دھرنے کو ناکام بنانے کے لیے

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 12 اکتوبر 2019
tauceeph@gmail.com

[email protected]

مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کو ناکام بنانے کے لیے حکومت رجعت پسندی کو فروغ دے رہی ہے۔

مردان میں طالبات میں سو سالہ پرانے برقعے تقسیم کرنے، طالبات کو لازمی طور پر یہ برقعہ پہننے اور اس سے پہلے ہری پور ہزارہ میں طالبات کو لازمی عبایا لینے کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت پرانی روایات کو دوبارہ نافذ کرکے مولانا فضل الرحمن کو ناکام بنانا چاہتی ہے۔

اگرچہ ذرایع ابلاغ میں ہری پور کے شعبہ تعلیم کی ڈائریکٹر کے فیصلے پر تنقید کے بعد خیبر پختون خوا کی حکومت نے یہ فیصلہ واپس لے لیا تھا اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ قومی اور بین الاقوامی میڈیا پر مردان کی انتظامیہ کے اس فیصلے پر تنقید کے بعد یہ فیصلہ بھی واپس ہوجائے مگر خیبر پختون خواہ حکومت کے مسلسل فیصلوں سے محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کی پالیسی بنانے والے ذہنوں میں طالبان حکومت کا خاکہ ہے، یوں وہ اپنے ایجنڈا کو بار بار نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جب چند ماہ قبل تحریک انصاف کے اقلیتی رکن نے قومی اسمبلی میں کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی کا بل پیش کیا تھا تو خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر نے نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے اور اس بل کو قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی نے مسترد کردیا، ان کمیٹیوں میں حکمراں جماعت کے اراکین اکثریت سے ہے۔ انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری ایک زمانے میں ماضی کی حکومتوں کے فیصلوںپر بھرپور تنقید کے لیے شہرت رکھتی تھیں۔ انھوں نے کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی کے بل کا خیر مقدم کیا تھا مگر ڈاکٹر صاحبہ قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی میں اس بل کے مسودے کے مسترد ہونے پر مذمت نہ کرسکیں۔

موجودہ حکومت کے بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کا ایک سال مہنگائی اور بد ترین طرز حکومت میں گزرا ہے۔ حکومت نے اصولی طور پر یوٹرن کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے اور حکومت کے پاس سیاست دانوں کی بدعنوانیوں کے قصے بیان کرنے اور جلد ہی مہنگائی کے خاتمے اور ہزاروں آسامیوں کے خالی ہونے کی نوید سنانے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ اس بناء پر حکومت کی سطح پر فروعی مسائل اٹھا کر صورتحال کو گنجلک کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے یوںمحسوس ہوتا ہے کہ آزادی کے نام پر مدرسوں کے طلباء کو متحرک کیا جا رہا ہے تو حکومت رجعت پسند پالیسیوں کے ذریعے ان کا مقابلہ کر رہی ہے جوکہ تعلیم اور خواتین کے لیے تباہ کن ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما افغانستان میں طالبان کے نظام کو بہتر نظام حکومت قرار دیتے رہے ہیں اور اس طرح کا نظام ملک میں نافذ کرنے کے بارے میں سوچ وفکر کرتے رہے ہیں۔

میری ذاتی رائے میں طالبان کا دور افغانستان کا اچھا دور نہیں تھا۔ طالبان کے اقتدار سنبھالتے ہی خواتین اور غیر مسلم شہری دوسرے درجے کی مخلوق میں تبدیل ہوگئے تھے۔ 90ء کی دہائی کے آخری حصے کی تاریخ گواہ ہے کہ طالبان نے اقتدار میں آتے ہی طالبات کے تعلیمی اداروں کو بندکر دیا تھا۔

انھیں ملازمت کرنے اور کاروبار کرنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ خواتین کے لیے محرم کے بغیرگھر سے نکلنے اور ایسا ہی شٹل کاک برقعہ پہننا لازمی قرار دیا گیا تھا جیسا برقعہ مردان کی ایک تحصیل میں انتظامیہ نے طالبات کے لیے لازمی قرار دیا۔ طالبان کے دور میں خواتین کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی میں تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا تھا۔ صرف خواتین کے اسپتالوں میں خواتین ڈاکٹر فرائض انجام دے رہی تھیں جن پر پردے کی سخت پابندیاں عائد تھیں، اس دور میں طالبات تعلیم کی دوڑ میں پیچھے چلی گئیں ۔کچھ خواتین نے اپنے گھروں میں خفیہ اسکول قائم کیے جہاں طالبات خفیہ طور پر تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ بغیر برقعہ گھروں سے نکلنے والی خواتین کو سزائیں دی گئیں ۔

جب مولانا فضل اﷲ نے طالبان کی مدد سے سوات پر قبضہ کیا تو سوات میں خواتین کے تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔ ملالہ یوسف زئی نے اسی زمانے میں گل مکئی کے قلمی نام سے بی بی سی کی اردو سروس کی ویب سائٹ پر ڈائری لکھنی شروع کی تھی۔ اس ڈائری میں ملالہ کا زیادہ زور خواتین کو تعلیم سے روکنے اور زبردستی برقعہ پہنانے پر تھا اور اسی بناء پر ملالہ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ملا فضل اﷲ اپنے ایف ایم ریڈیو پر اپنی تقاریر میں خواتین کوگھروں میں بند رہنے اور محدود مذہبی تعلیم حاصل کرنے کی تبلیغ کرتا تھا۔ ملا فضل اﷲ نے پولیو کے قطرے بچوں کو پلانے کو بھی مکروہ فعل قرار دیا تھا۔

اس کا کہنا تھا کہ جہاں وبائی امراض پھیلے وہاں سے ہجرت تو کی جاسکتی ہے مگر بچوں کی مدافعت بڑھانے والے قطرے نہیں پلانے چاہئیں۔ قبائلی علاقوں میں خواتین کے تعلیمی اداروں پر حملے ہوئے۔ ایک سروے کے مطابق ان حملوں میں تعلیمی اداروں کی 800 سے زائد عمارتیں تباہ کردی گئی تھیں۔ یوں قبائلی علاقوں میں خواتین کی تعلیم کا عمل رک گیا تھا۔یہ وہی مائنڈ سیٹ تھا جس نے آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ کیا۔ اس حملے میں پرنسپل اور اساتذہ سمیت بہت سے طلبہ شہید ہوئے اورکئی زندگی بھرکے لیے اپاہج ہوگئے تھے۔ ہمارے ملک کی ترقی نہ کرنے کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ خواندگی کی شرح کا کم ہونا ہے۔

خواتین میں خواندگی کی شرح افسوس ناک حد تک کم ہے۔ اسی تناسب سے خواتین کے زندگی کے مختلف پروفیشن میں کام کرنے کی شرح بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا وغیرہ سے کم ہے۔ خواتین میں تعلیم کی شرح بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں مردوں کے برابر یکساں سہولتیں دی جائیں اور ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ہر شعبہ میں کام کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب صرف خواتین تعلیم اور صحت کے شعبہ میں فرائض انجام نہیں دے رہیں بلکہ پولیس ، بری، بحری اور فضائی افواج میں بھی فرائض انجام دے رہی ہیں۔ ان تمام شعبوں میں شٹل کاک برقعوں میں ملبوس خواتین کام نہیں کرسکتیں۔

جینڈر کے موضوع پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ابتدائی سطح سے مخلوط تعلیم کا ہونا ضروری ہے، مخلوط تعلیم سے لڑکوں اور لڑکیوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے ، وہ ایک دوسرے کے ساتھ سلوک کے مہذب طریقے سیکھتے ہیں، یہ اصول ساری دنیا میں نافذ ہے،مگر جب بچیوں کو شٹل کاک برقعوں میں بند کردیا جائے گا تو پھر وہ اس دنیا سے کٹ جائیں گی، اگر خواتین کو اس طرح کی پابندیوں میں جکڑ لیا جائے تو ان میں اعتماد کی کمی پیدا ہوگی اور زندگی کے مختلف شعبوں میں وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام نہیں کرسکیں گی۔

یہ ایک اصولی بات ہے کہ خواتین کو اپنی مرضی کا لباس زیب تن کرنے کا حق ہے۔ خواتین کو عبایا پہننے اور چادر اوڑھنے کی مکمل آزادی ہے مگر جب سرکاری طور پر ،خاص پرانی طرز کے برقعے پہننے کی پابندی ہوگی تو اس کے منفی نتائج کے برآمد ہونگے یوں طالبان کے نظریہ کے عملی نفاذ کے لیے راستہ کھل جائے گا۔

وزیر اعظم عمران خان بار بار کہہ چکے ہیں کہ خواتین کے لباس پرکوئی قدعن نہیں لگائی جاسکتی تو پھر ان کی حکومت کے دور میں اس طرح کی پابندیوں کو مختلف معنی پہنائے جائیں گے۔ اس طرح کے فیصلوں سے نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کا لبرل چہرہ متاثر ہوگا بلکہ خواتین میں عدم تحفظ کا احساس بڑھے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔