سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 13 اکتوبر 2019
ابھی وہ اصرار ہی کر رہے تھے کہ زور سے کچھ گرنے کی آواز آئی اور گہرا غبار چھا گیا۔فوٹو : فائل

ابھی وہ اصرار ہی کر رہے تھے کہ زور سے کچھ گرنے کی آواز آئی اور گہرا غبار چھا گیا۔فوٹو : فائل

وہ وزن کم کیوں نہیں کر رہا۔۔۔؟
ر۔ ط۔ م
خانہ پُری

عمارت کے مکین جان بچانے کی تگ ودو میں ہیں۔۔۔

زلزلے کے شدید جھٹکے صاف محسوس ہو رہے ہیں، بہت سے کم زور گھر گر بھی چکے ہیں۔۔۔

بہت سی عمارتیں یوں تو مخدوش نہ لگتی تھیں، لیکن اب ان کے بھی بہت سے حصے منہدم ہو رہے ہیں۔۔۔ بہت سی لرزہ براندام عمارتوں میں بے شمار لوگ محصور ہیں۔۔۔

بہ ظاہر مضبوط اور فلک بوس عمارت میں کبھی کوئی گرنے والے چھجّے کی زد میں آجاتا ہے۔۔۔ کبھی کوئی کسی سیمنٹ کے ’کھپرے‘ سے چوٹ کھا کر گھائل ہو جاتا ہے۔۔۔

بہت سے مکین اس میں سے نکل نکل کر بھاگ رہے ہیں۔۔۔ کہ کسی طرح محفوظ ہو جائیں۔۔۔ بہت سے پہلے ہی بہت آرام سے اپنی اضافی ’کارکردگی‘ کے سبب بنائے گئے ’’محفوظ خانوں‘‘ میں جا دبکے ہیں۔۔۔

لیکن جن کا اس عمارت کے سوا کچھ نہیں، انہیں اب یہ احساس شدت سے ہو رہا ہے کہ ایمان داری کے نام پر انہوں نے عمارت کے ہی کے سائے پر اکتفا کیوں کیا؟ کیا یہ سب ان کے اسی خلوص کا صلہ ہے۔۔۔؟ یا کچھ ناعاقبت اندیشی کو بھی دوش ہے۔۔۔؟

وہ چلّانے لگتے ہیں، سب کو بتانا چاہتے ہیں کہ ابھی کل ہی کی تو بات ہے، کہ تم سب ہمیں امید کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔۔۔ ہم تمہاری دل وجان سے مدد کرتے تھے۔۔۔ تم جواب میں ہماری سیوا کرتے تو ہم اُسے اپنا فرض بتاتے۔۔۔ آج تم کیوں بے حس ہو گئے ہو، مگر اُس کی آواز اسی کے اندر گھٹ کر رہ جاتی ہے۔۔۔

وہ دیکھتے ہیں کہ ساتھ رہنے والے بھی ان کے ہم آواز ہونے سے کترا رہے ہیں۔۔۔ نگاہیں چرا رہے ہیں۔۔۔

وہ اس عمارت میں بہت گھبرا رہا ہے، ’زمین‘ زور زور سے ہل رہی ہے۔۔۔ اس کا فرش تو ڈول رہا ہے۔۔۔

’کیا یہ کوئی بحری جہاز ہے۔۔۔؟‘ وہ خود کلامی کرتا ہے۔

ہاں شاید۔ تو کیا سمندر کی لہروں میں بہت تلاطم ہے کہ بحری جہاز کا ناتواں وجود اسے سہارنے سے قاصر ہے۔۔۔ کوئی جہاز راں کو تو سمجھاؤ۔۔۔ وہ وزن کم کیوں نہیں کر رہا۔۔۔

یہ ایک آدمی، جس کا ’وزن‘ 50 کے برابر ہے۔۔۔ اگر اسے خارج کر دو، تو ہم جیسی پچاس جانیں بچ سکتی ہیں، پچاس جانوں کا مطلب پچاس گھروں کا سُکھ باقی رہ سکتا ہے۔۔۔ اور یہ جو پچاس افراد جتنا ایک ہے، اس سے کہو نا، خود ہی ڈبکی لگا دے۔۔۔ سمندر میں اس کی سب ہی سے تو دوستی ہے۔۔۔ نہ کوئی وہیل مچھلی اسے نگلے گی اور نہ کوئی شارک اسے نقصان پہنچائے گی۔۔۔

جاؤ کہوناں، تم کہو! نہیں تم کہو۔۔۔

ابھی وہ اصرار ہی کر رہے تھے کہ زور سے کچھ گرنے کی آواز آئی اور گہرا غبار چھا گیا۔

میں نے جلدی سے تازہ اخبار اندر کے صفحوں تک ٹٹولا، چینلوں سے رجوع کیا۔۔۔

اور پھر سب کچھ وہم سمجھ کر ٹال دیا۔۔۔!

کتاب مرتب کرنے کی آرزو نہیں۔۔۔
مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر
حساب سودوزیاں شمار کرتے ہوئے نئے لکھے افسانوں پر نظر پڑی۔ گیارہ افسانے! زندگی کے گیارہ روپ اور ہر روپ کے سو بہروپ۔۔۔!

میں انہیں کتاب ’’برگد‘‘ میں شامل کر دوں تو 20 ہو جائیں گے لیکن، اب کوئی کتاب مرتب کرنے کی آرزو ہے نہ دل چسپی! یہ کہانیاں منظر عام پر نہیں آئیں گی۔ ایک سیاہ بکس میں کچھ ’’تحائف‘‘ کے ساتھ خانۂ بے آباد کے کسی دھول زدہ کونے میں پڑی رہیں گی۔ یہاں تک کہ ان کے کنارے مڑ جائیں گے اور کاغذ زرد ہو کر بُھربُھرا ہو جائے گا۔ تمہارے وعدوں اور میرے خوابوں کی مانند۔۔۔!

۔۔۔

راہ زن کا تو کوئی مستقبل نہیں، لیکن۔۔۔
فواد رضا، کراچی

گذشتہ شب رات ساڑھے 12 بجے تک میں اور دیرینہ دوست عدیل زمان گلشن اقبال بلاک نمبر دو میں ’پنچایت‘ لگائے ہوئے بیٹھے تھے، جی بھر کے حالات پر بھڑاس نکالنے کے بعد جب رخصت کا وقت آیا، تو عدیل نے کہا کہ یار ذرا ’اے ٹی ایم‘ تک چل۔۔۔! بلاک نمبر دو عابد ٹائون سے ایک سنسنان سڑک موچی موڑ تک آتی ہے اور اسی ویرانے میں ایک بینک نے اپنی شاخ کھولی ہوئی ہے، جس میں ’اے ٹی ایم‘ بھی ہے۔ عدیل اندر گیا اور چند سیکنڈ بعد ہی واپس لوٹ آیا کہ مشین کو موت آگئی ہے، کہیں اور چلتے ہیں۔ موچی موڑ کی طرف بڑھے ہی تھے کہ مجھ غریب صحافی کی بائیک نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ نصف شب کا عالم سنسان سڑک اور ایسے عالم میں پیچھے سے ایک 125 اسکوٹر کی آواز۔۔۔۔!

کراچی میں رہنے والے بہ خوبی جانتے ہیں کہ ایسے ماحول میں اس آواز کا مطلب کیا ہوتا ہے، قسمت نے یاوری کی کہ اسی وقت علاقے میں میچ کے سبب گشت کرتی ہوئی پولیس کی اسکوٹریں آگئیں اور ’ون ٹو فائیو‘ پر سوار دو جوان ہمیں دیکھتے ہوئے گزر گئے۔ ممکن ہے کہ ہمارا گمان غلط ہو اور وہ کوئی عام شہری ہوں، لیکن موبائل اور کیش چھنوانے کے لیے ہم ایک انتہائی شان دار جگہ پر موجود تھے! اللہ اللہ کر کے بائیک اسٹار ٹ ہوئی اور خطرے کو بھانپتے ہوئے ہم نے ’اے ٹی ایم‘ جانے کا ارادہ ملتوی کر کے بائیک واپس عدیل کے گھر کی جانب گُھمالی۔

ہم خوش نصیب رہے کہ صحیح سلامت گھروں کو پہنچ گئے، لیکن اگلی ہی صبح ’ہمدرد یونی ورسٹی‘ کی طالبہ مصباح اطہر اتنی خوش نصیب نہیں تھی۔ یعنی محض چند گھنٹوں بعد عین اسی مقام موچی موڑپر راہ زنی کی ایک واردات ہوئی اور پرس چھیننے میں مزاحمت پر موٹرسائیکل پر سوار دو ’دہشت گرد‘ مصباح کو گولی مار کر چلے گئے۔ سر میں لگنے والی گولی اس لڑکی کی موت کا سبب بن گئی، جو ایک روشن مستقبل کی خاطر گھر سے نکلی تھی، شاید موت تو اس راستے پر گھات لگائے بیٹھی تھی، بس وقت اس لڑکی کا معین تھا۔

ایسا ہی ایک واقعہ گذشتہ برس ہمارے دوست کے ساتھ بھی پیش آیا تھا جس کے سر میں ڈکیت سیسے کی گولی محض اس لیے اتار گئے تھے کہ اس نے اپنا موبائل دینے سے انکار کیا، اس کی قسمت اچھی تھی کہ بروقت طبی امداد میسر آگئی اور وہ بچ گیا، لیکن ابھی بھی وہ مکمل صحت یاب نہیں ہو سکا ہے۔

رواں برس اس نوعیت کے درجن بھر سے زائد واقعات پیش آچکے ہیں جن میں ڈکیتی یا پولیس مقابلے کے دوران شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، کراچی جہاں آج امن کے دعوے کیے جاتے ہیں، صورت حال ابھی بھی اتنی اچھی ہے نہیں جتنی بتائی جا رہی ہے۔ خدارا، راستوں کے انتخاب میں احتیاط کیا کریں اور اگر ایسا کوئی مرحلہ آن پڑے تو ذلت کے شدید ترین احساس کے باوجود اپنی چیزیں ڈکیتوں کے حوالے کر دیا کریں کہ وہ مرنے یا مارنے کے لیے گھر سے نکلے ہوتے ہیں ، ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے اور آپ ایک شان دار مستقبل کی راہ پر گام زن ہیں۔

۔۔۔

کچھ کھٹی میٹھی باتیں
مرسلہ:ظہیر انجم تبسم، خوشاب

٭ ایک بادشاہ نے اعلان کرایا کہ کوئی ذرا بتائے تو کہ سمندر میں کتنے پیالے پانی ہے، بڑے بڑے عالم جواب نہ دے سکے۔ ایک ان پڑھ شخص نے جواب دیا بادشاہ سلامت اگر پیالا سمندر سے نصف ہے، تو سمندر میں دو پیالے پانی ہوگا، اگر پیالا سمندر سے چوتھائی ہے، تو سمندر میں چار پیالے پانی ہوگا۔ بادشاہ اس کے جواب سے بہت خوش ہوا۔

٭ شادی دفتر والی ایک خاتون نے شادیاں کرانے سے توبہ کرلی، کہنے لگی کہ اس کام میں جھوٹ بہت بولنا پڑتا ہے، ایک مرتبہ ایک لڑکے کی شادی کی بات کی۔ لڑکی والوں نے لڑکا پسند کر لیا، مگر مجھ سے قسم اٹھوائی کہ لڑکا کاروبار بھی کرتا ہے یا نہیں میں نے قسم کھائی کہ لڑکا لکڑی کا کاروبار کرتا ہے۔ شادی ہوگئی مگر میرا ضمیر مجھے اس قسم پر ملامت کرتا رہا۔ لڑکا مسواک فروخت کرتا تھا۔

٭ وہ اپنی بیوی کو میکے چھوڑ آیا اور کہنے لگا میں مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ رات کو ایک بجے موبائل پر میسج آتا ہے ’’بیوٹی فُل!’’وہ کون ہے جو روزانہ یہ میسج بھیجتا ہے۔ بیوی نے موبائل پر میسج دکھایا اور بتایا کہ یہ بیوٹی فل نہیں، بلکہ لکھا تھا ’بیٹری فل!‘

٭ ایک نہایت لحیم شحیم خاتون گاڑی چلا رہی تھیں۔ ایک بچے نے آواز لگائی ’’بھینس آنٹی بھینس‘‘ اس عورت نے گاڑی روکی اور بچے کے پیچھے دوڑی، مگر بھاری جسامت کے سبب نہ دوڑ نہ سکی، بچہ بھاگ گیا۔ اس کا سانس بھولا ہوا تھا، گاڑی میں بیٹھی اور چل دی، آگے دیکھا تو ایک بھینس مری ہوئی پڑی تھی، تب اسے بچے کی بات سمجھ میں آئی۔

۔۔۔

صد لفظی کتھا
مَن کا قبرستان!
رضوان طاہر مبین

’’انسانوں کی طرح رشتے ناتے بھی فنا کے گھاٹ اترتے ہیں۔۔۔!‘‘
ثمر نے اَمر کو افسردہ دیکھا تو سمجھایا۔
’’ہممم۔‘‘
اَمر منمنایا۔
’’ہم نہ چاہیں، لیکن ہمیں مُردے تو دفنانے ہی پڑتے ہیں۔۔۔
بالکل ایسے ہی تم دَم توڑنے والے تعلق کو اپنے ’مَن کے قبرستان‘ میں اتار دیا کرو!
تاکہ اپنی زندگی شانت بنا سکو۔‘‘
ثمر نے کہا۔
’’تمہاری بات بالکل ٹھیک ہے۔۔۔‘‘
اَمر کچھ کہتے کہتے رکا۔
’’تو پھر۔۔۔؟‘‘ ثمر نے پوچھا۔
’’مَن کے قبرستان میں اب کسی قبر کی جگہ نہیں۔۔۔!
اب ایک ’نعش‘ پڑے پڑے تعفن بکھیر رہی ہے۔۔۔!‘‘
امر نے جواب دیا۔

۔۔۔

جب ایک اخباری مراسلے پر ریلوے کلرک معطل ہوگیا!

اسلم ملک
میں ساتویں اور آٹھویں جماعت میں تھا، جب صدر پاکستان نے میرے تین خطوں کے جواب دیے تھے۔ یہ صدر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان تھے، اس عمر میں حکم ران اور وزراء ہی اہم شخصیات لگتے ہیں۔ کالج کے پہلے سال ہی یہ خیال ذہن سے نکل گیا اور ادیبوں شاعروں سے خط کتابت کرنے لگا۔

مجھے اس زمانے کی کوئی ایسی شخصیت یاد نہیں آتی، جسے خط لکھا ہو اور اس نے جواب نہ دیا ہو۔ مشرقی پاکستان اسمبلی کے اسپیکر عبدالحمید چوہدری کا خط مجھے اکثر یاد آتا ہے… جو انہوں نے اردو میں لکھا اور مجھے لگا کہ اردو لکھنے میں کافی تگ ودو کرنا پڑی۔

ان دنوں سرکاری محکمے اخبارات میں چھپنے والے مراسلات پر بھی توجہ دیتے تھے۔ 4 مارچ 1964 کو میرا ایک مراسلہ لاہور کے روزنامہ مشرق میں شائع ہوا (تاریخ یوں یاد رہی کہ اسی دن میں پورے 13 سال کا ہوا تھا) بات یہ تھی سکّوں کا اعشاری نظام آنے کے بعد بہت عرصہ نئے اور پرانے سکوں کے تبادلے میں بہت گڑبڑ رہی۔ بہاول پور سے کلانچ والا ٹرین کا کرایہ 53 پیسے یعنی پرانے ساڑھے آٹھ آنے تھا۔ بکنگ کلرک نو آنے یعنی 56 پیسے وصول کر رہے تھے۔ انہی دنوں گائوں گئے تھے، واپس آتے ہی اخبار کو خط لکھا۔ چھپنے کے اگلے دن والد صاحب نے کہا تمہاری شکایت پر بکنگ کلرک کو معطل کر دیا گیا ہے۔ وہاں کے ملازمین آئے تھے، کہہ رہے تھے بچے سے کہیں معاف کر دے۔ لکھ دے کہ غلط فہمی ہوئی، جو دور ہوگئی۔ مزید یاد نہیں کہ والد صاحب نے کیا کیا۔ وہ خود یونین لیڈر تھے۔ کسی کو بے روزگار کرنا برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ ہاں ریلوے والوں نے بچہ اس لیے کہا کہ میرے نام کے ساتھ جماعت ہفتم بھی چھپا تھا۔ اس دوران مجھے ریلوے ہیڈ کوارٹر سے خط بھی آگیا کہ آپ کی شکایت پر کارروائی کر رہے ہیں۔

کوئی دو سال پہلے، یعنی 50 سال بعد پھر کسی سرکاری شخصیت کو خط لکھا… یہ تھے چیئرمین سینیٹ… ایک اہم معاملے کی طرف توجہ دلانا چاہتا تھا، انہیں ہی موزوں سمجھا، یہ بھی خیال تھا کہ قائداعظم کے اے ڈی سی کے بیٹے ہیں، خط کا جواب دینے جیسے اصول اور عادات ضرور ان تک ضرور پہنچی ہوں گی، لیکن جواب تو کیا ان کے عملے کی طرف سے خط ملنے کی رسید/ اطلاع تک نہ ملی۔ یہ 40 سال کے قریب صحافت میں گزار چکے ایک ’بزرگ شہری‘ کا خط تھا، کوئی فضول Fan Mail تو نہیں ہوگی۔

کبھی کہا جاتا تھا خط کا جواب نہ دینا ویسی ہی بدتمیزی ہے جیسی سلام کا جواب نہ دینا۔ ہمارے ایک مدیر تھے۔۔۔ کچھ ایسا اتفاق تھا کہ اکثر میں جب دفتر جاتا، وہ نکل رہے ہوتے۔ سیڑھیوں کے قریب آمنا سامنا ہوتا۔ میں سلام کرتا… نوٹ کیا کہ وہ جواب ہی نہیں دیتے تو پھر میں نے بھی کبھی سلام نہیں کیا… وہ جوانی ایک مذہبی جماعت کی نذر کر چکے تھے، یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ سلام کے آداب سے ناواقف ہوں، بس کچھ زعمِ عظمت ہو گیا تھا، تین ماہ نگران وزیر جو رہ گئے تھے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔