جہاں گشت

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 13 اکتوبر 2019
مال و اسباب اتنا مت جمع کیجیے کہ زندگی ختم شُد کی ٹرین آجائے اور آپ اپنے سامان کے لیے ہلکان ہوتے رہیں

مال و اسباب اتنا مت جمع کیجیے کہ زندگی ختم شُد کی ٹرین آجائے اور آپ اپنے سامان کے لیے ہلکان ہوتے رہیں

 قسط نمبر64

وہ عشرے کا آخری دن تھا اور حنیف بھائی کی حالت بہ دستور ویسی ہی تھی، جنہیں اپنا کوئی ہوش ہی نہیں تھا، جذب اور بس۔ بابا نے بھی انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا۔

نہیں، نہیں! میں پھر سے گم راہ ہوگیا، وہ کیسے انہیں چھوڑ سکتے تھے، لیکن فقیر کو کچھ ایسا ہی لگا تھا۔ ہمارے ایک بابا جی فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہوگا، جی! سوچ کا بھی، تو پہلے اچھی طرح سے سوچ لینا چاہیے کہ آپ کسی کے متعلق جو سوچ رہے ہیں، جو رائے بنا رہے ہیں، کیا وہ ویسا ہی ہے یا آپ گم راہ ہو چلے ہیں۔ داناؤں کا کہنا ہے کہ کسی کے لیے اچھا نہیں سوچ سکتے، بَھلا نہیں کرسکتے تو غلط بھی تو مت سوچیے اور بُرا بھی مت کیجیے۔ چلیے! یہ تو ہم کہیں اور ہی نکل چلے ہیں تو حنیف بھائی ایک جذب کی حالت میں تھے۔ دیکھیے یہ کیا یاد آیا، فقیر شاید آپ تک اُن کی کیفیت پہنچا سکے۔

جب سے دیکھا ہے اُنہیں، اپنا مجھے ہوش نہیں

جانے کیا چیز وہ نظروں سے پلا دیتے ہیں

تخت کیا چیز ہے اور لعل و جواہر کیا ہیں

عشق والے تو خدائی بھی لُٹا دیتے ہیں

ایسی یا اس سے قریب تر حالت تھی ہمارے حنیف بھائی کی۔ ہوش و خرد سے بے گانہ۔ فقیر کا بھی کام کاج ختم ہوگیا تھا اور ایک ہی ذمے داری تھی کہ مجھے ان کا خیال رکھنا ہے، کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیسے ۔۔۔۔۔ ؟ لیکن بس حکم تھا تو تعمیل فرض تھی۔ سارا دن ان کی منّت سماجت میں گزرتا اور وہ پتھر کا صنم بنے کبھی مجھے اور کبھی اِدھر اُدھر تکتے، ہنستے، روتے یا پھر رقص میں ہے سارا جہاں کی تصویر بنے رہتے۔ میں نے تو انہیں سوتے بھی نہیں دیکھا تھا۔ فقیر نے کئی مرتبہ سوچا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان مسلسل جاگتا ہی رہے اور پھر جب فقیر کو جاگنے کا خود تجربہ ہوا تب وہ جان پایا کہ سونا بھی کیا سونا ہوتا ہے اور جاگنا بھی کیسا جاگنا۔ جی پھر کبھی کریں گے اس پر کلام۔ جی جناب! اگر آپ جاگنا چاہیں تو جاگ سکتے ہیں اور مسلسل۔

ایک دن علی الصبح ایک اجنبی کو کٹیا میں دیکھ کر فقیر چونکا، ایسا تو کبھی نہیں ہوا تھا کہ کوئی اجنبی یہاں چلا آیا ہو۔ اُس سے بابا نے مختصر سی بات کی اور مجھے حکم دیا کہ چلو تیار ہوجاؤ، یعنی وہ اجنبی ہماری غیر موجودی میں حنیف بھائی کی دیکھ بھال کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ فقیر تو تیار ہی تھا کہ سکھایا ہی یہ گیا ہے کہ ہر پل تیار رہو، اسباب کم سے کم رکھو کہ جب کُوچ کا نقّارہ بجے تو سامان سمیٹنے کی فکر ہی نہ ہو، چل سو چل اور چل۔

کبھی آپ نے ریلوے اسٹیشن پر یہ منظر ضرور دیکھا ہوگا کہ پلیٹ فارم مسافروں سے بھرا ہوا ہے، ابھی ٹرین آنے میں خاصا وقت ہوتا ہے، کچھ لوگ بار بار اپنے ڈھیر سارے سامان پر نظر جمائے ہوئے ہوتے ہیں۔ بے چینی، بے یقینی اور پریشانی کا متحرک مجسمہ بنے ہوئے، عجلت اور خدشات کو اوڑھے ہوئے ان کی نظریں بار بار اُس سمت اٹھتی ہیں، جہاں سے ٹرین نے آنا ہوتا ہے۔ لوجی! اور پھر ٹرین آہی جاتی ہے تو وہ اپنا سامان ریل میں ٹھونسنے لگتے ہیں، یہ نہ رہ جائے وہ نہ رہ جائے، کوئی سامان ہی غائب نہ کردے، وہ کتنے پریشان ہوتے ہیں، جی ان کا پورا سفر بھی اسی طرح گزرتا ہے۔

آپ نے دیکھے ہوں گے ایسے مناظر، اور نہیں دیکھے تو جائیے خود بہ چشم سر دیکھ لیجیے، بہت عام ہیں ایسے مناظر کسی بھی اسٹیشن پر۔ لیکن ذرا سا دم لیجیے اب فقیر آپ کو ایک اور منظر دکھانے جارہا ہے، وہ بھی دیکھیے! اسٹیشن مسافروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے، ایک مسافر ایک چھوٹی سی گٹھڑی سر کے نیچے رکھے سکون سے کسی بینچ پر لیٹا ہوا یا کسی کونے میں بیٹھا ہوا ہے۔

اسے ذرا سی بھی فکر نہیں، ایسا لگتا ہے کہ وہ اس سارے منظر سے لطف اندوز ہو رہا ہے، ٹرین آچکی ہے اور وہ اب بھی مزے سے بیٹھا یا لیٹا ہوا ہے، اب ٹرین نے جانے کے لیے وسل دی ہے لیکن وہ تو اب تک آسودہ ہے، اور پھر تیسری وسل پر ٹرین نے ایک چیخ ماری اور چل پڑی، اب وہ اٹھا اور آرام سے ٹرین میں سوار ہوگیا، چلو جی سفر ہوا شروع، وہ اپنی منزل تک پہنچنے تک اس سفر سے لطف اندوز ہی ہوتا ہے۔ کچھ سمجھ میں آرہا ہے آپ کو کہ فقیر کہنا کیا چاہ رہا ہے۔۔۔۔ ؟ صرف اتنا سا کہ مال و اسباب اتنا مت جمع کیجیے کہ زندگی ختم شُد کی ٹرین آجائے اور آپ اپنے سامان کے لیے ہلکان ہوتے رہیں اور پورا سفر بھی اذیّت و خدشات میں گزر جائے، بس دوسرے مسافر کی طرح دنیا کے اس پلیٹ فارم پر قیام کیجیے کہ آخرت کی ٹرین آئے تو بس آپ بے فکر ہوکر اس میں سوار ہوجائیں اور آپ کا سفر بھی اطمینان سے کٹ جائے اور آپ اپنی حقیقی منزل پر سکون سے پہنچ جائیں۔ چلیے جی! رہے نام اﷲ کا ۔۔۔۔۔ ۔

بابا مجھے ساتھ لیے نکلے، ہم دونوں پیدل رواں تھے، میں خاموش تھا کہ بابا نے کہا: بیٹا جی! آج تو معلوم ہی نہیں کیا کہ کہاں جارہے ہیں ؟ کیا معلوم کروں بابا بس جارہے ہیں تو ٹھیک ہے، کہہ کر میں پھر خاموش ہوگیا۔ ٹیکسلا کے اسٹاپ پر ہم ایک ویگن میں سوار ہوئے جو راول پنڈی جارہی تھی، تب میں جان پایا کہ ہم کہاں جارہے ہیں، مجھے کچھ کچھ تو سمجھ میں آگیا تھا کہ عارضی منزل کون سی ہوگی۔

اصل منزل تو بس ایک ہی ہے جی! سب مسافر ہیں، اجنبی ہیں اس زمین پر، جسے نادان اپنی زمین کہتے ہیں، اس زمین کے کسی چھوٹے سے قطعے کے لیے اپنے خونیں رشتوں کو بھی خون میں نہلا دیتے ہیں، زمین تو انسان کے لیے ازل سے اجنبی تھی، ہے اور ابد تک رہے گی، کہ انسان اس زمین پر اتارا گیا ہے بس مختصر سی مدت کے لیے، یہ زمین اجنبی ہے۔

اسی لیے تو یہاں اتنی مشکلات ہیں، اتنی تنگی ہے، جنگیں ہیں، جدل ہے، قتل و غارت ہے، اجنبی نہ ہوتی تو قرار سے ہوتی، سکون کا مسکن ہوتی، ہر طرف بس سُکھ چین ہوتا، کہیں بُھوک نہ اُگتی، کوئی کسی کا حق نہ مارتا، کوئی کسی پر ظلم کا سوچتا بھی نہیں، یہ زمین انسان کے لیے اجنبی سیّارہ ہے، جی! اسی لیے یہاں ہر انسان نفسانفسی کے مہلک مرض میں بلک رہا ہے، تھوڑا سا غور کرتا تو ایسا تو کبھی نہ کرتا جو کرتا رہا ہے، جو کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ اجنبی دیس کا مکیں انسان، اسے اپنا سمجھنے کے فریب میں مبتلا ہے، کچھ سوچتا ہی نہیں۔ چلیے! اب سوچیے کہ انسان دراصل کہاں مقیم تھا۔۔۔؟ اور پھر کیا ہوا کہ آدم کو وہاں سے بے دخل کیا گیا تھا اور پھر اسے اس اجنبی سیّارے پر اتارا گیا۔

سوچیے ناں جی! یہ تو اس واحد و کریم و رحیم کی سخاوت ہے ناں کہ اسے کہا گیا کہ بس چند دن کے لیے جاؤ، اجنبی بن کر، مسافر بن کر رہو اور جیسا کہا ہے ویسا کرو، خود کو اپنے اصل ٹھکانے کا دوبارہ اہل ثابت کرو اور پھر سے اپنے اصل مسکن لوٹ آؤ، ایسا مسکن جہاں سُکھ چین ہے، من چاہا جیون ہے، سب کچھ ہے جی! وہاں تو خواہش کرو تو بس تکمیل ہے بِلا کسی سعی، جہد اور تاخیر کے۔ اپنے مسکن پر اپنی مرضی، تو جی یہ ہے اس اجنبی سیّارے زمین اور اس کے نادان مکین انسان کی اصل حقیقت۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ اس زمین کی قدر نہ کریں، نہیں ایسا ہرگز مت کریں، بالکل بھی نہیں، خبردار رہیں۔

ایسا تو خودغرض، رذیل اور احسان فراموش کرتے ہیں ناں جی! آپ تو بالکل بھی ایسے نہیں ہیں ناں جی! یہ اجنبی سیّارہ سہی لیکن آپ کا عارضی مسکن تو ہے ناں اور ہاں یہی ہے وہ سیّارہ جب سب آپ کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتے اور آپ کو صرف میّت کہہ کر جلد گھر سے نکالنا چاہتے ہیں تو یہی آپ کو آپ کے تمام عیوب کے ساتھ اپنے شکم میں اتار لیتی ہے، تو یہ زمین ماں سمان ہے جی! اس کی ہتک مت کیجیے کہ یہ بھی تو رب تعالٰی کی مخلوق ہے ناں۔ دیکھیے! رب تعالٰی نے ہمیں خبردار کیا ہے اور زمین جو بس اُسی کی ہے، کی حقیقت ہمیں بتائی ہے، اب یہ تو میری اپنی جہالت ہے کہ میں اس طرف متوجّہ ہی نہیں ہوتا، اور میں نے اس ضابطۂ حیات کو جو کتاب عمل ہے، اسے جُزدان میں لپیٹ کر صرف قسمیں اٹھانے کے لیے رکھ چھوڑا ہے، عجب ہوں میں!

’’جب زمین اپنے بھونچال سے جھنجوڑ دی جائے گی اور زمین اپنا بوجھ باہر نکال ڈالے گی، اور انسان کہے گا اسے کیا ہوگیا ہے؟ اس دن زمین اپنی ساری خبریں بتا دے گی، کیوں کہ تمہارے پروردگار نے اسے یہی حکم دیا ہوگا اور اس روز لوگ مختلف ٹولیوں میں واپس ہوں گے، تاکہ ان کے اعمال انہیں دکھا دیے جائیں، جس نے ذرّہ بھر اچھائی کی ہوگی، وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرّہ بھر بُرائی کی ہوگی، وہ اسے دیکھے گا۔‘‘

ویگن راول پنڈی کے پیر ودہائی اڈے پر پہنچی۔ بابا نے مجھ سے پوچھا: کچھ کھانا پینا ہے بیٹا۔ میں نے انکار کیا تو کہنے لگے: چائے بھی نہیں؟ ہم نے ایک جگہ چائے پی اور اسلام آباد جانے کے لیے ایک گاڑی میں سوار ہوگئے۔ اسلام آباد اس وقت ایسا نہیں تھا جیسا اب ہے، سرکاری عمارتیں تو تھیں لیکن آبادی خال خال، کسی بھی سیکٹر میں چند مکانات ہوتے تھے۔

اکثر پلاٹ خالی یا چاردیواری بنی ہوئی بس، کہیں کہیں ان خالی پلاٹس پر کوئی چھونپڑی یا خانہ بہ دوش لوگوں کے ٹھکانے۔ ہم شاہ راہ سے گزرتے ہوئے ایک کشادہ گلی میں داخل ہوئے، پوری گلی میں صرف تین مکانات اور باقی خالی پلاٹ۔ اب فقیر اسے حویلی کہے یا بنگلہ کے باہر پہنچ کر بابا نے گھنٹی بجا کر اپنی آمد کا اعلان کیا، ایک شخص باہر نکلا تو ہمیں دیکھ کر تھوڑا حیران ہوا اور پوچھا: کس سے ملنا ہے۔ ہماری بِٹیا یہاں رہتی ہیں جی اس سے ملنا ہے، بابا کا جواب سن کر اس نے کہا: بی بی جی کی طبیعت خراب ہے۔ جی جانتے ہیں یہ تو، بابا کے جواب پر وہ ہمیں دیکھتا رہا تب بابا نے اسے کہا: آپ ہی سب کچھ دریافت کریں گے تو ان کے گھر والے پھر کیا کریں گے۔

جائیے انہیں بتائیے کہ ہم آئے ہیں۔ وہ مبہوت الٹے قدم پلٹا، واپسی میں اس کے ساتھ نفیس لباس میں ملبوس ایک شخص بھی تھا، اس نے ہمیں دیکھا اور پھر ناگواری سے پوچھا: جی فرمائیے کس سے ملنا ہے؟ ہماری بٹیا کی طبیعت کیسی ہے اب جی، اس کی مزاج پُرسی کرنا تھی اور آپ سے ملاقات بھی۔ بابا کی بات سن کر اس نے ہمیں بہ غور دیکھا اور اندر آنے کا کہا۔ اس کی بیٹھک اور اس میں رکھی ہوئی ہر شے اس کی امارت کا ثبوت دے رہی تھی، ہم ایک صوفے پر بیٹھے تو وہ بابا سے مخاطب ہوا: جی فرمائیے۔ بابا گویا ہوئے: اجی فرمانا کیسا حضور! ہم فقیر کب فرماتے ہیں جی، ہم تو سنتے ہیں بس، فرماتے تو بڑے لوگ ہیں، ہم تو فرمانے کا حق ہی نہیں رکھتے، آپ سے ابھی تو عرض کیا ہے کہ بٹیا کی مزاج پرسی کے لیے حاضر ہوئے ہیں تو بتائیے وہ کیسی ہیں اب، کچھ کھایا پیا انہوں نے ۔۔۔۔۔۔ ؟ شاید اس کے صبر کا پیمانہ بھر چکا تھا تو وہ چھلک پڑا: سیدھی بات کرو، کون ہو تم لوگ، کیسے جانتے ہو اسے، کیا چاہتے ہو تم، جلدی بتاؤ اور جاؤ، میں بہت پریشان ہوں۔

اتنا وقت نہیں ہے میرے پاس۔ میں نے اسے بہ غور دیکھا، وہ تو بابا کی ہتک کر رہا تھا، اس سے پہلے کہ میں اسے کچھ کہتا بابا نے اس کی جانب مسکراتے ہوئے دیکھا اور پھر بولے: ماشاء اﷲ جی کیا کہنے! آپ تو بڑے ہی زیرک و دانا ہیں جی، تو ہم آپ کی تشفی کیے دیتے ہیں، ہم نے تو سیدھی بات ہی کی ہے، اب کون ہیں ہم لوگ تو جناب اس سوال کا جواب تو مُشکل ہے، ہم کیسے جانتے ہیں بٹیا کو تو جناب عالی اس دنیا میں ایسا بھی کوئی بدنصیب و بے مروّت بھی ہوگا کہ اپنی بٹیا کو ہی نہ جانتا ہو، چاہتے کیا ہیں یہ تو آپ آسودہ ہوکر سنیں گے تب بتائیں گے جی، اب آپ نے خود فرمایا ہے کہ آپ پریشان ہیں اور آپ کے پاس وقت بھی نہیں تو ایسے میں بھلا ہم کیا کہیں گے اور آپ کیا سنیں گے، تو بس ایسا کرتے ہیں کہ بٹیا کو اک نظر دیکھتے ہیں اور پھر رخصت۔

اس دن فقیر حیرت زدہ رہ گیا، اک مرد خُود آگاہ کا جلال و جمال اس کے رُو بہ رُو جو تھا، بابا کی پُروقار اور بایقیں آواز چار سُو گونج رہی تھی، اُن کا چہرہ دمک رہا تھا، ایسا لگتا تھا کہ ہر شے ساکت ہوگئی ہے، وہ ایسا سحرزدہ ہوا کہ بولنا ہی بُھول گیا، پسینے کے قطرے اس کی پیشانی پر پھیلتے ہوئے بہنے کے لیے بے تاب ہونے لگے تھے اور وہ بابا کو دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی اور پھر بابا کی آواز نے اس سحر کو توڑ کر رکھ دیا: تو ہم خود اپنی بٹیا سے مل لیتے ہیں۔ بابا اُٹھ کھڑے ہوئے تو وہ ان کے سنگ ہوا اور پھر ایک کشادہ کمرے میں جو بیش قیمت فرنیچر سے آراستہ تھا، کمرے کے وسط میں ایک خوب صورت فانوس لٹک رہا تھا۔

امارت کا ہر نشاں اس میں موجود تھا، میں وہی ماہ وش ایک آرام دہ پلنگ پر لیٹی ہوئی ہمارے سامنے تھی، اس کے پلنگ کے ساتھ ایک کرسی پر اس کی ماں بیٹھی ہوئی، جو ہمیں دیکھ کر کھڑی ہوگئی تھی، نقاہت نے اس کی شوخی کو ماند کردیا تھا، اس نے ہمیں دیکھتے ہی اٹھنے کی کوشش کی اور پھر بابا کی آواز گونجی: ہماری بٹیا کیسی ہے اب! کہا تو تھا آسودہ رہو، کسی خدشے کو پاس مت آنے دینا کہ جو لکھا جاچکا وہ تو لکھا جاچکا تو پھر کیا روگ پالنا پگلی! لیکن بٹیا جی نے تو اپنا جیون اجیرن کرلیا، چلو اب تم کھاؤ گی، پیو گی اور ٹھیک ہوجاؤ گی، جی ہم آگئے ناں اب تو بایقیں رہو پگلی! بابا کی شفیق گفت گو نے اس کے سارے بندھن توڑ دیے اور پھر تو آنسوؤں کا سیلاب تھا جس میں ڈولتی چلی گئی، بابا اس کے سر پر اپنا دست شفقت رکھے نہ جانے کہاں کھوئے ہوئے تھے، پھر بہت دیر بعد وہ اس سیلاب بلاخیز سے بچ نکلی تھی۔ اور پھر بابا اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا رہے تھے۔ اس دن فقیر کو وہ ایک معصوم بچے جیسی لگی تھیں اور اب تک لگتی ہیں۔

اس کے والد اور والدہ خاموشی اور حیرت سے اپنی بیٹی کو بابا کے ہاتھوں کھانا کھاتے دیکھ رہے تھے۔ سُکوت تھا مکمل سُکوت، اچانک ہی اس نے بابا سے پوچھا: وہ کیسے ہیں ۔۔۔۔؟ اور اس کے ساتھ ہی سکوت دم توڑ گیا: پگلی! یہ بھی ہم ہی بتائیں کہ وہ کیسا ہے؟ اچّھا ہے وہ بہت اچّھا، ویسا ہی جیسا تم سوچ رہی ہو، دیکھ رہی ہو، لیکن فکر نہ کرو، ٹھیک ہے بس ٹھیک ہے، تم ٹھیک ہوجاؤ تو بس وہ بھی ٹھیک ہوجائے گا ناں! اچھا تو اب بٹیا جی! اجازت دو، پریشان مت ہونا، واپس لوٹ آؤ، جتنی جلدی تم واپس لوٹو گی تو بس سمجھو وہ بھی لوٹ آئے گا اور ہاں پھر کہہ رہے ہیں کوئی بھی خدشہ اپنے پاس بھٹکنے بھی مت دینا، اﷲجی پر کامل یقین رکھو کہ اس کے حکم سے کوئی رکاوٹ بھی نہیں رہے گی، شانت ہوجاؤ اور سنو رب تعالٰی کی عنایت سے تمہیں دیکھ رہے ہیں جی تو بس اطمینان رکھو ناں پگلی! اچھا تو اب رخصت۔

ہم اس کے کمرے سے باہر نکل آئے، گھر کے صدر دروازے تک اس کے والد اور والدہ آئے اور پھر انہوں نے کہا: آپ کو تو ہم نے پانی تک کا نہیں پوچھا، کچھ وقت دیجیے کھانا کھا کر جائیے گا، ہماری بیٹی ٹھیک تو ہوجائے گی ناں، ہمارا بیٹا تو ہے نہیں، ہمارا سب کچھ ہماری بیٹی ہی ہے۔

آپ کی بیٹی۔۔۔۔۔! اجی اب تو ہماری بٹیا ہیں وہ، آپ پریشان مت ہوں، آئیں گے جی ضرور آئیں گے اور آپ کے گھر کا پانی بھی پئیں گے جی۔ بابا میرا ہاتھ پکڑے سڑک پر رواں تھے، جی فقیر نے دیکھا تھا، ہمارے اوجھل ہونے تک وہ بُت بنے ہوئے ہمیں دیکھتے رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔