بھوپال کی کہانی

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 10 اکتوبر 2019

محمد عثمان دموہی کی لکھی ’’ بھوپال کی کہانی‘‘ کا پیش لفظ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے تحریرکیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ لاہوریوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کہیں بھی ہوں، لاہورکوکبھی نہیں بھولتے اور اس کی یاد انھیں ستاتی رہتی ہے۔ اس سے کہیں بڑی محبت اور یادیں بھوپالیوں کو بھوپال سے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ملکہ نور جہاں بھوپال دیکھ لیتی تو وہ کشمیر کو بھول جاتی اور بھوپال کو جنت مقام قرار دیتی۔‘‘

عثمان دموہی نے کوشش کی ہے کہ ان کی کتاب پڑھ کر ہر قاری نور جہاں بیگم کا ہم نوا ہو جائے۔ بھوپال کی تاریخ ، تفریحی مقامات ، قدیم عمارتیں ، قلعہ اور مسجدیں بھوپال کے ادیب اور شاعر، ہاکی کے کھلاڑی، وہاں کا موسم اور رسم و رواج، ان سب کا اس محبت سے ذکر کیا ہے کہ ہمارے ایٹمی سائنس دان کو اپنا وطن یاد آ گیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’میں نے جب اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو ختم کیے بغیر ہاتھ سے نہ چھوڑ سکا۔‘‘ اسد محمد خاں جن کے اجداد کا وطن بھوپال ہے، لکھتے ہیں ’’مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب بہت شوق سے پڑھی جائے گی اور یاد رکھی جائے گی۔‘‘

ڈاکٹر یونس حسنی کہتے ہیں کہ اس کتاب میں بھوپال سے آگہی کا بڑا سامان موجود ہے۔ ڈاکٹر رضیہ حامد فرماتی ہیں کہ عثمان دموہی نے بھوپال کو کہانی کے انداز میں روشناس کرایا ہے۔ شگفتہ فرحت لکھتی ہیں کہ عثمان دموہی نہ تو بھوپال کے ہیں اور نہ ان کے آبا و اجداد بھوپال کے۔ آفریں ہے ان پر بھوپال کی کہانی لفظوں میں بیان کر ڈالی۔

عثمان دموہی لکھتے ہیں ’’بھوپال وندھیاچل اور ست پڑا کے پہاڑی سلسلوں کے دامن میں واقع ہے، رنگا رنگ تہذیبوں کا گہوارا ہے جس کا برصغیر میں کوئی ثانی نہیں۔ اس شہر کو قدرتی حسن اور خوبصورتی دینے والے دو عناصر ہیں، ایک یہاں کے دل فریب، کبھی نہ خشک ہونے والے تالاب اور دوسرے یہاں کی سرسبز و شاداب پہاڑیاں۔ ہندوستان کے کسی شہر میں اتنے بڑے اور خوبصورت تالاب نہیں اور بھوپال کی پہاڑیاں جو وندھیاچل پہاڑکی ڈھلانوں پر واقع ہیں ان کی دل فریبی اور دل ربائی ناقابل فراموش ہے۔‘‘

بھوپال کی تاریخ بتاتے ہوئے عثمان دموہی لکھتے ہیں کہ یہ اسی نام کی ایک ریاست کا صدر مقام تھا جس کی بنیاد صوبہ سرحد کے علاقے اورکزئی سے تعلق رکھنے والے ایک جانباز ، دوست محمد خاں نے رکھی تھی۔ یہ ریاست دو صدیوں سے زیادہ عرصے تک دوست محمد خاں کی اولاد کے زیرنگیں رہی۔ ان میں مرد ہی نہیں عورتیں بھی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کی خواتین حکمرانوں نے اپنی ذہانت ، تدبر اور عدل و انصاف کے ذریعے انتہائی کامیاب حکمرانی کی تھی۔ ان میں شاہجہاں بیگم اور سلطان جہاں بیگم کا دور حکمرانی قابل ذکر ہے۔ بھوپال کے آخری فرمانروا ، نواب حمید اللہ خاں سلطان جہاں بیگم کے صاحبزادے تھے۔ سکندر جہاں نے آٹھ سال ریاست کی خدمت کی۔ ان کے بعد ان کی صاحبزادی ، شاہجہاں بیگم ریاست کی والی مقرر ہوئیں۔

عثمان دموہی بتاتے ہیں کہ شاہجہاں بیگم نے اپنے دور میں کئی کارنامے انجام دیے۔ ان میں پوری ریاست میں ڈاک کا نظام قائم کرنا ، ریاستی ڈاک کے ٹکٹ اور بھوپال کا اپنا سکہ جاری کرنا قابل ذکر ہے۔ انھوں نے شاہجہاں آباد کا پلانٹڈ سٹی بنایا اورکئی محل تعمیر کرائے۔ تاج محل کے نام سے جو محل تعمیر ہوا اس میں خود رہائش اختیار کی، اس موقعے پر باقاعدہ جشن منایا گیا۔ اس محل کے عقب میں واقع پہاڑی پر عیدگاہ تعمیر کرائی۔ ایک بڑا مدرسہ بھی قائم کیا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جتنا علمی اور تحقیقی کام نواب شاہجہاں بیگم کے دور میں ہوا وہ نہ ان سے پہلے ہوا اور نہ بعد میں ہوا۔ وہ خود بھی کئی کتابوں کی مصنفہ تھیں۔ انھوں نے انگلستان کا سفر بھی کیا اور وہاں لندن میں مسلمانوں کے لیے پہلی مسجد تعمیرکرائی۔

نواب شاہجہاں بیگم کی بیٹی، سلطان جہاں بیگم ریاست بھوپال کی آخری خاتون حکمران تھیں۔ انھوں نے بھی اپنے دور میں بھوپال شہر میں بہت سی نئی تعمیرات کرائیں ، جن میں مساجد، سرکاری دفاتر اور رہائشی محل شامل ہیں۔ سرکاری محکموں میں اصلاح اور عوامی بہبود کے اقدام، لڑکیوں کے ایک اچھے اسکول کا قیام بھی ان کا کارنامہ ہے۔

عثمان دموہی نے ’’بھوپال کی کہانی‘‘ میں بیگمات کے لباس و زیورات اور ان کے طرز زندگی کا ذکر کیا ہے جو اسلامی تہذیب و ثقافت کی مظہر تھی۔ اسی طرح عوامی زندگی کا جو انداز اور جو طور طریقے تھے ان کا ذکر بھی تفصیل سے کیا ہے نہ اب وہ پرانا شہر ہے ، نہ تہذیب ، نہ رسم و رواج ، نہ وہ ماحول۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ ریاست ہی ختم ہوگئی۔

محمد عثمان لکھتے ہیں کہ بھوپال میں اردو ادب اور شاعری کی ترقی وہاں کی خواتین حکمرانوں کی مرہون منت ہے جو خود اردو داں تھیں اور انھوں نے اردو کے باکمال عالموں، ادیبوں اور شاعروں کو بھوپال میں جمع کرلیا تھا۔ اس سرزمین کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ علامہ اقبال نے گاہ بہ گاہ یہاں قدم رنجہ فرمایا اور یہاں اہم نظمیں لکھیں۔

بھوپال کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ غالبؔ نے اپنا دیوان بہ طور خاص یہاں بھیجا تاکہ اس ریاست کی ادب نواز خاتون حکمران اسے محفوظ رکھ سکیں اور یہی ہوا۔ دیوان غالبؔ کا یہ نسخہ جوں کا توں محفوظ رہا۔ یہاں کے لوگوں نے ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری، مولوی عبدالرزاق، راس مسعود، سید سلمان ندوی اور بابائے اردو مولوی عبدالحق جیسے عظیم انشا پردازوں سے اکتساب فیض کیا۔ مولانا شبلی نعمانی کی ’’سیرت النبیؐ‘‘ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ پاتی اگر نواب سلطان جہاں بیگم کی ذاتی دلچسپی اور مالی اعانت اس میں شامل نہ ہوتی۔ نواب شاہجہاں بیگم تو خود بھی شاعرہ تھیں۔

عثمان دموہی نے بھوپال کے شاعروں منظر بھوپالی، عبیداللہ علیم اور محسن بھوپالی کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے اور ادیبوں میں پروفیسر آفاق احمد، اسد محمد خاں، صہبا لکھنوی اور قدوس صہبائی کو یاد کیا ہے۔ ان شخصیات کا جنھوں نے اپنی محنت ، ہمت اور جہد مسلسل سے اپنا نام خود پیدا کیا اور عوامی خدمات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناکر باکمال کارنامے انجام دیے، ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے خود کو انمٹ بنا لیا۔ ان میں سرفہرست ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں۔ دیگر شخصیات میں مولانا برکت اللہ بھوپالی، شہزادی عابدہ سلطان، محمد احمد سبزواری، شہریار خاں، عبدالحسین خاں، قمر النسا قمر، خوش بخت شجاعت، شگفتہ فرحت اور ظہور احمد بھوپالی شامل ہیں۔

عثمان دموہی نے اپنی کتاب کا ایک باب بھوپال کے تفریحی مقامات کے ذکر کے لیے وقف کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ بھوپال شہر اپنے خوبصورت اور دل فریب پہاڑوں ، وادیوں ، تالابوں اور بہتی گنگناتی ندیوں کی وجہ سے ایک خاص کشش رکھتا ہے۔ اس کا پر فضا ماحول اور قدرتی مناظر ہر ایک کو دعوت نظارہ دیتے نظر آتے ہیں۔ اس ریاست اور شہر کے رہنے والے ماضی میں اور اب بھی ان خوبصورت مناظر سے جو دل کو توانائی اور دماغ کو تازگی بخشتے ہیں، لطف اندوز ہونے کو ان مقامات پر جاتے ہیں۔ یہاں کا ہر موسم شکار اور سیر و تفریح کے لیے سازگار ہے۔‘‘

خوش رہیں محمد عثمان دموہی جن کی ’’بھوپال کی کہانی‘‘ نے پرانی یادیں تازہ کردیں۔ یہ میری بچپن کی خوش گوار یادیں ہیں جو بھوپال میں گزرا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔