بدلتے ہوئے حالات

زمرد نقوی  پير 14 اکتوبر 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

تازہ ترین خبر یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان چین کا دورہ مکمل کرنے کے بعد ایران، سعودی عرب کا اہم دورہ کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات کی لیکن ایرانی صدر سے کیا بات ہوئی کچھ بتانے سے گریز کیا۔

اب ایران سعودی عرب نے کشیدگی کے خاتمے کے لیے بالواسطہ طور پر ’’خاموش مذاکرات‘‘ کا آغاز کر دیا ہے۔ مذاکرات اگرچہ بالواسطہ ہیں لیکن اس کے باوجود اسے شاندار پیشرفت کہا جا سکتا ہے۔ سعودی ولی عہد شہزداہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے ایران کے صدر سے بات کرینگے جب کہ ایران نے بھی کہا ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ مذکرات کے لیے تیار ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ جدہ میں گزشتہ ملاقات میں سعودی ولی عہد نے کہا کہ وہ جنگ سے بچنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے پاکستانی وزیر اعظم کو اس معاملے میں شامل ہونے کے لیے کہا۔

مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک کا خطہ پچھلے چالیس برسوں سے بے پناہ تباہیوں بربادیوں کی زد میں ہے۔ افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے بعد افغانستان مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے۔ جس کے تباہ کن اثرات پاکستان ایران سینٹرل ایشیاء تک جاتے ہیں۔ اوپر سے سعودی عرب ایران چپقلش نے خطے کا مستقبل مزید تاریک کر دیا ہے۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یقینی طور پر امریکا ایران صلح ہو جائے گی۔

لگتا ہے کہ یہ تمام معاملات مصالحت کے بخیرو خوبی انجام پائیں گے کیونکہ اس تمام پیشرفت کے پیچھے امریکا ہو گا۔ ویسے بھی ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی نے چند دن پہلے اپنے اس بیان کو پھر دہرایا ہے کہ امریکا ، اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کا پروپیگنڈا تھا کہ ایران ایٹم بم بنا رہا ہے لیکن یہ سب جھوٹ تھا۔

یہاں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جب امریکا سعودی عرب کے درمیان صلح کرائے گا تو اس کی قیمت بھی وصول کرے گا۔ وہ قیمت ہو گی ایران امریکا جوہری معاہدہ، یہ ایک بہت مشکل مرحلہ ہو گا لیکن آخر کار یہ مرحلہ بھی طے پا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ معاملہ امریکا طالبان صلح کا ہے۔ صدر ٹرمپ کا تازہ ترین بیان ہے کہ وہ جلد از جلد امریکی فوجوں کوافغانستان سے نکالنا چاہتے ہیں۔

حالات واقعات کتنی تیز رفتاری سے رونما ہو رہے۔ اس کا اندازہ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف کے دورہ چین سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے بارے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی فرماتے ہیں کہ ’’چینی صدر کی خواہش تھی اور ہماری بھی تھی کہ ان کے دورہ بھارت کے حوالے سے ایک دوسرے کو اعتماد میں لیں اور ہم نے اعتماد میں لیا۔

وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ چینی صدر کا دورہ بھارت مکمل ہونے کے بعد بھی ان سے ہمارا رابطہ ہو گا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف کے دورہ چین کے فوراً بعد چینی صدر کا دورہ بھارت کشمیر کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ عالمی رائے عامہ صدر ٹرمپ کی ثالثی تجویز کے بعد کشمیر کی طرف متوجہ ہو رہی ہے۔ ترک صدر کا عنقریب دورہ پاکستان اور روسی صدر پیوٹن کا دورہ سعودی عرب ، ایران ، سعودی عرب مصالحت کے حوالے سے فیصلہ کن اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

اب کچھ ذکر مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کا بھی ہو جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس دھرنے کے پیچھے کوئی تھپکی یا اشارہ ہے، ورنہ تو مولانا کی بس کی بات نہیں۔ مسلم لیگ (ن) ہو یا پیپلز پارٹی دونوں ہی مسلسل دھرنے کے پیچھے راز کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک ناکام ہیں۔انھیں ڈر ہے کہ اس ساری مشق کا نتیجہ مارشل لاء کی صورت میں نہ برآمد ہو جائے۔

تاریخی سچائی یہ ہے کہ جب1970؁ء کے الیکشن میں عوام نے ذوالفقار علی بھٹو اور مجیب الرحمن کے ساتھ دیا تو مذہبی جماعتوں کی تو لاٹری نکل آئی کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کے ماضی کو فراموش کر کے انھیں اپنا اتحادی بنا لیا۔ چنانچہ ان مذہبی جماعتوں کے ذریعے پاکستانی عوام کی سوچ کو مذہبی شدت پسندی میں ڈھالا گیا۔ اس کے لیے انھیں ہر طرح کے وسائل و مراعات سے نواز گیا۔ یہاں تک کہ پاکستان پر ان مذہبی جماعتوں کی بالادستی قائم ہو گئی۔ یہیں سے پاکستان کے سیکیورٹی اسٹیٹ بننے کا آغاز ہو تا ہے۔ لیکن اب موجودہ آرمی چیف خطے میں امن قائم کرکے اس صورت حال کو پاکستانی عوام کے حق میں بدلناچاہتے ہیں۔

اب مولانا فضل الرحمن کی بائیو گرافی پر نظر ڈالیں تو ان کی مذہبی جماعت کا تعلق جمعیت علمائے ہند سے ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مولانا صاحب کے دھرنے کا فائدہ کس کو ہو گا ۔ جواب یہ ہے کہ نادیدہ قوتوں کو ۔ یہ قوتیں ایک طرف اگر حکومت کے ساتھ ہوتی ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن کے ساتھ بھی ہوتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن مذہب کا ہتھیار استعمال کر کے اپنے مہربانوں اور سرپرستوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔

جنھوں نے ان کے ماضی کو نظر انداز کر کے انھیں پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ سیاسی جمہوری قوتیں اس وقت جتنی کمزور ہیں پہلے کبھی نہیں تھیں اوپر سے مولانا فضل الرحمن کا دھرنا جمہوری قوتوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔ عمران خان کو قابومیں رکھنے کے لیے یہ دھرنا لازم ٹھہرا ہے۔ امریکا طالبان صلح اور سعودی عرب ، ایران ، امریکا صلح کے بعد نادیدہ قوتوں کا ایک بہت بڑا رول ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں۔

پیش گوئی کے حوالے سے جو بات ذہن نشین کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ انتہائی طاقتور پوزیشن میں آگئی ہے اور اس کا یہ بالادست کردار اگلے دس سے بیس سال تک برقرار رہ سکتا ہے۔ کیونکہ عالمی طاقتوں امریکا، چین ، روس کا اس پر انحصار بڑھے گا بلکہ وہ اس کی پشت پناہ ہوں گی۔

فون نمبر: 0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔