وائٹ واش سے نیا داغ لگ گیا

سلیم خالق  جمعرات 10 اکتوبر 2019
سب سے بڑی غلطی کرکٹ بورڈ سے ہوئی جس نے مصباح الحق کومنہ مانگے معاوضے پر ہیڈکوچ اور چیف سلیکٹرکی دہری ذمہ داری سونپ دی۔

سب سے بڑی غلطی کرکٹ بورڈ سے ہوئی جس نے مصباح الحق کومنہ مانگے معاوضے پر ہیڈکوچ اور چیف سلیکٹرکی دہری ذمہ داری سونپ دی۔

ایک اچھے خاصے وننگ کمبی نیشن کوکیسے تباہ کرتے ہیں یہ کوئی پی سی بی سے سیکھے، پاکستانی ٹیم ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں مسلسل عمدہ پرفارمنس کی بدولت رینکنگ میں نمبر ون بنی، اس کا آٹھویں پوزیشن پر موجود اس سری لنکن سائیڈ سے مقابلہ تھا جس کے 10 اہم کرکٹرز دورے پر نہیں آئے، کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہوم گراؤنڈ پر گرین شرٹس کو ایسی رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مگر افسوس تینوں میچز ہارنے سے تاریخ میں پہلی بار وائٹ واش ہوا جو نیا داغ لگا گیا، سب سے بڑی غلطی کرکٹ بورڈ سے ہوئی جس نے مصباح الحق کو منہ مانگے معاوضے پر ہیڈکوچ اور چیف سلیکٹر کی دہری ذمہ داری سونپ دی، بیٹنگ کوچ کی غیراعلانیہ پوسٹ بھی انھوں نے سنبھالی، مصباح نے ڈرتے ڈرتے پہلی ٹیم منتخب کی اور عمر اکمل اور احمد شہزاد جیسے پٹے ہوئے مہروں کو بساط پر سجا دیا، ون ڈے میں عمدہ پرفارم کرنے والے عابد علی کو کوئی لفٹ نہیں کرائی۔

کیریبیئن لیگ کھیلنے میں مصروف شعیب ملک کو دلچسپی ظاہر کرنے کے باوجود نہیں بلایا، ڈومیسٹک کرکٹ کے کئی ٹاپ پرفارمرز بھی راہ دیکھتے رہ گئے، شکست کے ڈر سے تیار کردہ نام نہاد اسٹارز پر مشتمل ٹیم ہوم گراؤنڈ پر بری طرح ڈھیر ہو گئی، سرفراز احمد کو چوتھے نمبر پر کھلانے کا تجربہ فلاپ ثابت ہوا، ایسی کارکردگی سے ان پر دباؤ میں ہی اضافہ ہو رہا ہے، عمر اور احمد نے ایک بار پھرثابت کر دیا کہ انھیں قومی ٹیم سے دور رکھنا ہی بہتر ہے۔

حارث سہیل نے تیسرے میچ میں ففٹی بنائی مگر ابتدائی دونوں میچز میں باہر بٹھایا گیا تھا اس سے سلیکشن کا اندازہ لگا لیں، اوپننگ میں بھی تجربات ہوئے، بابر اعظم نائب کپتان بننے کے بعد جدوجہد کرنے لگے، ٹیم ان پر حد سے زیادہ انحصار کرتی ہے، وہ فلاپ ہوئے تو بیٹنگ لائن کچھ نہ کر سکی۔

فخرزمان نے ون ڈے میں بہتر پرفارم کیا لیکن ٹی ٹوئنٹی میں ان کی فارم پھر کھو گئی، ’’پاور ہٹر‘‘ آصف علی بھی ناکامی کا شکار ہوئے، افتخار احمد اور عماد وسیم کی پرفارمنس زیادہ خاص نہ تھی، جو ٹیم اپنے ہوم گراؤنڈ پر سازگار پچ پر تین میچز میں صرف ایک نصف سنچری بنائے اس سے آسٹریلیا میں کیا امیدیں رکھی جائیں، بولنگ میں وقار یونس کے آنے  سے بھی کوئی فوری تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔

تیسرے میچ کے سوا عامر کی کارکردگی مایوس کن رہی، وہاب ریاض نے بھی زیادہ متاثر نہیں کیا، اسپن ڈپارٹمنٹ کی کارکردگی بھی افسوسناک ہے، شاداب خان وکٹیں لینا بھول گئے، 52 کی اوسط صرف کسی بیٹسمین کو ہی جچتی ہے، عماد بھی ٹیم کو وکٹیں نہیں دلا سکے، فیلڈنگ  میں تو بہت ہی غیرمعیاری کارکردگی سامنے آئی، اس سیریز سے بھی پاکستان نے حریف ٹیم کو کئی اسٹار کرکٹرز کا تحفہ دیا، شکست کے اثرات زائل کرنا بہت مشکل ہوگا، آگے ویسے ہی آسٹریلیا کا سخت دورہ آنے والا ہے۔

میڈیا ڈپارٹمنٹ وسیم خان کو بہت پروموٹ کرتے رہتا ہے، اب ان کی ایک اور پریس کانفرنس رکھے تاکہ ان سے ٹیم کی اس کارکردگی اور عجیب وغریب فیصلوں پر وضاحت تو لی جائے، ویسے اب تشکیل نو کے دور اور صبر کرنے کے رسمی بیانات ہی تیار کیے جا رہے ہوں گے لیکن ایک بات طے ہے اگلے سال آسٹریلیا میں شیڈول ورلڈکپ میں اس ٹیم سے زیادہ امیدیں نہ رکھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔