8 اکتوبر2005کے زلزلہ متاثرین اب کس حال میں ہیں؟

دانش ارشاد  اتوار 13 اکتوبر 2019
’’ ہمیں محض شو پیس کے طور پر استعمال کیا گیا، ہماری بحالی کیلئے اقدامات نہ کئے گئے‘‘، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ری ہیبلیٹشن میڈیسن، اسلام آباد میں مقیم خواتین کی باتیں۔ فوٹو: فائل

’’ ہمیں محض شو پیس کے طور پر استعمال کیا گیا، ہماری بحالی کیلئے اقدامات نہ کئے گئے‘‘، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ری ہیبلیٹشن میڈیسن، اسلام آباد میں مقیم خواتین کی باتیں۔ فوٹو: فائل

آٹھ اکتوبر 2005 کے زلزلے کو14برس بیت گئے۔ زلزلے میں ملبے تلے دب کر عمر بھر کیلئے معذور ہونے والے کئی متاثرین تاحال بے بسی کی تصویر بنے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ اربوں ڈالر کی امداد آنے کے باوجود ان کا علاج اور بحالی تاحال ممکن نہ ہو سکی۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ری ہیبلیٹشن میڈیسن (NIRM) میں زیر علاج معذور خواتین علاج کی سہولیات نہ ہونے اور خاندان کی سپورٹ نہ ہونے کے باعث اپنے گھر یا آبائی علاقے میں نہیں جا سکتیں۔ متاثرہ خواتین کا کہنا ہے کہ حکومت اور این جی اوز ہمیں بار ہا اپنے پروگرامات میں لے جاتی ہیں، خود بیش بہا فنڈز حاصل کرتی ہیں لیکن ہمارے لئے کبھی کچھ نہیں کیا گیا۔

حکومت اور این جی اوز نے ہمیں صرف شو پیس کے طور پر استعمال کیا ہے۔متاثرہ خاتون نجمہ جن کا تعلق راولاکوٹ سے ہے اور2005 کے زلزلے میں ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور اب وہ وہیل چئیر پر ہیں۔ نجمہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنے گھر اس لئے نہیں جا سکتیں کیونکہ انہیں اپنی اس معذوری کے باعث ہر وقت کسی پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور ان کے گھر میں ہر وقت ان کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جب زلزلہ آیا تو وہ میٹرک کی طالبہ تھیں اور اس وقت گھر میں ہی تھیں۔گھرگرنے کی وجہ سے وہ دب گئیں اور جب انھیں ہوش آیا تو وہ پمز اسلام آباد میں تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ڈاکٹر نے انھیںکہا کہ وہ اپنی ٹانگیں ہلا کر دکھائیں کہ ان کی ٹانگیں کام کر رہی ہیں یا نہیں تو انھیں ایک جھٹکا لگا اور ڈاکٹر سے کہا:’’ میری ٹانگوں کو کیا ہوا ہے؟ میں تو بالکل ٹھیک تھی‘‘۔

تاہم جب انہوں نے ٹانگیں ہلانے کی کوشش کی تو وہ کام نہیں کر رہی تھیں جس پر وہ سکتے میں آ گئیں اور گھنٹوں روتی رہیں اور وہ سمجھ گئیں کہ اب کبھی چل نہیں سکیں گی۔ تاہم NIRM منتقل ہونے کے بعد انہیں علاج کے ساتھ ساتھ جینے کا حوصلہ دیا گیا، نجمہ اس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم اے کر رہی ہیں اور ٹیوشن بھی پڑھا رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انہیں یہاں 13 سال ہو گئے ہیں اور یہاں انھیں فیملی کی طرح سپورٹ کیا گیا جس کے باعث وہ تکلیف دہ صورتحال سے نکل پائیں۔

آسیہ بی بی جن کا تعلق ضلع باغ سے ہے،کا کہنا ہے کہ جب زلزلہ آیا تو وہ گھر کے کام کر رہی تھیں۔ مکان کے گر جانے کی وجہ سے وہ دب گئی تھیں۔ انھیںکمر میں چوٹ آئی، پھر وہ ہمیشہ کیلئے معذور ہو گئیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ زلزلے نے ان کی پرانی یادیں تازہ کر دیں اور وہ بہت ڈسٹرب ہیں۔ آسیہ بی بی کے مطابق ان کا علاج تو ہو رہا ہے لیکن کوئی افاقہ نہیں ہے، زخم بن گئے ہیں۔

گھر پر سہولیات نہ ہونے کے باعث یہاں رہنے پر مجبور ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گھر میں وہیل چیئر نہیں چل سکتی ہے تو سہولیات کے فقدان کے باعث اس صورتحال میں پہاڑی پر کیسے رہ سکتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ والدین فوت ہو چکے ہیں، رشتہ دار بھی نہیں پوچھ رہے ہیں، ایسی صورتحال میں یہ جگہ چھوڑ کر کہاں جائیں ، ہمیں سنبھالنے والا کوئی موجود نہیں، یہاں بیٹھ بیٹھ کر ذہنی مریض بن چکی ہیں ، ہسپتال انتظامیہ جہاں تک ممکن ہے دیکھ بھال کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یہاں خوشی سے نہیں بیٹھی ہوئی ہیں، زخم ٹھیک نہیں ہو رہے ہیں۔

زوبیہ کا تعلق آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کے ایک نواحی گائوں سے ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ گھر کے ملبے میں دب جانے کی وجہ سے ان کی ٹانگوں اور کمر میں زخم آئے۔ زلزلے میں ان کا گھر گرنے کے باعث ان کے بہن بھائیوں سمیت ان کے خاندان کے سات افراد جاں بحق ہوئے تھے ۔ یہ بہت تکلیف دہ صورتحال تھی ۔ زوبیہ کے مطابق 14 سالوں میں آزادکشمیر کے حکمرانوں نے امداد توکیا دینی تھی، عیادت کیلئے آنا تک گوارہ نہیں کیا ۔ حکومت آزادکشمیر اگر اپنے علاقے میں سہولیات اور چھت نہیں دے سکتی تو زہر دیدے ۔ان کا کہنا ہے کہ بیڈ سول کے باعث بننے والے زخموں کا علاج آزادکشمیر میں ممکن نہیں ، شدید سردی میں مرض کی شدت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، گھر والوں نے بھی چھوڑا، ذہنی طور پر مفلوج ہوتی جا رہی ہوں ۔ یہاں اپنی خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے رہ رہی ہوں ، اگر آزاد کشمیر حکومت سہولیات مہیا کرے تو وہ آج بھی واپس جانے کو تیار ہیں۔

مظفرآباد سے تعلق رکھنے والی سکینہ 2005 کے زلزلے میں ملبے تلے دب گئیں، وہ ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جانے سے زندگی بھر کیلئے معذور ہو چکی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ آبائی علاقے مظفر آباد میں علاج کی سہولیات نہیں جبکہ کوئی حکومتی نمائندہ یا اعلیٰ شخصیت بارہ سال گزرنے کے باوجود داد رسی کیلئے نہیں آیا۔

آزادکشمیر کے ضلع باغ سے تعلق رکھنے والی ظریفہ بی بی نے بتایا کہ سابق وزیراعظم آزادکشمیر سردار عتیق احمد خان نے ایک مرتبہ امداد کا اعلان کیا لیکن وہ عہد وفا نہ کر سکے۔ انہوں نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے یہاں کا دورہ کیا اور کہا کہ متاثرہ خواتین کو سہولیات فراہم کی جائیں گی اور انھیں آزاد کشمیر میں لایا جائے گا لیکن اس کے بعد ہمیں کوئی ملنے نہیں آیا ۔

ان کا کہنا ہے کہ زلزلے کی ہولناک اور وحشت سے آج بھی ڈر لگتا ہے ، اللہ پاک وہ وقت دوبارہ کبھی نہ لے کر آئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ وقت یاد کر کے بھی ڈر لگتا ہے، زلزلے میں متاثر ہونے کے بعد اس ہسپتال میں علاج تو ہو رہا ہے لیکن عمر بھی کی معذوری مقدر بن چکی ہے ۔ بٹگرام سے تعلق رکھنے والی بابو انسا کا کہنا ہے کہ موسم سرما ہمارے لئے انتہائی مشکل ترین ہو جاتا ہے ۔ ٹانگیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں، آزادکشمیر میں سہولیات نہ ہونے کے باعث وہاں رہنا مشکل ہے ۔ انہیں بیڈ سول کے باعث جسم پر زخم بنے ہوئے ہیں زخموں کی مرہم پٹی کیلئے یہاں آنا پڑتا ہے، آزادکشمیر میں اس علاج کیلئے کوئی سہولت تک میسر نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ زلزلے کی یادداشت بہت ہولناک ہے ، وہ زلزلے کے بعد کئی ماہ تک ٹھیک سے سو نہیں سکیں، انہیں ہر وقت جھٹکے محسوس ہوتے تھے ۔

گلشن بی بی کا تعلق مظفرآباد سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ حکومت آزادکشمیر کی جانب سے ہماری کوئی امداد نہیں کی گئی ۔ ہسپتال میں دیگر بہت سی خواتین زندہ لاشیں بنی پڑی ہیں۔ حکومت آزادکشمیر اگر اپنے شہریوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم نہیں کرسکتی تو پھر ہم جیسے لوگوں کو زہر دیدے ۔ غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے جب بھی 2005ء کے بارے میں خیال ذہن میں آتا ہے تو آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہوتے ہیں، اللہ کے سواکوئی آسرا نہیں ہے۔

بالاکوٹ سے تعلق رکھنے ولی عابدہ شاہین نے بتایا کہ زلزلے میں ان کی کمر ٹوٹ گئی تھی۔ ان کی بیٹیاں اور وہ گھر میں دب گئی تھیں، پھر انھیں شام پانچ بجے کے بعد نکالا گیا ۔ وہ بتاتی ہیں کہ زلزلے میں ان کی ایک اور بیٹی معذور ہو چکی ہے جو ان کے ساتھ ہی ہے۔ زلزلے میں معذور ہونے کے بعد ان کے شوہر نے دوسری شادی کر لی، اب وہ بے گھر ہیں اور ان کا واحد سہارا NIRM ہی ہے جس نے انھیں سنبھال رکھا ہے ورنہ وہ کس حال میںہوتیں وہ بھی نہیں جانتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دعا کریں کہ اللہ کسی دشمن کو بھی اس مرض میں مبتلا نہ کرے۔ حکمرانوں نے ہمیں جانور سے بھی بد تر سمجھا ہے۔

کوئی شنوائی نہیں ۔ حکومت نے ہمیں بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے اگر کوئی حکمران عیادت کیلئے آ ہی جاتا تو ہمیں افسوس نہ ہوتا۔مظفر آباد کی ایک زیر علاج خاتون نے بتایا کہ جب زلزلہ آیا تو وہ انٹرمیڈیٹ کی طالبہ تھیں ۔ زلزلے کے بعد معذوری کی حالت میں جب یہاں منتقل ہوئیں اور کوئی پرسان حال نہ ہونے کے باعث اسی ہسپتال کی مدد سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا، وہ اب ملازمت کر رہی ہوں تاہم علاج کے تسلسل کے باعث یہاں سے منتقل نہ ہوسکی۔ ان کا کہنا تھا حکومت اور این جی اوز ہمیں بار ہا اپنے پروگرامات میں لے جاتی ہیں اور بیش بہا فنڈز حاصل کرتی ہیں لیکن کھی ہمارے لئے کچھ نہ کیا گیا۔حکومت اور این جی اوز نے ہمیں شو پیس کے طور پر استعمال کیا ہے۔

زلزلے کی شدت اور تباہ کاریاں
8اکتوبر 2005ء کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں آنے والے قیامت خیز زلزلے میں86 ہزار افراد لقمہ اجل اور70ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اس زلزلے سے مجموعی طور پر 6 لاکھ مکانات متاثر،33لاکھ افراد بے گھر ، سینکڑوں افراد لاپتہ (آزاد حکومت کے پاس کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں کہ اس زلزلے کے نتیجے میں کتنے لوگ اب بھی لاپتہ ہیں) اور30 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ متاثر ہوا تھا۔7.6شدت کے اس زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر مظفرآباد اور بالاکوٹ ہوئے تھے جبکہ دوسرے متاثرہ علاقوں میں باغ اور راولاکوٹ کے علاوہ خیبر پختونخوا کے بٹگرام، ایبٹ آباد، ناران کاغان اور اسلام آباد شامل تھے۔

آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآبادمیں متعدد گائوں صفحۂ ہستی سے مٹ گئے تھے۔متاثرہ علاقوں میں تباہی کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ متعدد افراد آج بھی بے یارو مددگار ہیں۔ 1400 سے زائد تعلیمی اداروں کو ابھی تک چھت بھی میسر نہ آ سکی۔اس زلزلے کا مرکز پاکستان کے شمال مشرق میں مظفرآباد سے لگ بھگ 19 کلومیٹر دور شمال مشرق میں تھا اور اس کی گہرائی سطح زمین سے محض26 کلومیٹر تھی۔ اسے ماہرین ہمالیائی سلسلے کے ہزارہ کشمیر جوڑ کہتے ہیں۔

’’میں قبرستان کا وزیر اعظم ہوں‘‘
2005 کے زلزلے کے بعد ایک جگہ آزاد کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعظم سردار سکندر حیات نے کہا تھا ’’میں ایک قبرستان کا وزیر اعظم ہوں‘‘۔اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ زلزلے سے حقیقت میں کتنی تباہی ہوئی ہے۔ ہر چہرہ پریشان تھااور جب کبھی آفٹرشاکس آتے تو لوگوں میں بھگدڑ سی مچ جاتی۔ لوگ ملبے سے نکالی گئی لاشوں کے لیے کفن کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔

کئی جگہوں پر مسخ شدہ لاشوں کو دفنانے کے لیے اجتماعی قبریں کھودی گئیں۔اس تباہی کے اثرات ہر جگہ موجود تھے۔ مظفرآباد کے کئی گائوں صفحہ ہستی سے مٹ چکے تھے اور وہاں لوگ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور تھے۔ بالاکوٹ جو کبھی زندگی سے بھرپور شہر تھا، مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ پہاڑیوں کے گرنے سے جھیلیں وجود میں آئیں۔تا ہم متاثرین میں بھی ایک جذبہ تھااور ان لوگوں میں بھی جو اس سانحے کے شکار لوگوں کی مدد کرنے آئے تھے۔

امدادی کارروائیاں
دنیا بھر سے زلزلہ زدگان کی بحالی نو کیلئے ایک اندازے کے مطابق 5 ارب ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا تھا جو دنیا نے امداد کی صورت میں دیا۔زلزلہ کے بعدملک بھر سے رضاکار متاثرین کی مدد کے لیے آنا شروع ہوگئے۔ کینیڈا، امریکا، اور برطانیہ ، کیوبا، ترکی اور متحدہ عرب امارات سے ڈاکٹرز ضروری سامان کے ساتھ پہنچے اور فیلڈ ہسپتال قائم کر کے زخمیوں کے علاج اور آپریشن کئے۔ملکی اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے مالی امداد آئی اور دنیا بھر سے لوگوں نے حکومتِ پاکستان کو اپنے عطیات بھیجے۔

متاثرہ علاقوں میں جرائم اور بد عنوانیاں
زلزلے کے بعدجب متاثرہ علاقوں کی سڑک کھولی گئی تو ایک منظم جرائم پیشہ گروہ کے متاثرہ علاقوںسے گاڑیاں چرانے اور تباہ شدہ گھروں سے قیمتی سامان اٹھا کر لے جانے کی خبریں بھی مقامی سطح پر گردش کرتی رہیں ۔یہ بھی اطلاعات تھیں کہ زلزلے سے متاثرہ کچھ لڑکیوں کو جنہوں نے اس سانحے میں اپنے خاندانوں کو کھو دیا تھا، انہیں اغوا کر کے ملک کے دیگر حصوں میں اسمگل کر دیا گیا ۔ جس پراس وقت کی حکومت نے فوراً بچوں، خصوصاً لڑکیوں کے متاثرہ علاقوں سے باہر جانے پر پابندی عائد کر دی۔

یہ بھی ہوتا رہا کہ متاثرین کے لئے لائے جانے والے امدادی سامان کے ٹرکوں اور کنٹینروں سے طبی آلات، دوائیں، کمبل اور خیمے چرائے یا چھینے گئے اور بعد میں انہیں ملک کے دیگر حصوں میں فروخت کے لیے اسمگل کردیا گیا۔اس پر انتظامیہ نے متاثرہ علاقوںسے باہر جانے والے تمام ٹرکوں اور گاڑیوں کی تلاشی کے لیے چوکیاں قائم کردیں۔ زلزلہ متاثرین کو امداد کی تقسیم میں بھی بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا سامنا تھا۔اس ہولناک تباہی کے ساتھ ہی ہر محکمے میں موجود بدعنوان لوگوں کی چاندی ہوگئی۔بعد ازاں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بااثر لوگوں کے قبضے سے کئی کنٹینرز برآمد کیے جن میں زلزلہ متاثرین کے لیے سامان موجود تھا۔

درست سمت میں قدم اٹھانے کی ضرورت
زلزلے کے13 سال بعد جب جائزہ لیتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور لوگوں نے اکتوبر2005کے زلزلے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جس کا خمیازہ حالیہ میرپور میں آنے والے زلزلے کے نقصان کی صورت میں دیکھنا پڑا ۔آج زلزلہ سے متاثرہ علاقے کا جائزہ لیا جائے تو تمام شہروں میں قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور لوگوں کے تحفظ کو نظر میں رکھے بغیر نئی کثیر المنزلہ عمارات تعمیر ہوتی نظر آتی ہیں۔حکومت کو اس علاقے میں عمارتوں کی تعمیرات کے لیے سخت قواعد و ضوابط بنا کر ان پر سختی سے عملدرآمد کرواناچاہیے تھا جو نہ کر سکی۔ پچھلے چودہ برسوں میں فراہمی و نکاسی آب کا مناسب نظام نہیں بنایا جا سکا ۔آزاد حکومت کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ وہ ہر گائوں، قصبے اور شہر کے لیے فراہمی و نکاسی آب کا نظام بنائیں ۔

اسکولوں کی حالت بھی چنداں مختلف نہیں، طلبا اور اساتذہ ہیں لیکن بنیادی سہولیات مثلاً فرنیچر، لیبارٹریاں، لائبریری، ٹوائلٹس، پانی اور صاف ماحول میسر نہیںجبکہ بچوں کو سکول جانا یقینی بنانا چاہیے۔ صحت کے مراکز میں کوئی بھی تربیت یافتہ طبی عملہ ڈاکٹر، نرسیں اور دائیاں ہیں نہ ہی مریضوں کے لیے دوائیں موجود ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ بڑے ہسپتالوں کے علاوہ کسی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے سہولیات دستیاب ہیں نہ ہی وہاں حاملہ خواتین اور بچوں کی صحت کے لیے کوئی موزوں نظام قائم ہو سکا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ بنیادی صحت مراکز بھی منظم کرے تاکہ صحت کا نظام بہتر ہو ۔ زلزلے کے اتنے برسوں بعد ہمیں یہ احساس ضرور ہونا چاہیے کہ بھلے ہی ہم نے بہت سا وقت گنوا دیا ہے، مگر اب بھی درست سمت میں درست قدم اٹھانے کا موقع موجود ہے۔

ایک کے بعد دوسری قدرتی آفت کا انتظار
بین الاقوامی برادری اور عوام کی جانب سے بے پناہ عطیات کے باوجود حکومت نے علاقے میں بسنے والوں کے لیے ماحولیات کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ بارشوں یا زلزلوں سے بچا ئو کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں ناکامی نظر آتی ہے۔ ہماری حکومت اور لوگ ایک کے بعد ایک قدرتی آفت کا انتظار کرتے ہیں تاکہ دوسرے ممالک اور لوگوں سے امداد آئے تاکہ عوام اور ماحولیات کی قیمت پر پیسے بنائے جائیں، پچھلے 14 قیمتی برسوں کو ہم نے کس طرح ضائع کیا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔