افغانستان مذاکرات کے بعد

جمیل مرغز  جمعـء 11 اکتوبر 2019

امریکا اور طالبان کے مذاکرات ختم ہونے کے بعد اب کیا ہوگا؟۔ یہ سوال لوگوں کے ذہن میں گردش کر رہا ہے‘ مذاکرات ختم ہونے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ طالبان پھر ایک دو راہے پر کھڑے ہیں‘ ان کے سامنے مستقبل کا لائحہ عمل بنانے کا مشکل مرحلہ درپیش ہے‘ مذاکرات کے خاتمے کا سب سے زیادہ نقصان طالبان کو ہوا‘ وہ تو امریکی صدر کے افغانستان سے فوج جلد نکالنے کے اعلان سے بہت خوش تھے‘ پراعتماد اور ایک فاتحانہ فریق کی حیثیت سے مذاکرات کر رہے تھے۔

ان کو یقین تھا کہ آخری فتح ان کی ہے‘ اس لیے مذاکرات کے دوران ان کا موقف بھی بڑا سخت رہا تھا‘ اس غلط فہمی کا ان کو نقصان اٹھانا پڑا۔ اطلاعات کے مطابق انھوں نے امریکا سے یہ امر منوا لیا تھا کہ ان کے ساتھ ’’اسلامی امارات افغانستان‘‘ کے نمایندوں کے حیثیت سے معاہدہ کیا جائے گا‘ اور ان کا سفید رنگ کا جھنڈا بھی تسلیم کر لیا گیا تھا‘ ان کے ساتھ اس امر پر بھی اتفاق ہوا تھا کہ طالبان امریکی فوج کے خلاف کارروائیاں نہیں کریں گے اور صرف افغان حکومت کے فورسز کے خلاف کارروائی کریں گے اور امریکی فضائیہ ان کی مدد کے لیے نہیں آئے گی‘ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ افغانستان کی حکومت ان کے حوالے کی جائے گی۔

پھر ان کی مرضی تھی کہ موجودہ حکومت کے ارکان کے ساتھ کیا سلوک کرتی۔ طالبان نے جنگ بندی سے انکار اور افغان حکومت سے مذاکرات سے انکار کر کے اتنی اچھی شرائط گنوا دی‘ اب بات دوبارہ نئے سرے سے شروع ہو گی‘ ایسا لگتا ہے کہ اب طالبان کو بڑے نقصان کا اندازہ ہو گیا ہے اور وہ اب دوبارہ بات چیت شروع کرنے کے لیے مختلف ممالک کے دورے کر رہے ہیں۔

اپنے موقف کے حق میں حمایت حاصل کرنے کے لیے طالبان نے چین‘ روس اور ایران کے دورے کیے ہیں اور انھی کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے طالبان کا اعلیٰ سطح کا وفد گزشتہ دنوں اسلام آباد بھی آیا‘ ان سب ممالک کا مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق ہے‘ کیونکہ اس کے بغیر امریکا کی فوج افغانستان سے نہیں جائے گی اور امن قائم نہیں ہو گا۔ ملا برادر کی قیادت میں طالبان وفد نے پاکستان میں بہت سے اہم ملاقاتیں کیں۔

ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ طالبان کے موقف میں کافی نرمی آئی ہے‘ امریکی اب ان ملاقاتوں کے بعد باقاعدہ مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کریں گے‘ اب تو انتخابات کے بعد نئے صدر سے بھی بات لازمی کرنی ہو گی۔ یہ ایک حقیت ہے کہ طالبان نے اپنی کارروائیاں پورے ملک میں پھیلا دی ہیں اور اپنے زیر اثر علاقے میں اضافہ کیا ہے لیکن آج تک کسی بڑے شہر یا آبادی پر قبضہ نہیں کر سکے اور اگر حملہ کیا ہے تو اس کو برقرار نہ رکھ سکے‘ شبخون‘ اچانک حملوں اور خود کش دھماکوں سے وہ سرکاری فوج کو نقصان تو پہنچا سکتے ہیں لیکن وہ افغانستان کو فتح نہیں کر سکتے۔

اب جب طالبان کا وفد پاکستان کے دورے پر آیا تو افغان حکومت نے ان کو پروٹوکول دینے کی مخالفت کی‘ ادھر امریکا نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ طالبان کو جنگ بندی اور افغان حکومت سے بات چیت پر آمادہ کرے‘ اگر پاکستان کی یہ کاؤش کامیاب ہو جائے تو مذاکرات دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں لیکن ان میں کافی مشکلات پیش ہوں گی‘ کیونکہ سابقہ مذاکرات کے شرائط نئے حالات میں منوانا مشکل ہو گا۔ اب نئے سرے سے مذاکرات شروع کرنے ہوں گے۔اب جب کہ طالبان نے اپنے تمام حلیف ممالک سے رابطے مکمل کر لیے ہیں تو ذرایع کے مطابق ان کو ہر فریق نے افغان حکومت سے مذاکرات شروع کرنے پر زور دیا ہے‘ ساتھ ہی جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

اب تو مسئلہ یہ ہے کہ مذاکرات کیسے شروع ہوں گے؟ پرانا ایجنڈا تو اب قبول نہیں ہو سکتا ‘ امریکا اب یہ شرائط رکھ سکتا ہے کہ طالبان پہلے جنگ بندی کا اعلان کریں‘ اس کے علاوہ نئی افغان حکومت سے بھی بات کرنی لازمی ہو گی۔نئے انتخابات تقریباً پرامن ماحول میں ہوئے‘ اشرف غنی یا عبداللہ عبداللہ میں سے کوئی بھی صدر منتخب ہو سکتا ہے‘ افغانستان میں چار انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوئے اور منتخب صدور نے اپنی میعاد پوری کی اور تمام دنیا نے اس حکومت کو تسلیم کیا۔

اس سے ایک بات واضح ہے کہ افغانستان اس خانہ جنگی کے باوجود ایک جمہوری ملک ہے۔ ان حالات میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کو نظر انداز کرنا اور صرف غیرملکی طاقت یعنی امریکا سے بات چیت کرنا طالبان کے حق میں نہیں ہے ‘ افغانستان کی نئی نسل جو پاکستان اور دوسرے ممالک سے تعلیم حاصل کر کے آئی ہے ایک بڑی تعداد افغانستان کے اندر تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ مڈل کلاس اور بزنس کلاس بھی بڑی تیزی سے آگے آئی ہے ‘ قبائلی مشران بھی اکثریت میں حکومت کے حامی ہیں‘ فوج اور پولیس میں بھی بڑی تعداد ٹریننگ حاصل کر چکی ہے‘ ان تمام قوتوں کے ساتھ ساتھ طالبان مخالف چھوٹی قومیتیں مثلاً تاجک‘ ازبک‘ ہزارہ اور ترکمان وغیرہ بھی حکومت کے حامی ہیں‘ ان حالات میں طالبان کا حکومت مخالف رویہ مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔

امریکا بھی زیادہ عرصے تک مذاکرات کو ٹال کر طالبان کو دباؤ میں نہیں رکھ سکتا‘ ان تمام مسائل کا بوجھ پاکستان پر پڑے گا ‘ کیونکہ طالبان کا سب سے بڑا حامی پاکستان ہے اور یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ اکثر طالبان کے خاندان پاکستان میں رہتے ہیں‘ حال ہی میں بلوچستان کی مسجد میں جو خود کش دھماکا ہوا اس میں امام مسجد مر گیا تھا۔

یہ صاحب طالبان کے قائد ملا ہیبت اللہ کے بھائی تھے‘ اب پاکستان کو ضرورت ہے کہ کشمیر کے مسئلے میں امریکا اس کی حمایت کرے اس لیے بھی پاکستان طالبان پر زور ڈالے گا‘ پاکستان کی حکومت تو آج کل FATF کے نرغے میں ہے اس لیے بھی دہشتگرد تنظیموں کے خلاف اقدامات کر رہی ہے۔ عمران خان بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ کشمیر میں سرحد پار کارروائی کرنا کشمیر دشمنی کے مترادف ہے ۔

ان حالا ت میں افغانستان میں امریکا کی مدد کرنا پاکستان کا اولین فریضہ بنتا ہے ‘ پاکستان کی حکومت نے طالبان کے حالیہ دورہ میں ان پر زور دیا ہو گا کہ وہ جنگ بندی کا اعلان کریں اور افغان حکومت سے مذاکرات کرے‘ مذاکرات اور افغانوں کے درمیان کسی سمجھوتے کے بغیر امریکی افواج کا یکطرفہ انخلاء نہ صرف پاکستان بلکہ چین کے لیے بھی بڑا مسئلہ ہو گا‘ وہ اس لیے افغان امن عمل کی حمایت کر رہا ہے‘ روس اور ایران بھی اپنے پڑوس میں مزید بدامنی برداشت نہیں کر سکتے۔

اب طالبان کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے ‘  وہ یہ حقیقت تسلیم کر لیں کہ 1996ء اور 2019ء میں بہت بڑا فرق ہے ‘ اب نہ افغانستان وہ پرانا افغانستان ہے اور نہ عالمی صورت حال ان کے پرانے طرز حکمرانی کے لیے سازگار ہیں۔

گلبدین حکمت یار جیسا بڑا جہادی بھی موجودہ انتخابات میں صدارتی امیدوار ہے ‘ پرانے بڑے بڑے مجاہدین رہنماء بھی حکومت میں شامل ہیں‘ پاکستان بھی اب ان کی حمایت  نہیں کر سکتا‘ اس لیے طالبان کو بھی معروضی حقائق کا ادراک کرنا چائیے۔ ان کو افغانستان کی جمہوریت کو سپورٹ کرنا چائیے ‘ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لے کر مینڈیٹ حاصل کر کے حکومت حاصل کر لیں۔ یہ سب ممکن ہے لیکن وقت کو 20 سال پیچھے لے جانا ممکن نہیں ہے۔ یہ حقیقت  جتنی جلدی طالبان تسلیم کر لیں گے اتنا ہی ان کے لیے اور خطے کے لیے بہتر ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔