پہلے اس مسئلے کو حل کیجیے

ظہیر اختر بیدری  پير 14 اکتوبر 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

چین کے صدر شی جن پنگ ایک سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مدبر بھی ہیں جب وہ کسی مسئلے پر بات کرتے ہیں تو تناظر عالمی ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ چینی صدر دنیا کے مختلف اہم مسائل کو عالمی تناظر میں دیکھتے ہیں اور اسی تناظر میں انھیں حل کرنے کے خواہش مند ہیں جو اہل قلم مسائل کا عالمی تناظر میں جائزہ لینے کے عادی ہیں وہ شی جن پنگ کی عالمانہ گفتگو سے بہت محظوظ ہوتے ہیں۔

ان کی دوسری خوبی یہ ہے کہ وہ لگی لپٹی گفتگوکرنے کے عادی نہیں۔ عمران خان کے چین کے موجودہ دورے کے دوران شی جن پنگ نے بڑی دلچسپ تاریخی اور فلسفیانہ بات کی ہے۔

انھوں نے کہا ہے کہ تاریخ کے چھوڑے ہوئے تنازعہ کشمیرکو اب حل ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ چینی صدر نے کہا کہ چین پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے بھرپور تعاون جاری رکھے گا۔

چینی صدرکی اس یقین دہانی کو پاکستان کے حوالے سے بھارتی پالیسیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی اہمیت اور چین کی پاکستان پالیسی کے خد و خال سمجھ میں آتے ہیں۔ چین کا تعلق سابق کمیونسٹ ملکوں سے ہے اورکمیونسٹ سامراجی ملکوں کی خودغرضانہ سیاست کے سخت خلاف رہے ہیں۔

بھارت چین کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، اس کے بھارت سے مفادات وابستہ ہو سکتے ہیں لیکن سارے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر جس صاف گوئی سے چینی صدر نے پاکستان کے حوالے سے جس دو ٹوک انداز میں بات کی ہے اس سے کوئی فائدہ ہو نہ ہو سچ پر مبنی پالیسیوں کی حوصلہ افزائی ضرور ہوتی ہے۔

کشمیر پچھلے 72 سال  سے ’’تاریخ کا چھوڑا ہوا‘‘ تنازعہ بنا ہوا ہے، اس تنازعے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس تنازعے میں اب تک لاکھوں کشمیری جان سے جا چکے ہیں اگر دو ملکوں کے تنازعے کا نتیجہ 70 ہزار انسانوں کی جان جانا ہے تو ایسی جارح حکومتوں پر خدا کی لعنت ہو۔ یہ اور اس قسم کے تنازعات انسانی یا قومی مفادات کے تناظر میں پیدا ہوتے ہیں اور انسانی مفادات کو سو کالڈ قومی مفادات کے نام پر اس طرح استعمال کیا جاتا رہا ہے کہ یہ تنازعات انسانیت کی شدید رسوائی کا باعث بن گئے ہیں اور انسان بے بسی کے ساتھ ان مسائل کا شکار ہو رہا ہے۔

ہندو اور مسلمان ایک ہزار سال سے ایک ساتھ پرامن اور خوشحال طور پر رہتے آئے ہیں۔ یہ ایک ہزار سال کا عرصہ کیا جادوئی عرصہ تھا کہ خون خرابے سے بچا رہا۔ دو ڈیڑھ ہزار سال پہلے کا انسان نسبتاً پسماندہ تھا وہ کیا وجہ ہے کہ پسماندہ معاشرے میں عوام مذہبی رواداری اور محبت سے رہتے تھے اور جدید ترقی یافتہ دور میں شیطان بنے ہوئے ہیں۔

چین کے صدر اگر ہزار سال پرانے پسماندہ دور کے خوش آیندہ حقائق  بھی اس موقع پر دنیا کے عوام کے سامنے پیش کرتے تو جدید ترقی یافتہ دنیا کو ماضی کی پسماندہ دنیا کے حقائق کا اندازہ کر کے ان سے کچھ سیکھنے کا موقعہ ملتا۔ ہندو مذہب کا شمار دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں ہوتا ہے ،کیا آج کا ہندو ہزار سال پہلے کے ہندو کے مقابلے میں زیادہ روادار تھا؟ اگر تھا تو اس کی پشت پر کیا عوامل تھے؟

دنیا کی قدامت کا اندازہ مشکل ہے پھر بھی جو اندازہ لگائے گئے ہیں ان کے مطابق ہماری زمین کوئی چار ارب سال پرانی ہے  اور کرہ ارض مزید ساڑھے تین ارب سال باقی رہ سکتا ہے ،گزرے چار ارب سال کے بارے میں ہماری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن اگر کسی ذہن میں دنیا کے حوالے سے کوئی خیال کوئی تصور ابھرا ہو گا تو وہ مثبت ہی ہو سکتا ہے۔

آج ہم کرہ ارض کی چار پانچ ہزار سالہ زندگی کے بارے میں سوچتے ہیں تو مثبت اور منفی دونوں خیال ذہن میں آتے ہیں۔ معاشی امور ہماری زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، ہم بہت سمجھے یعنی بعید ازقیاس جا کر تو ماضی کا جائزہ نہیں لے سکتے لیکن انسان کی معلوم تاریخ پر ایک نظر ڈالیں خاص طور پر سرمایہ دارانہ نظام پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب دولت کے سورج کے گرد سفر کر رہا ہے۔

یہ  نادانستہ ہے نہ ناقابل تصور جب ایک نظام میں دولت کو خدا مان لیا جاتا ہے تو دولت کی اثر پذیری کا اندازہ مشکل نہیں رہتا۔ اس سرمایہ دارانہ نظام نے تو انسان  کو اس قدر بے حس شیطان بنا دیا ہے کہ نہ وہ اس نظام کی تباہ کاریوں کو سمجھ سکتا ہے نہ ان سے نکلنے کی مخلصانہ کوشش کر سکتا ہے۔ آج دنیا کے مختلف ملکوں میں ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرے ہیں ایک عام آدمی بھی ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کو سمجھ سکتا اور محسوس کر سکتا ہے لیکن کسی ایک طرف سے بھی کوئی ایسی بااثر آواز نہیں اٹھ رہی ہے کہ ان خطرناک ترین ہتھیاروں کی تیاری میں خلل ڈال سکے۔ ایسا کیوں؟

ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ دنیا پر قبضہ ایسے لوگوں کا ہے جو دولت کے پجاری ہیں، آپ حیران ہوں گے کہ ایٹمی ہتھیارکا اصل مقصد بھی ملکوں علاقوں کے نام پر دولت کا تحفظ ہے اور دولت کی منصفانہ تقسیم کا عالم یہ ہے کہ دنیا کے 7 ارب انسانوں میں 80 فیصد سے زیادہ انسان دو وقت کی روٹی سے محتاج ہیں اور دو فیصد  دنیا کی 90 فیصد سے زیادہ دولت پر قابض ہیں۔

اس ناانصافی کا فطری نتیجہ دولت مندوں سے زبردستی دولت چھیننے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے لیکن شیطانی دماغ رکھنے والوں کو پہلے ہی سے اندازہ تھا کہ ایک وقت آئے گا جب بے زر اور غریب مخلوق اٹھے گی اور انسانوں کے قاتلوں سے ان کی حشر سامانیوں کا حساب لے گی اس لیے ان شیطانوں نے نجی ملکیت کو تحفظ دیا اور اس کی حفاظت کا آہنی بندوبست کیا۔ یہ ہے ہماری دنیا کا وہ شیطانی نظام جس کی پوجا کی جاتی ہے۔

میں نے اپنے کالم کا آغاز چین کے صدر کی تقاریر سے کیا تھا۔ چین کے صدر نے کہا ہے کہ ’’تاریخ کا چھوڑا ہوا تنازعہ کشمیر حل ہونا چاہیے۔ تاریخ کا چھوڑا ہوا سب سے پرانا تنازعہ ’’انسان‘‘ ہے اگر دنیا کے مفکر، دانشور دنیا کے تمام تنازعات خواہ وہ تاریخی ہوں یا غیر تاریخی حل کرنا چاہتے ہیں تو پھر انسان کا تنازعہ حل کیجیے اگر انسان کا تنازعہ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی، یہودی وغیرہ کا تنازعہ ہے تو صرف یہ طے کر دیجیے کہ ہندو ہندو کیوں ہے، مسلمان مسلمان کیوں، سکھ، عیسائی، یہودی پارسی پہلے انسان ہیں یا کچھ اور ۔ ہے دم تو مسائل کی جڑ کو حل کیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔