اجتماعی قربانی

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  منگل 8 اکتوبر 2013
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

سماجی تبدیلی (سوشل چینج) کی اصطلاح سے عمرانیات (سوشیالوجی) کے طالب علم بخوبی واقف ہیں۔ فی زمانہ ہر معاشرہ تبدیلیوں سے گزرا اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ تبدیلی کے اس عمل میں انسان کو فوائد اور نقصانات دونوں طرح کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر معاشرے میں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو اپنی دانش میں تبدیلیوں کی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں اور مستقبل کے حوالے سے مثبت اور منفی اثرات کی پیش گوئی بھی کرتے ہیں مثلاً جب مغربی طرز فکر میں عورتوں کو مردوں کے برابر لانے اور انھیں حقوق و آزادی دلانے کے نام پر نئے رجحانات سامنے آئے تو عورتوں کو بھی مردوں کی طرح کام کاج یعنی دفتروں وغیرہ میں ملازمت کرنے کو ایک مثبت اور اچھا عمل قرار دیا گیا۔ تنقید نگاروں نے خیال ظاہر کیا کہ اس سے خاندان اور معاشرے پر منفی اثرات پڑیں گے مثلاً بچوں کی پرورش متاثر ہو گی جس سے مستقبل میں مسائل پیدا ہوں گے۔

اس تنقید کا حل ’’ڈے کیئر سینٹر‘‘ کی شکل میں نکالا گیا اور ملازمت پیشہ خواتین کو اپنے بچے دوران ملازمت (صبح تا شام) ڈے کیئر سینٹر میں رکھنے کے مواقعے فراہم کر دیے گئے۔ بظاہر یہ ایک اچھا عمل تھا لیکن نتیجے میں ایک اور مسئلہ کھڑا ہوا کہ جب میاں بیوی سب ملازمت پر چلے جائیں اور بچوں کو ڈے کیئر سینٹر چھوڑ دیا جائے تو پھر بوڑھے والدین کی خدمت کون کرے؟ پھر اس کا حل بھی نکالا گیا اور ’’اولڈ ہاؤس‘‘ متعارف کرا دیے گئے چنانچہ میاں بیوی دفتر میں، بچے ڈے کیئر سینٹر میں اور بوڑھے والدین اولڈ ہاؤس میں۔ اب ایک ریاست کو خیال آیا کہ یہ تو بوڑھے والدین کے ساتھ زیادتی ہو گئی کہ ’’آزادی نسواں کی اس کمرشل لائف‘‘ میں بوڑھے والدین سے اولڈ ہاؤس میں ملاقات کے لیے بھی اولاد کے پاس وقت نہیں، چنانچہ قانون بنا دیا گیا کہ جو اپنے بوڑھے والدین سے ملاقات کے لیے وقت نہیں نکالیں گے وہ سزا کے لیے تیار ہو جائیں۔ تنقید نگاروں نے کہا کہ جس سماجی تبدیلی میں اولاد کو ماں بھی وقت نہ دے سکے اور انھیں ڈے کیئر سینٹر میں ملازمہ کے حوالے کر دیا جائے اس سماجی تبدیلی میں بھلا بزرگ والدین کے لیے وقت کہاں سے آئے؟

خیر یہ تو مغربی معاشرے میں ’’سماجی تبدیلی‘‘ کی بات تھی، اب ہمارے ہاں بھی اس قسم کی تبدیلیاں آ رہی ہیں اور تنقید نگاروں کی جانب سے اس سلسلے میں آراء بھی سامنے آ رہی ہیں۔ گزشتہ روز ایک محفل میں ایک ایسی ہی مثبت سماجی تبدیلی کا ذکر ہو رہا تھا۔ یہ سماجی تبدیلی دین کے حوالے سے ہے۔

بقر عید کے موقعے پر اجتماعی قربانی کا تصور آج ہمارے مسلم معاشرے میں نہ صرف قبول کر لیا گیا ہے بلکہ اس کے قواعد پر پختہ ایمان بھی قائم ہو چکا ہے۔ اجتماعی قربانی کے عمل پر بعض تنقید نگاروں نے اہم سوال اٹھائے ہیں جو درحقیقت اپنے اندر وزن بھی رکھتے ہیں۔ چونکہ یہ عمل بہت تیزی سے مقبول ہو رہا ہے اور مذہبی مدارس، جماعتیں بھی اس عمل میں شامل ہیں لہٰذا ان تنقیدوں پر غور و فکر بہت ضروری ہے۔

بلاشبہ اجتماعی قربانی کرنے کے ایک دو نہیں بہت سے فائدے ہیں مثلاً:1۔ آج کے مہنگائی کے دور میں سستی قربانی بھی ہو جاتی ہے۔ 2۔ جن گھروں میں جانور رکھنے کی جگہ نہیں مثلاً فلیٹس میں رہنے والے، ان کو جانور خرید کر لانے اور رکھنے کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ 3۔ قصائی کو تلاش کرنا، جانوروں کے لیے کھانے پانی کا بندوبست کرنا مسئلہ نہیں رہتا۔ 4۔ کھال کس کو دیں اور گوشت کہاں کہاں تقسیم کریں، اس مسئلے سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے کیونکہ بعض فلاحی ادارے اس کا بھی پورا پورا اہتمام رکھتے ہیں۔

مذکورہ بالا تمام مثبت نکات کے باوجود بعض مذہبی رجحانات کے حامل افراد اس اجتماعی قربانی کے عمل کو اسلامی معاشرے اور اسلامی روح کے منافی قرار دیتے ہیں ان کا خیال ہے کہ:

1۔ اس عمل سے مسلمان دین سے مزید دور ہوتے جا رہے ہیں۔

2۔ اجتماعی قربانی کے عمل سے بہت سی سنتیں نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں جس سے آنے والی نسل ناواقف ہو گی مثلاً جانور کا خریدنا، خریداری کے لیے مشقت کرنا، جانور کو چارا کھلانے اور دیکھ بھال کی مشقت۔

3۔ جانور کا شرعی نقطہ نظر سے خریداری کے عمل سے لے کر قربانی یعنی ذبیحہ کے عمل کا نئی نسل کا اپنی آنکھوں سے نہ دیکھنا۔

4۔ قربانی کے گوشت کا تقسیم کرنے کا عمل ختم ہو جانا (یعنی ادارے کے ذریعے ہی مستحقین میں تقسیم کر دیا جانا)۔

راقم نے جامعہ کراچی میں ایک ریسرچ اسکالر سے اس ضمن میں سوال کیا کہ اجتماعی قربانی کے اس عمل سے مسلمان دین سے دور کس طرح ہو سکتے ہیں؟ ان کا خیال تھا کہ آج صرف فلاحی ادارے ہی مسلمانوں سے یہ اپیل نہیں کر رہے بلکہ مذہبی جماعتوں سے منسلک مدارس بھی عام مسلمانوں کو یہ سہولت مہیا کر رہے ہیں کہ آپ اجتماعی قربانی میں شرکت کر کے تمام مسائل یا جھنجھٹ سے آزاد ہو سکتے ہیں۔ آپ صرف اپنے حصے کی رقم جمع کرائیں اس کے بعد جانور کی خریداری، اس کی دیکھ بھال، چارہ کھلانے کا مسئلہ، ذبیحہ کا مرحلہ اور حتیٰ کہ گوشت کی تقسیم کا مرحلہ بھی حل کر دیا جائے گا۔ اب ذرا غور کیجیے کہ اگر اس قسم کی معاشرتی تبدیلی مذہب کے حوالے سے چل نکلی اور اجتماعی قربانی کا کلچر عام ہو گیا تو کل کو نئی نسل کی اس ضمن میں تربیت ہو گی؟ قربانی کا مرحلہ بھی ایک سیٹھ اپنے دفتر میں بیٹھے بیٹھے اجتماعی قربانی میں اپنے حصے کا ایک چیک کاٹ کر کسی دینی یا فلاحی ادارے کو دے گا اور بس قربانی ہو گئی؟

ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ روایتی تہذیبوں میں بھی علم عملی طریقے سے ہی منتقل کیا جاتا تھا۔ مسلمان کا بچہ وضو کا طریقہ پڑھ کر نہیں اپنے بڑوں کو دیکھ کر سیکھتا ہے، مقدس پیغام کا طریقہ بھی مقدس ہوتا ہے، قربانی کا عمل بھی ایک مقدس پیغام ہے جو اجتماعی قربانی میں ختم ہو جاتا ہے۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ صرف کھالوں کے ہر جائز و جانائز طریقے سے حصول کے لیے ہم نے اجتماعی قربانی کے کلچر کو فروغ دینے کی روش اختیار کر لی ہے جس میں غیر مذہبی فلاحی ادارے ہی نہیں خود مذہبی مدارس بھی بھرپور طریقے سے شامل ہیں اور یہ مذہبی مدارس انجانے میں بڑے خلوص کے ساتھ اپنے ہی اسلامی کلچر کی بنیاد کھودنے جا رہے ہیں۔ قربانی کی اصل روح جانور کے ساتھ محنت مشقت کر کے اور محبت حاصل کرنے کے عمل سے ذہنی و جسمانی قربانی دے کر ہی حاصل ہوتی ہے اور ہم گوشت تقسیم کرنے کی محنت والی قربانی بھی نہیں دینا چاہتے۔ گویا جانور کی تو قربانی دے رہے ہیں مگر اپنی محنت و مشقت کی قربانی نہیں دے رہے۔

بات تو سچ ہے کیونکہ آج ہمارے ہاں ایک بھائی ترقی کر کے دولت مند ہو جاتا ہے تو وہ اپنے پسماندہ علاقے کو چھوڑ کر پوش علاقے میں منتقل ہو جاتا ہے اور پھر اپنے سگے رشتے داروں سے ملنے عید پر ہی گوشت دینے آتا ہے، اگر وہ بھی فلاحی اداروں کے ذریعے قربانی اور گوشت تقسیم کا مرحلہ طے کر لے تو بھلا وہ اپنے پوش علاقے سے نکل کر کسی غریب بستی میں اپنے عزیز و اقارب سے عید ملنے کس طرح آئے گا؟ کیا اجتماعی قربانی کا کلچر، اسلامی کلچر پر کاری ضرب نہیں؟ آئیے غور کریں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔