کرپشن ختم ہو سکتی ہے۔

اب جب کہ اس ساری تمہید سے یہ بات طے ہو گئی ہے کہ ان پانچ سولوگوں میں کون کون شامل ہیں اور کون کون شامل نہیں ہیں۔ اب ہم سب کو عمران خان کا ساتھ دینا چاہیے کہ وہ ان پانچ سولوگوں کو عبرت کا نشان بنا سکیں تا کہ پاکستان سے کرپشن کو جڑسے اکھاڑ کر پھینکا جا سکے۔ ملک میں آجکل نیب قوانین میں ترمیم کی بات کی جا رہی ہے۔ ابھی تک جو خبریں سامنے آرہی ہیں ان میں تو نیب کا دائرہ اختیار محدود کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا۔یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ ایسا سمجھا جائے کہ بیوروکریٹ اور کاروباری طبقہ کو نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کرنے سے نیب کمزور نہیں بلکہ طاقتور ہوگا۔ میری رائے میں ان کو نکالنے کے ساتھ تمام حکومتی عہدیداروں کو بھی استثنا دیا جائے۔

اس کے بعد جن لوگوں کے مقدمات  بچ جائیں ان کے لیے خصوصی قوانین بنائے جائیں۔ ملک میں کرپشن کی سزا پھانسی کر دی جائے۔ احتساب عدالتوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ کر دیا جائے۔ تحریک انصاف اپنے جن لوگوں کو ابھی تک حکومت میں شامل نہیں کر سکی ہے ان کو ایک خاص آرڈیننس کے تحت احتساب عدالتوں کا جج لگا دیا جائے تا کہ وہ اپنے قائد اور لیڈر کی سوچ کے مطابق کرپشن کے مقدمات کا فیصلہ کر سکیں۔ یہ احتساب عدالتیں دن رات لگائی جائیں۔ ان کو احتساب کی ماڈل کورٹس قرار دے دیا جائے۔ اس طرح ملک میں کرپشن کا سارا گند تین سے چھ ماہ میں صاف ہو سکتا ہے۔

آپ کہہ رہے ہوں گے کہ اس سلسلہ میں وسیع قانون سازی کی ضرورت ہے اور عمران خان کے تو ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس تو پارلیمنٹ میں اتنی اکثریت ہی نہیں ہے کہ یہ قانونی ترامیم کر سکیں۔ ویسے تو قانونی ترامیم کے لیے سادہ اکثریت کی ضرورت ہے اور سادہ اکثریت تو حاصل ہے۔

اگر دو دفعہ قومی اسمبلی کوئی قانون پاس کر دے تو سینیٹ کے مسترد کرنے کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ لیکن اگر سینیٹ میں صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد ناکام ہو سکتی ہے ،کرپشن کے خلاف قوانین کیوں نہیں پاس ہو سکتے۔ یہ سب ممکن ہے۔ عمران کی حکومت کے پاس یہ طاقت موجود ہے۔ ہم سب کو چاہیے اس میں عمران خان کا ساتھ دیں۔ یہ ملکی مفاد کا معاملہ ہے۔ اس کو عمران خان کے سیاسی مفاد کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش بھی ملک سے غداری کے مترادف ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔