والدین کے حقوق اور اولاد کے فرائض

پروفیسر تفاخُر محمود گوندل  جمعـء 11 اکتوبر 2019
’’ ادب، پہلا قرینہ ہے محبّت کے قرینوں میں‘‘ فوٹو: فائل

’’ ادب، پہلا قرینہ ہے محبّت کے قرینوں میں‘‘ فوٹو: فائل

اسلام نے احترام آدمیت پر بہت زور دیا ہے۔ یہ مسجود ملائک ہستی کائنات ہست و بود میں موجود ہر جان دار اور بے جان سے افضل و ارفع اور اجمل و اجود ہے۔ اسی وجہ سے اسے اشرف المخلوقات کے مرصع تاج سے بہرہ یاب کیا گیا ہے۔ اسے نیابت الہٰی کی دولت سے مالامال کیا گیا۔ لیکن اس کے عز و شرف اور عظمت و توقیر کو قائم رکھنے کے لیے مشروط کیا گیا کہ اگر وہ اطاعت الہٰی اور اطاعت رسول اکرم ﷺ کے جذبے سے سرشار ہے تو احسن تقویم بھی ہے، نائب خدا بھی ہے اور اشرف المخلوقات بھی ہے لیکن اگر وہ صراط مستقیم سے بھٹکا ہوا راہی ہے تو پھر وہ بَل ھم اضل یعنی یہ ڈھور ڈھنگر ہے بل کہ اس سے بھی گیا گزرے ہے۔

اس کائنات کی ہر شے کو اسی حضرت انسان کے لیے مسخر کیا گیا۔ پھر اﷲ رب العزت نے ایک حکیمانہ نفاست سے انسانوں کی درجہ بندی کر رکھی ہے۔ انبیاء، اتقیاء، صلحاء، زہاد، عوام الناس ان میں ہر ایک کے احترام و مقام کا تعین کردیا گیا ہے۔ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے شفقت اسلام کا وہ سنہری اصول ہے جو اگر تقابل ادیان کیا جائے تو کہیں اور نظر نہیں آتا۔ قرآن حکیم ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، اس لامثال اور نادرالوجود کتاب کا اگر بہ نظر غائز مطالعہ کیا جائے تو انبیائؑ کے بعد توقیر و احترام کے حوالے سے والدین کا مقام آتا ہے۔

اور یہ آداب سکھانے کے لیے زجز و توبیخ کی انتہاء یہ ہے کہ فرمایا: ’’اگر وہ تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک بھی نہ کہو۔‘‘ کہ کہیں تمہاری اُف سے بھی وہ کبیدہ خاطر نہ ہوجائیں۔ یعنی حکمت خداوندی کو یہ معلوم تھا کہ جب بڑھاپے میں مسلسل علالت اور ضعف کی وجہ انسان کے قوی مضمحل اور اعصاب شکستہ ہوجاتے ہیں۔

قوت سماعت و بصارت اور متاع بصیرت پژمردگی کا شکار ہو جاتی ہے۔ ہڈیاں چٹخ چٹخ کر عمر رفتہ کو آواز دیتی ہوئی واماندگی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ حواس مختل حتیٰ کہ پورا وجود ہی عضو معطل بن کر رہ جاتا ہے، اس درماندگی و بے بسی کے عالم میں انسان کی طبیعت میں غصہ اور جذبات بے قابو ہوجاتے ہیں تو اس وقت بات بات پر جذبات بے قابو اور اظہار رنج و الم پر اتر آتے ہیں۔ یہ ’’اُف‘‘ کا لفظ اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ آزمائش اور ابتلاء کی اس گھڑی میں اولاد اپنا دریچہ دیدہ و دل وا کرتے ہوئے ان کے سامنے بچھ بچھ جائے۔ اس بات کی پوری حزم و احتیاط کرے کہ ان کی پلکوں سے گرنے والا کوئی آنسو اولاد کی کسی لغزش، گستاخی یا تساہل کا سبب نہ ہو۔ انسان ہر وقت اس بات کو ملحوظ خاطر رکھے کہ :

’’ ادب، پہلا قرینہ ہے محبّت کے قرینوں میں‘‘

عالم شباب سے لطف اٹھاتی ہوئی اولاد ذرا اس کیفیت پر گہری نظر سے غور کرے کہ کبھی و ناتواں، اضمحلال و ناتوانی کے یہ مجسمے جو عالم بے کسی و بے بسی میں بستر پر پڑے موت کو آواز دے رہے ہوتے ہیں، جب کبھی یہ بے نیازی و شباب میں شان بے نیازی سے گزر بسر کر رہے تھے ان کے رعب و جلال اور سطوت و شوکت کے سامنے گھر کے تمام لوگ سانس روک کر رکھتے تھے، کسی کو بلند آواز سے بولنے کی جسارت نہیں ہوا کرتی تھی۔

سب اہل خانہ معاشی، اخلاقی اور سماجی طور پر ان کے دست نگر تھے۔ سب ان کے سامنے دست طلب دراز کرتے تھے۔ ایسی عظیم الشان زندگی گزارنے والی یہ ناتواں ہستیاں اولاد کی محتاج ہوکر پریشان حالی میں ٹُکر ٹُکر عالم مسکنت میں اولاد کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوتی ہیں، جو سوچتی رہتی ہیں کہ کب ان کے بیٹے اور بیٹیاں ان پر چشم التفات کرتی ہیں۔ اہتمام لذّت کام و دہن سے لے کر بول و براز حتیٰ کہ بستر پر کروٹیں بدلنے تک بچوں کے محتاج ہوتے ہیں۔

یہی آزمائش کا وہ لمحہ ہوتا ہے جو کسی بچے کے لیے دخول جنّت الفردوس کا سبب بن جاتا ہے۔ بل کہ وہ چشم تخیّل میں بھی طائران جنّت کے ساتھ اڑتا پھرتا نظر آتا ہے۔ اور کسی بدبخت کے لیے وہ لمحہ عالم برزخ و دوزخ کے دہکتے شعلوں کی نذر ہوجانے کا سبب بن جاتا ہے۔

بہت ہی خوش مقدر ہے وہ اولاد جو اپنے والدین کی سوال آگیں نظروں کو بھانپتے ہوئے پائوں میں جوتا تک پہننے کی روادار نہیں ہوتی اور ایک ہی جست میں تشنہ لب والدہ یا والد کی تشنگی مٹانے کے لیے حاضر ہوجاتی ہے۔ ایک بار بوڑھے والدین کی زبان سے ہائے کا لفظ نکلے تو فرط محبت و مروّت سے تڑپ تڑپ اٹھتی ہے۔ اپنے والدین کی محبّت و خدمت کا یہ وہ عظیم اثاثہ ہوتا ہے جو نیک طینت اولاد اپنے دامن میں سمیٹ کر بڑے عاجزانہ انداز میں جب بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوگی تو بہار خُلد بریں ان کے مشام جاں کو معطر کرنے کے لیے بے تاب ہوگی۔ اس کے برعکس جس بدنصیب کے والدین دنیا سے رخصت ہوتے وقت اس سے ناراض ہوئے، وہ اگر صائم الدہر اور قائم الیل بھی ہے۔ بہ ظاہر زہد اتقاء اس کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔

نشان سجود اس کی جبین سے دُور سے نظر آرہا ہے۔ لیکن بارگاہ رب العزت وہ مستوجب سزا ہی ٹھہرے گا۔ عالم تنہائی میں بھی کی گئی اس کی تمام بے ریا عبادت ضایع ہوجائے گی۔ تھوڑی دیر کے لیے تصوّر تو کریں جب اولاد کی اشتہاء و تشنہ لبی مٹانے، انہیں خوب صورت لباس مہیا کرنے کے لیے اس کا باپ در در کی خاک چھانتا پھرتا ہے، صبح سے شام تک موسم کی شدت اور تمازت آفتاب سے بے نیاز مارا مارا پھرتا ہے۔

گرمیوں کی حدت ہو یا جاڑے کی شدّت اس کا ایک ہی نظریہ ہوتا ہے کہ میری اولاد کے زیب تن کے لیے خلعت فاخرہ مل جائے، اس کا قبہ شکم اچھی اور نفیس خوراک سے بھر جائے، اس کی تمنائیں اور خواہشات چشم زدن میں پوری ہوجائیں خواہ اس مقصد کے حصول کے لیے اس کی کمر گراں باری کا شکار ہوجائے، مگر وہ ہر حال میں اولاد کو خوش رکھنا چاہتا ہے۔ اولاد کو ایسی دل نواز اور فیاض فطرت ہستی کوئی اور مل سکتی ہے ۔۔۔۔ ؟

دل شکستہ پہ احساں تری نگاہوں کے

ہیں بے شمار کہاں تک کوئی شمار کرے

دوسری طرف ماں ہے جس کی زندگی کا ہر ایک لمحہ اپنی اولاد کے نشیب و فراز کا عملی مشاہدہ کرنے میں بسر ہوجاتا ہے۔ نو ماہ تک حضرت انسان شکم مادر میں تخلیق کے عمل سے گزرتا ہے۔ یہ وقت ایک ماں کے لیے کتنا صبر آزما اور کرب ناک ہوتا ہے، اس کا اندازہ لگانا بہت مُشکل ہوتا ہے۔ یہ عظیم و بے مثال ہستی ہر لحظہ ایک تشویش ناک پُردرد تبدیلی سے دوچار ہوتی ہے۔

وہ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے اور کروٹیں بدلتے ہوئے ایک غیرمرئی اور انجانے خوف کا شکار رہتی ہے۔ بعض اوقات تو وہ موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ پھر بچے کی پیدائش کے وقت بھی وہ ایک ناقابل بیان صورت حال سے دوچار ہوتی ہے۔ یہیں پر بس نہیں، بچے کی پیدائش کے بعد اس کی آئندہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں وادی خارزار ہوتی ہے۔ ہر آن اپنے بچے کی بھوک، پیاس اور فصل گُل ہو یا موسم خزاں دونوں کی شدت سے بچا کر رکھنا، خود جاڑوں کے موسم میں (بچے کے پیشاب کی صورت میں) گیلے بستر پر رات گزار دینا اور اپنے جگرگوشے کو خشک بستر پر لٹانا اور پھر گرمی کی صورت میں بچے کو متواتر پنکھا جھلتے رہنا، یہ سب اس کریم النفس اور عظیم ہستی کا ہی حیات بخش کارنامہ ہے۔

اسی لیے خدائے بزرگ و برتر نے قرآن حکیم میں فرمایا کہ ان سے اظہار ناراضی توکیا اُف تک بھی نہ کہو۔ اور پھر ذرا ظرف مادر دیکھیے کہ جب ایک ملازمت پیشہ انسان یا تلاش روزگار کے سلسلے میں دن بھر گھر سے باہر بُود و باش کی ذمّے داریاں ادا کرنے کے بعد گھر پہنچتا ہے تو یہاں بھی ماں کی وسیع القلبی اور فطری محبّت کا ایمان پرور مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔

اہلیہ سے لے کر بچوں تک سب مادی خواہشات کے طلب گار ہوتے ہیں مگر ماں کا ظرف بھی دیکھیے اس نے کبھی اپنے فرزند کی جیب یا ہاتھوں کو نہیں دیکھا کہ وہ کھانے کے لیے کیا لایا ہے۔ وہ ہمیشہ بیٹے کی پیشانی اور چہرے کی طرف دیکھتی ہے کہ کہیں راستے میں اس کے بیٹے یا بیٹی کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آنے کی وجہ وہ کسی کرب میں مبتلا تو نہیں۔ وہ سب سے پہلے اس کی خیریت دریافت کرتی ہے کبھی ملتجیانہ نظروں سے بیٹے کی طرف نہیں دیکھا۔ شاعر نے کتنی خوب صورت بات کہی ہے۔

اولاد پر اگرچہ پدر بھی نثار ہے

پَر ماں کا دل تو رحمت پروردگار ہے

اے صاحبان ایمان و اسلام! آئیں ہم سب اس بات کا آج ہی عہد کرلیں کہ اپنے ضعیف و ناتواں والدین کے سامنے ہمیشہ جبین نیاز خم کیے رکھیں وہ اگر کبھی کسی بات پر جھنجھلا جائیں اور ناراض ہوجائیں تو فوراً ان کے دست شفقت کو بوسہ دیتے ہوئے معافی کے خواست گار ہوں۔ اگر وہ خواہش مندانہ نظروں سے اولاد کی طرف دیکھیں تو ان کے چہرے کے اس تاثر کو بھانپتے ہوئے فوراً استفسار کریں کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔

وقت بڑی تیزی کے ساتھ گزر جاتا ہے اور پھر وہ لمحات ماضی کبھی واپس نہیں آتے۔ اگر وہ دنیا سے کیفیت درد میں رخصت ہوگئے تو پھر کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ان کی خدمت میں بسر ایک لمحہ بھی دنیا و مافیہا سے کہیں فزوں تر ہوتا ہے۔ اس کائنات ارضی کے اوپر اور چرخ کبود کے نیچے ان جیسی شفیق و کریم ہستیاں اور کوئی نہیں ہوتیں۔ ان کی خدمت اپنی اولاد سے کروانے کی بہ جائے اپنے ہاتھوں سے یہ سعادت سمیٹ لیں تاکہ آپ کا ضمیر مطمئن اور شادگام ہو۔

بہ صورت دیگر یہی پچھتاوا رہ جاتا ہے۔

زندگی میں تیری ہر روز، روزِ عید تھا

اب ہوا احساس مجھ کو ٹھوکریں کھانے کے بعد

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔