یہ دفاعی امور کے ماہر لکھاری!

نصرت جاوید  منگل 8 اکتوبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکمرانی کے آخری برسوں سے ہمارے ہاں انگریزی میں لکھنے والے کچھ ایسے مفکرین کی کھیپ تیار ہونا شروع ہوئی جنھیں میرے اور آپ جیسے عام انسان ’’دفاعی امور کے ماہرین‘‘ کے طور پر جانتے ہیں۔ یہ لکھاری اخبارات کے لیے باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں مگر پیشہ ور صحافی نہیں ہوتے۔ انھوں نے مشقت اور دُکھوں سے بھرے ان مراحل کا ہرگز سامنا نہیں کیا ہوتا جو ایک کل وقتی صحافی کو اپنے پیشے کے مختلف شعبوں سے بتدریج کسی بہتر سطح تک پہنچنے کے لیے بھگتنا پڑتے ہیں۔ میں ایسے لکھاریوں کی اکثریت سے ہرگز مرعوب نہیں ہوتا۔ انھیں شوقیہ فن کار یا ہمارے دھندے میں مہمان اداکاروں کی صورت لیتا ہوں۔ اسلام آباد میں مقیم غیر ملکی سفارتکار اور صحافی مگر ان کے بہت ناز اٹھاتے ہیں۔ ان سے ’’اندر کی باتیں‘‘ جاننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور یہ ’’ماہرین‘‘ کمال خود اعتمادی سے اپنے گھڑے ہوئے افسانے سناتے چلے جاتے ہیں۔ جب بھی کسی آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آتا ہے تو ایسے لکھاری بہت رش لینا شروع کر دیتے ہیں۔ پچھلے تین مہینوں سے کچھ ایسا ہی منظر بن رہا تھا۔

محض ایک رپورٹر کی حیثیت سے صحافیانہ مشقت کے دوران میں نے مرحوم آصف نواز جنجوعہ، جنرل عبدالوحید کاکڑ اور جنرل مشرف کی بطور آرمی چیف تعیناتی کے پیچھے چھپے مراحل کے بارے میں بااثر افراد کو ڈھونڈ کر مسلسل رابطے اور سوالات کے باعث بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ اس ساری مشق سے گزرتے ہوئے بالآخر دریافت یہ کیا کہ جن لوگوں کے پاس آرمی چیف کی تعیناتی کا اختیار ہوتا ہے، وہ اس عہدے کے لیے کسی مناسب شخص کی تلاش کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہیں کیا کرتے۔ بس آخری لمحات میں کچھ عوامل انھیں ایک خاص شخص کے سرپر ہما بٹھانے کے قابل بنا دیتے ہیں۔ اسی لیے جب آج سے 3ماہ قبل جنرل کیانی کے متوقع جانشین کے بارے میں ’’دفاعی امور کے ماہرین‘‘ نے اپنے تجزیے لکھنا شروع کر دیے تو اس کالم میں صرف اتنا یاد دلانے پر اکتفا کیا کہ آئین میں 18 ویں ترمیم کے بعد کسی آرمی چیف کی تعیناتی کا مکمل اختیار وزیر اعظم کے پاس ہے۔ نواز شریف تیسری مرتبہ اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ بجائے کسی ممکنہ جانشین کے اچھے اور منفی پوائنٹس پر وقت ضایع کرنے کے ہمیں یہ جاننے کی کوشش کرنا چاہیے کہ نواز شریف کے اپنے ذہن میں کیا ہے۔

نواز شریف کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ وہ دل کی بات کسی کو نہیں بتاتے۔ تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن جانے کے بعد تو پہلے سے بھی کہیں زیادہ محتاط ہو گئے ہیں۔کسی بھی اہم معاملے پر غور کرنے کے لیے طویل اجلاس بلوالتے ہیں اور وہاں لوگوں سے مسلسل سوالات کرتے رہتے ہیں۔ اتنے سارے جوابات سننے کے بعد بھی فیصلہ فوری نہیں کرتے۔ پھر اچانک کسی دن جو سوچا ہوتا ہے کر ڈالتے ہیں۔ نواز شریف کے ذہن کو سمجھنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ان سوالات کے حقیقی پس منظر کو پوری طرح سمجھا جائے تو مختلف موضوعات پر منعقد اجلاسوں میں وہ بار بار دہراتے ہیں۔ ہمارے ’’دفاعی امور کے ماہرین‘‘ نے مگر جنرل کیانی کے مستقبل کے بارے میں اپنی کہانیاں گھڑنے سے پہلے ایسی کوئی کوشش بالکل نہیں کی۔ ان کی اکثریت یہ فرض کیے بیٹھی رہی کہ ہو گا وہی جو ’’فوج چاہے گی‘‘ اور جنرل کیانی نے بڑی سوچ بچار کے بعد اپنے ٹھنڈے انداز میں دو افراد کو اس طرح Place کر دیا ہے کہ نواز شریف صاحب ان میں ایک کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور دوسرے کو نیا آرمی چیف بنانے پر ’’مجبور‘‘ ہو جائیں گے۔ میں جان کی امان پاتے ہوئے بس یہ التجا کرتا رہا کہ خدارا اس ضمن میں کوئی قطعی فیصلہ سنانے سے پہلے نواز شریف کی شخصیت اور ذہن کو سمجھنے کی بھی تھوڑی کوشش کر لی جائے۔

میرے جیسے ’’اُردو میڈیم‘‘ عامی کی التجائوں پر لیکن غور نہیں کیا جاتا۔ ’’دفاعی امور کے ماہرین‘‘ کچھ حاضر سروس اور سابق فوجیوں کے جن کی اکثریت مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں سے وابستہ رہی ہے خیالات سن کر اپنے خاکے بناتے رہتے ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ غیر ملکی سفارتکاروں اور صحافیوں سے ملنے جلنے والوں کی اکثریت نے اچانک یہ طے کر دیا کہ جنرل کیانی پاکستان کے عسکری اور خارجہ امور میں سب سے بااثر کردار ادا کرتے رہیں گے۔ ان کے ’’تجربے‘‘ سے بلکہ فائدہ اٹھانے کے لیے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے عہدے کو ’’نمائشی‘‘ کے بجائے ’’فیصلہ سازی کا اصل مرکز‘‘ بنا دیا جائے گا۔ جب یہ عہدہ اس قابل ہو جائے گا تو اسے جنرل کیانی کے حوالے کر دیا جائے گا۔

میں نے اس ضمن میں مسلسل پھیلتی کہانیوں کو سن کر تین ایسی حکومتی شخصیات سے الگ الگ ملاقاتیں کی جو وزیر اعظم کے دفاعی اور خارجہ امور کے بارے میں اہداف و ترجیحات کی کافی سمجھ رکھتے ہیں۔ ان سب نے قطعیت کے ساتھ دعویٰ کیا کہ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین کی ذمے داریوں اور اختیارات میں اسے فیصلہ کن عہدہ بنانے کے لیے ضروری فیصلے کرنے کے لیے کسی بھی سرکاری اجلاس میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ وزیر اعظم نے کم از کم ان تین افراد میں سے کسی ایک کے ساتھ اس ضمن میں غیر سرکاری اور بے تکلفانہ لمحات میں بھی کوئی فقرہ نہیں کہا۔

دفاعی امور کے اپنے تئیں ماہر بنے لکھاریوں میں سے چند ایک نے ان افراد سے بھی رابطہ کیا تھا جنھیں میں ملا تھا۔ انھوں نے ان لکھاریوں کو بھی وہی کچھ بتایا جو مجھے سنایا گیا تھا۔ ان لکھاریوں نے مگر ایک کہانی گھڑ لی تھی۔ وہ اسے پھیلاتے اور اس پر اصرار کرتے چلے گئے اور بالآخر تنگ آ کر جنرل کیانی کو اتوار کے دن ISPR سے جاری ایک بیان کے ذریعے صاف لفظوں میں قوم کو یاد دلانا پڑا کہ 28 نومبر 2013 ان کا فوج کی ملازمت میں آخری دن ہو گا۔ ان کے اس بیان کو ’’جمہوری نظام کی مضبوطی اور استحکام‘‘ کا ایک اور سنگ میل قرار دیتے ہوئے ہمارے میڈیا نے اس کے اوپر بڑے شادیانے بجائے ہیں۔ حیرت اور مسرت کے ان لمحات میں کسی کو یہ سوال پوچھنا اور اس پر غور کرنا یاد ہی نہ رہا کہ جنرل کیانی کو از خود یہ بیان دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ یہ ’’خبر‘‘ وزیر اعظم جو وزیر دفاع بھی ہوتے ہیں کے ذریعے ہم تک کیوں نہیں پہنچی؟ سیدھی سی بات ہے۔ اپنے تئیں دفاعی امور کے ماہر بنے لکھاریوں نے ایسی فضا بنا دی تھی جس نے بالآخر جنرل کیانی جیسے محتاط اور خاموش الطبع انسان کو بولنے پر مجبور کر دیا۔ ان کا اس طرح بیان دینا صاف طور پر بیان کرتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ابھی وہ وقت نہیں آیا جہاں ادارے اپنے اپنے دائرے میں رہ کر اپنے فرائض سرانجام دیتے رہیں اور وہ بھی ایک طے شدہ شیڈول کے مطابق۔ ایسا ہو جائے تو ’’دفاعی امور کے ماہر‘‘ لکھاریوں کی دکانوں پر رونق کیسے لگے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔