سقوط ڈھاکہ کے باوجود آزاد کشمیر پرقبضے کا بھارتی خواب پورا نہ ہوا

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 13 اکتوبر 2019
سلامتی کونسل نے قرارداد میں تاخیر کرکے بھارت کو مشرقی پاکستان پر قبضے کا موقع فراہم کیا

سلامتی کونسل نے قرارداد میں تاخیر کرکے بھارت کو مشرقی پاکستان پر قبضے کا موقع فراہم کیا

قسط نمبر (4)

یہ حقیقت ہے کہ اکتوبر 1958 میں جب مارشل لا نافذ ہوا تو عوام، حکومت اور بیوروکریسی دونوں سے بیزار ہو چکے تھے، بیورو کریسی میں خصوصاً ملک غلام محمد اور سکندر مرزا نے قائد اعظم کی وفات اور وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سیاستدانوں کو استعمال کر کے بے اثر کردیا تھا۔

کچھ سیاسی رہنما مسلم لیگ سے مایوس ہو کر دوسری سیاسی جماعتوں میں شامل ہو گئے تھے اور چندایک نے نئی سیاسی جماعتیں یا محاذ بنالئے تھے، پاکستان اُس وقت دو قومی نظریے کی بنیاد پر دنیا کے نقشے پر نہ صرف حدود اربعہ اور محل وقوع کی بنیاد پر ایک نئے ملک کی صورت سامنے آیا تھا کہ جو رقبے کی بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم تھااور ان کے درمیان سمندر نہیں بلکہ ایک ہزار میل کا خشکی کا حصہ اور فاصلہ دوسرے ملک ہی کا نہیں بلکہ دشمن ملک کا تھا، مشرقی پاکستان میں 93 فیصد آبادی بنگالی تھی۔

جس میں 25 فیصد تک ہندو بنگالی آبادی تھی اور یہاں متوسط طبقہ باشعور اور عوامی سطح پر سیاست پر حاوی تھا ، مغربی پاکستان میں جاگیرداروں بڑے زمیند اروں کی سیاست پر گرفت تھی، پھر پاکستان 1935 کے قانون ہند کے تحت غیر تقسیم شدہ ہندوستان میں ہونے والے دوسرے عام انتخابات دسمبر1945 جنوری 1946کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔ اِن انتخابات میں مرکزی اسمبلی کی تیس کی تیس کی مسلم نشستیں مسلم لیگ نے حاصل کیں، آزادی کے بعد 1947سے 1958 تک انہی انتخابات اور 1956 تک انگریز عہد کے قانون ہند مجریہ 1935 کے مطابق حکومتیں تشکیل پاتی رہیں اور 1935 کے قانونِ ہند کے تحت ہمارے آئینی سربراہ برطانیہ کا بادشاہ یا ملکہ تھیں۔

اِن حکومتوں میں سوائے فیروز خان نون کے چار وزرا اعظم کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور لیاقت علی خان اور آئی آئی چندریگر اور چوہدری محمد علی کا تعلق اُ ن علاقوں سے تھا جو تقسیم کے بعد ہندوستان کا حصہ تھے، یوں لیاقت علی خان سمیت وہ اراکان ِ پارلیمنٹ جن کا حلقہ انتخاب اب یہاں نہیں تھا بلکہ بھارت میں رہ گیا تھا اُن کے لیے اب یہ مشکل تھی کہ وہ کسی حلقہ انتخاب سے الیکشن لڑیں، یوں مقررہ وقت پر عام انتخا بات نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی، اگر مقرر وقت پر یعنی 1951 میں انتخابات ہوتے تو پھر اِن کو پارلیمنٹ میں جگہ نہ ملتی۔

اب جہاںتک تعلق مشرقی پاکستان کی قیادت کا تھا تو اس میں خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرا کا پس منظر جاگیردارانہ تھا جب کہ اے کے فضل حق اور حسین شہید سہروردی اعلیٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ہی ہندوستان کے مغربی بنگال کی جانب سے کیمونسٹ، سوشلسٹ اور نیشنلسٹ افکار پر یقین رکھنے والوں نے اِ س ماحول میں دو قومی نظریے کو کمزور کرکے خصوصاً بنگالی قوم پرستی کو تقویت دی، حسین شہید سہروردی، اے کے فضل حق ’’ شیر بنگال‘‘ تو پہلے ہی بنگال کی تقسیم کے خلاف تھے، یہ لیڈر مسلم لیگ میں رہتے ہو ئے بھی اِن خیالات کا برملا اظہار کرتے تھے۔

تقسیم سے قبل مسلم لیگ بنگال کے بہت سے اراکین اس پر اس لیے کھل کر بات چیت کرتے تھے کہ اس سے مجموعی طور پر برصغیر کے مسلمانوں کو فائدہ تھا اور سہہ وفاق گان یا اے بی سی فارمولے میں بھی تو آسام اور بنگال کو ایک وفاق، دوسرا مرکزی ہند وستانی صوبوں پر مشتمل علاقوں کا وفاق اور تیسرا پنجاب،سندھ،خیبر پختونخوا اور بلوچستان پر مشتمل وفاق تھا، اس تجویز کو پہلے قائد اعظم نے قبول کر نے کا اشارہ دیا تھا مگر کانگریس نے جب اس تجویز کو شدت سے رد کردیا تو پھر مسلم لیگ نے بھی اس سے انکار کردیا تھا لیکن مجموعی مسلم اکثریت کی بنیاد پر اگر بنگال، جہاں متوسط طبقہ باشعور اور تعلیم یافتہ تھا اور اس کا سائز بھی مغربی پاکستان کے متوسط طبقے سے کہیں زیادہ تھا۔

یہاں ایک بنگال بن سکتا تھا اور یہاں کروڑوں کی ہند مسلم آبادی بنگالی نیشنل ازم اور مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد پر متحدہ ہو کر رہ سکتی تھی، جس کا بہترین مظاہر ہ آج بھی بنگلہ دیش کے ساڑھے تیرا کروڑ مسلمان بنگالی اپنے بنگلہ دیشی تقر بیاً ڈھائی کروڑ ہندو بنگالیوں کے ساتھ کر رہے ہیں، مگر یہ کانگریس کے ساتھ ساتھ کیمونسٹ، شوسلسٹ اور نیشنلسٹ ہندو سیاستدانوں اور دانشوروں کو قبول نہ تھا، اس کی ایک بڑی اور بنیاد ی وجہ یہ ہے کہ برصغیر میں ہندو دھرم کا تعصب ہمیشہ افکارو نظریات پر حاوی رہا ہے، چاہے وہ کتنے ہی اعلیٰ و ارفع کیوں نہ ہوں، اس کی بہترین مثال بنگال کی ہے۔

پھر مغربی پاکستان میں مفاد پرست مسلم لیگی قیادت اور کسی حد تک مشرقی پاکستا ن میں مسلم لیگ کی وہ قیادت جس کی مقبولیت کا گراف جو مشرقی پاکستان میں بنگالی قوم پرستی کے پر جوش عوامی رد عمل کی وجہ نیچے آرہا تھا اُس سے نے بھی بر وقت انتخابات سے گریز کیا۔ یوں جو مسلم لیگی قیادت موجود تھی وہ بھی مجموعی طور مفادات کی خاطر نہ صرف گروپوںمیں تقسیم ہو چکی تھی بلکہ انحطاط اور ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر تھی، تو ان حالات میں جہاں ایک نئے ملک میں منتخب قیادت کا بحران تھا وہیں ملک کی سالمیت کے حوالے سے بھی عوام وسوسوں اور اندیشوں کا شکار تھے۔

ایسے وقت میں ملک کا پہلا مارشل لاء جس کے نافذالعمل ہوتے ہی سخت قانون اور فوری فیصلوں کی وجہ سے عوام کو ریلف ملا تو دو طرح کی سیاسی قیادت ایک وہ جو عوامی حمایت کھو چکی تھی اور بیوروکریسی کی بیساکھیوں کے سہارے حکومت کر رہی تھی، دوسری وہ جس میں سے بعض نے مسلم لیگ سے کنارہ کشی کر لی تھی اور چند ایک ایسے بھی تھے جو حکومت اور مسلم لیگ میں رہتے ہوئے بھی مشرقی پاکستان کے حوالے سے شدید موقف رکھتے، دونوں ہی مارشل لا کے نفاذ سے 1965 تک منظر نامے سے ہٹ گئے۔

بنگال کے وہ رہنما جن میں محمد علی بوگرا جنہو ں نے مشرقی آبادی کے اضافی تناسب کے باوجود برابری کا اور مغربی پاکستان کو ایک یونٹ بنانے کا اپنا مشہوربوگرا فارمولہ دیا تھا وہ 23 جنوری 1963کو انتقال کر گئے، اِن سے قبل اے کے فض حق 27 اپریل 1962 کو رخصت ہو گئے تھے، خواجہ ناظم الدین اکتوبر1964کو وفات پا گئے تھے اور 1969 میں صدر جنرل یحٰی خان کے مارشل لاء کے نفاذ کے آٹھ ماہ بعد حسین شہید سہر وردی بھی 12 نومبر1969 کو اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئے تھے، یعنی 1970 کے انتخابات میں مشرقی پاکستا ن کی وہ لیڈر شپ جو آزادی کے عمل میں شامل تھی اور بعد میں اپنا الگ موقف بھی رکھتی تھی۔

باقی نہ رہی۔ سہر وردی اور فضل حق نہ صرف تقسیم سے قبل مشترکہ بنگال کے وزیر اعظم رہے بلکہ سہروردی پاکستان کے وزیر اعظم اور فضل حق مشرقی پاکستان میں حکومت میں رہے، البتہ مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات کے منتخب جتو فرنٹ کے خلاف وفاق کی مداخلت کی وجہ سے وہ مغربی پا کستان کی سیاسی حاکمیت کے شدید خلاف تھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر یہ قیادت 1971 تک ہوتی تو بہت سے معاملا ت پر گفت و شنید کی بنیاد پر مسائل کا حل نکل آتا۔ صدر ایوب خان کے جانے کے بعد جنرل یحیٰ خان کو سیاسی میدان میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر دنیا کے شاطر ترین سیاست دانوں کا سامنا تھا۔

امریکہ میں صدررچرڈ نکسن برسر اقتدار تھے اور اُن کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر تھے جو آج بھی تقریباً 94 برس کی عمر میں امریکی تھینک ٹینک کے اہم رکن ہیں، روس میں برزنیف، چین کے موزے تنگ اور چواین لائی تھے اور ملکی سطح پر ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن، مولانا بھاشانی، پروفیسر غفور،خان عبدالولی خان،مولانا مفتی محمود ، مولانا شاہ محمد نورانی، نواب اکبر خان بگٹی، سردار عطا اللہ مینگل ، نواب خیر بخش مری، نوابزادہ نصراللہ خان تھے۔ اگرچہ اُس وقت بھی بیوروکریسی میں اُنہیں اچھے اعلیٰ افسران میسر تھے مگر نہ معلوم کیوں بیشتر یا تو اُس وقت اہم عہدوں پر فائز نہیں کئے گئے یا اُن کے مشوروں پر عملد آمد نہیں ہوا۔

اسی طرح فوج میں لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان کے ساتھ ہوا، کہ اُن کی تجاویز اور مشوروں کو رد کر کے اُن کو مشرق پاکستان سے فارغ کردیاگیا، پھر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اتنے نازک حالات میں بھی صدر جنرل یحییٰ خان کو اقتدار کا لالچ تھا اور وہ یہ چاہتے تھے کہ آئین کی عدم موجودگی میں سیاستدان پھر سیاسی مسائل اور دھڑے بندیوں کی وجہ سے ایسے چکروں میں الجھ جائیں جیسے پہلے سیاستدانوںکو ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا نے الجھایا تھا۔ اب صورت یہ تھی کہ صدر ایوب خان نے 1956 کا پارلیمانی آ ئین منسوخ کر دیا تھا اور صدارتی نظام کے استحکام کے لیے 1962 کا صدارتی آئین نافذ کیا تھا جس کے بارے میں اُس وقت معروف شاعر حبیب جالب نے مشہور نظم ( ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا) کہی تھی اور مری کے مشاعرے میں سنانے پر انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ اب حالات مختلف تھے سیاسی لیڈروں نے ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی ہی اس لیے تھی کہ صدارتی نظام کو ختم کر کے پارلیمانی نظامِ نافذ کیا جائے۔

یوں جب صدر جنرل یحیٰ خان اقتدار میں آئے تو 1962 کا صدارتی آئین اپوزیشن کے لیڈروں کے پُر زور مطالبے پر منسوخ کر دیا گیا تو آئینی خلا پیدا ہوا، اب امن و امان کو کنٹرول کرنے کے لیے تو مارشل لا کے سخت قوانین سرسری سماعت کی عدالتوں کے ساتھ نافذ تھے مگر پارلیمانی جمہوریت کی بحالی اور اس کے لیے انتخابات کے لیے قوانین کی ضرورت تھی اور یوں ایل ایف او یعنی لیگل فریم ورک آرڈر صدر یحیٰ خان کی حکومت نے تشکیل دیا اور اسی میں مفاد پرستوں نے اقتدار کی مدت کو بڑھانے کا نسخہ تجویز کردیا تھا اور وہ یہ تھا کہ عام انتخابات کے حوالے سے یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ انتخابات کے شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی آخری تاریخ 14 اکتوبر 1970 مقر ر کی گئی اور انتخابات کی تاریخ 7 دسمبر 1970 طے ہوئی۔ اس الیکشن میں شیخ مجیب الرحمن نے اپنے مشہور ِزمانے چھ نکات کی بنیاد پر شرکت کی اور ان کے مقابل لیڈر مولانا بھاشانی ان کے حق میںاپنی پارٹی سمیت دستبردار ہوگئے۔

صدر یحییٰ خان نے ایل ایف او میں آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا وعدہ کیا جو واقعی پورا کیا، پاکستان کی تاریخ میں صرف 1970 کے انتخابات کو شفاف تسلیم کیا جاتا ہے مگر ایل ایف او میں یحیٰ خان کی جانب سے شرط تھی کہ انتخابات کے بعد جب اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے اور اراکین اسمبلی حلف اٹھا لیں تو پھر90 دن کے اند ر اندر پارلیمانی نظام جمہوریت کو چلانے کے لیے نیا آئین بنایا جائے، واضح رہے کہ صدر یحیٰ خان کو یہ بتایا گیا تھا کہ اِن انتخابات میں بائیں بازو کی جماعتیں قومی اسمبلی کی300 جنرل نشستوں میں سے زیادہ سے زیادہ37 نشستیں حاصل کر سکیں گی۔

یہ وہ اندازے تھے جن کی بنیاد پر یحیٰ خان کو مفاد پرستوں نے غالباً عالمی سازش کے تحت ٹریپ کیا۔ اُس وقت مغربی پاکستان سے 138 نشستوں پر 1070 امیدواروں نے کاغذ ات نامزدگی جمع کروائے۔ مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں پر 876 کاغذات نامزدگی داخل ہوئے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان سے جماعت اسلامی نے 151 پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان سے120 امیدوار کھڑے کئے جن میں سے103 صرف پنجا ب میں تھے۔ پاکستان مسلم لیگ کنونشنل نے 124 امیدوار، مسلم لیگ کونسل نے119 امید وار مسلم لیگ قیوم نے133 امیدوار کھڑے کئے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دائیں بازو کی جماعتوں کو اپنی جانب سے کس قدر زیادہ توقعات تھیں۔ مگر انتخابات کے نتائج بالکل ہی مختلف اور خلاف توقع تھے، ان انتخابات میں پاکستان میں کل ووٹوں کی تعداد 56941500 تھی۔ مشرقی پاکستان کے 31211220 ووٹ تھے اور مغربی پاکستان کے ووٹوں کی کل تعداد 25730280 تھی۔ ووٹ ٹرن آوٹ 63% تھا۔

انتخابات کے نتائج یوں سامنے آئے کہ مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں میں سے شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے 160 نشستیں حاصل کیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان کی کل 138 نشستوں میں سے قومی اسمبلی کی 81 نشستیں حاصل کیں، جب کہ جماعت اسلامی4 ،کونسل مسلم لیگ 2 ، مسلم لیگ قیوم 9 ، جمعیت علما اسلام ، جمعیت علما پاکستان اور کنونشنل مسلم لیگ سات، سات نشستیں، عوامی نیشنل پارٹی 6 اور پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی ایک نشست حاصل کر سکی، جب کہ 16 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے، اب یہ واضح تھا کہ بائیں بازو کی جماعتوں نے میدان مار لیا تھا اور شائد 37 کے قریب قومی اسمبلی کی نشستیں ہی دائیں بازو کی جماعتوں کو مل پا ئیں تھیں، اور مسئلہ پھر اقتدار کی منتقلی کا ہو گیا تھا۔

شیخ مجیب الرحمن اپنے چھ نکات میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ بھٹوکا موقف یہ تھا کہ مغربی پاکستان میں پی پی پی کو اکثریت حاصل ہے اور جہاں تک تعلق ملک کے آئین کا ہے تو یہ کسی پارٹی کا انتخابی منشور نہیں ہو سکتا اس لیے بھٹو نے مجیب سے مذاکرات میں واضح کیا کہ وہ مشرقی پاکستان کی، الگ کرنسی ، الگ فوج یا نیم فوجی فورسزاور امور خارجہ جیسے تین نکات سے دستبرادر ہو جائیں مگر اُن کی پشت پر بھارت اور سوویت یونین تھے اور غالباً امریکہ اور برطانیہ کو بھی اپنے مفادات کے اعتبار سے اس کا کوئی نقصان نظر نہیںآتا تھا کہ اگر مشرقی پاکستان، پاکستان سے الگ ہو جائے۔

اب تناؤ میں اضافہ ہو رہا تھا اور پھر مجیب اور بھٹو میں ڈیڈ لاک ہو گیا۔ بھٹو نے یہ بھی کہا کہ اگر ایل ایف او سے تین ماہ کی مدت میں آئین بنانے کی شرط کو ختم کر دیا جائے تو اسمبلی کا اجلاس بلو ایا جا سکتا ہے اس طرح شائد بھٹو یہ چاہتے تھے کہ وقت مل جائے تو شائد کوئی راستہ نکالا جا سکتا تھا، یہ بھی ممکن تھا کہ آئین کے بنانے کا عمل ہی طول پکڑ جاتا اور آئندہ نئے الیکشن آجاتے مگر بھارت کی جانب سے تربیت یافتہ مکتی باہنی بنگالی نوجوانون پر مشتمل فوج کے ساتھ اپنے بنگالی بولنے والے فوجیوں کو داخل کیا گیا اور یوں امن و امان کے مسائل انتہائی درجے پر پہنچ گئے۔

قتل وغارت گری بہت بڑھ گئی، واضح رہے کہ سوویت یونین اور چین کے تعلقات بھی ماضی قریب ہی میں زیادہ خراب ہوئے تھے اور سرحدوںپر دونوں ملکوں کی جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔ جولائی 1971 میں صدر یحییٰ خان نے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا چین کا خفیہ دورہ پی آئی اے کے طیارے سے کروایا جو بد قسمتی سے خفیہ نہ رہ سکا، یوں سابق سوویت یونین کے برزنیف نے یہ جانا کہ امریکہ اور چین اتحاد سوویت یونین کے خلاف قائم کیا جا رہا ہے اور پھر بھارت کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے دونوں ملکوں نے آپس میں دفاعی معاہدہ کر لیا جس میں بھارت اور روس میں طے پایا کہ دونوں ملکوں میں سے اگر کسی ایک پر کسی تیسرے ملک کی جانب سے حملہ کیا جائے تو ایک ہی ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔

بھارت نے یہ معاہدہ کر کے نہرو کی غیر جانبدارانہ پالیسی کو ختم کر دیا اور پھر جب شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کیا گیا تو اس کے ساتھ ہی صدر جنرل یحییٰ خان نے فوجی ایکشن لیا تو منصوبے کے مطابق تقریباً ایک کر وڑ بنگالی بھارتی مشرقی بنگال میں پناہ لینے کے لیے داخل ہو گئے۔ یہ صورت ابھی پیدا ہوئی تھی اور پاکستان نے کوشش کی کہ جنگ کو اِن حالات میں روکا جائے اور امریکہ کے تعلقات کو استعمال کیا، جس پر بعد میں صدر نکسن نے انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے بھارت کی جانب سے حملے سے چار روز قبل بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو فون کیا تھا کہ وہ پاکستان پر حملہ نہ کرے اور اندار گاندھی نے اُن کو یقین دلایا تھا کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کر ے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔

مشرقی پاکستان کے اندر لاکھوں کی تعداد میں مکتی باہنی کے دہشت گرد تھے جو پاکستانی افواج پر گوریلا طر ز کے حملے کر رہے تھے تو ساتھ ہی 3 دسمبر1971 کو بھارت نے پاکستانی افواج سے چار گنا زیادہ تعداد اور اسلحہ اور ہتھیاروں سے مشرقی اور مغربی پاکستان کی بھارت سے ملنے والی تمام سرحدوں اور آزاد کشمیر پر اُس وقت کی جنگ بندی لائن اور آج کی لائن آف کنٹرول سے بھی بھرپور حملہ کر دیا۔ اُس وقت چین میں ماوزے تنگ کیمونسٹ پارٹی کے چیئرمین اور چواین لائی وزیر اعظم تھے، پاکستان کے دوسرے ہمسایہ ملک ایران پر شہنشاہ رضاشاہ پہلوی کی حکومت تھی اور افغانستان پر شاہ ظاہر شاہ کی حکومت تھی۔

چین سفارتی محاذ پر بھرپور انداز میں پاکستان کے ساتھ تھا، ایران کی ہمدردیاں اور تعاون بھی پاکستان کو میسر تھا اور افغانستان اُس وقت بھی ڈیورنڈ لائن کی بنیاد پر پاکستان سے اختلاف رکھتا تھا اور ریڈیو کابل پر پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا مگر عملی طور پر افغانستان نے اسلام دوستی کا ثبوت دیا اور ظاہر شاہ نے اس تیسری پاک بھارت جنگ میں بھی اسلامی ملک ہو نے کے ناطے بھارت کی کو ئی مدد نہیں کی بلکہ عوامی سطح پر بھارت کے خلاف پاکستان کی بھرپور حمایت کی گئی، مگر سیٹو، سینٹو جیسے دفاعی معاہدوںمیں مغربی دنیا کا بھر پور ساتھ دینے والے پاکستان کی حمایت اور مدد کے لیے امریکہ، بر طانیہ سمیت کوئی مغربی ملک نہیں آیا۔

اسی طرح پاکستان بھارت سمیت دنیا کے کئی دوسرے ملکوں کی طرح دولت ِ مشترکہ کا ایک اہم رکن ملک تھا اور صدر ایوب خان کے دور حکومت میں ملکہ برطانیہ نے مغربی اور مشرقی پاکستان کا ایک طویل دورہ بھی کیا تھا مگر بھارت کی جانب سے حملے کے وقت برطانیہ نے بھی دولت مشترکہ کے فورم سے پاکستان کے لیے کچھ نہ کیا۔ اس جنگ میں پاکستان فضائیہ نے بھارت کے گیارہ اہم ہوائی اڈوں کو نشانہ بنایا۔ جنگ دسمبر1971 میںاس جنگ میں ایسٹرن کمانڈ پر بھارت کی جانب سے منصوبے کے مطابق زیادہ زور تھا اور ساتھ ہی بھارت کی کوشش تھی کہ اس جنگ میں جلد از جلد وہ کشمیر میں سیز فائر لائن پر پیش قدمی کر کے پورے آزادکشمیر پر بھی قبضہ کر لے مگر باوجود مشرقی محاذ پر انتہائی مخدوش حالات کے یہاں پر پاکستان کا دفاعی حصار مضبوط رہا، اس جنگ کے وقت بھارت میں صدروی وی گری، وزیر اعظم اندار گاندھی اور وزیر خارجہ سردار سورن سنگھ تھے۔

چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل سام مانیک شا، جی او سی ایسٹرن کمانڈ لیفٹینٹ جنرل جگ جیت سنگھ اروڑہ تھے۔ بھارتی نیوی کے سربراہ وائس ایڈ مرل ویسٹرن نیوی کمانڈ ایس این کوہلی اور فضائیہ کے چیف پرتاپ سی لا ل تھے، پاکستان میں صدر جنرل یحییٰ خان جو فوج کے کمانڈر انچیف بھی تھے، وزیر اعظم نور الامین تھے، واضح کہ مشرقی پاکستان میں قومی اسمبلی کی 162 نشستوں میں سے 160نشستیں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے حاصل کی تھیں اور جو دوشخصیات عوامی لیگ کے مقابلے میں کامیاب ہوئی تھیں ان میں ایک راجہ تری دیو رائے اور دوسرے نورالامین تھے۔

بھٹو نے بطور وزیر خارجہ معاہد ہ تاشقند کے موقع پر صدر ایوب خان کے موقف سے اختلاف کیا تھا اور پھر اسی بنیاد پر اپنی شہرت اور مقبولیت کی وجہ سے حکومت کے خلاف کامیاب تحریک چلائی تھی اس لیے جب جنرل یحیٰ خان اقتدار میں آئے تو انہوں نے وزارتِ خارجہ کا قلمندان اپنے پاس رکھا لیکن 3 دسمبر سے16 دسمبر تیرا دن تک جاری رہنے والی اِس جنگ کے آخری دنوں میں اُنہوں نے بھٹو کو وزیر خارجہ بنا کر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں بھیجا۔

پاکستان کی افواج میں اُس وقت مشرقی پاکستان کے محاذ پر کمانڈنٹ ایسٹرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی تھے، جبکہ پاکستان کی افواج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عبدالحمید خان ، لیفٹینٹ جنرلوں میں نیازی کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل گل حسن، لیفٹینٹ جنرل ٹکاخان، لفٹیننٹ جنرل شیر خان، میجر جنرل افتخار جنجوعہ اور میجر جنرل خادم حسین تھے۔ پاکستان نیوی کے نیول چیف مظفر حسین اور فضائیہ کے سربراہ ایر مارشل عبد الرحیم۔ جنگ 1971 میں بھارتی فوج کی تعداد 500000 تھی جن کی مدد مکتی باہنی کے دولاکھ سے زیادہ گوریلے کر رہے تھے۔

جن کو 1966 کے بعد سے جب سے اندرا گاندھی وزیر اعظم بنی تھیں، انڈیا میں تربیت دی جا رہی تھی، پاکستانی فوجیوں کی کل تعداد 365000 تھی، اس جنگ میں باوجود انتہائی خراب حالات کے پاکستان کی فضائیہ نے پہلے بڑے فضائی حملے میں بھارت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا اور مجموعی طور پر جنگ میں 42 کے مقابلے میں 130 لڑاکا طیارے تباہ کئے۔ بھارتی طیارہ بردار بحری جہاز وکرنٹ کو نقصان پہنچایا، جنگ میں 3800 بھارتی فوجی مارے گئے جب کہ پاکستانی فوج کے 9000 سپاہی اور افسران شہید ہوئے۔ 16 دسمبر 1971 ایسٹرن کمانڈ کو شکست ہو گئی۔

تقریبا 93000 فوجیوںکو جنگی قیدی بنایا گیا جن میںساڑ ھے بارہ ہزار سویلین بھی شامل تھے، اگر چہ اسی روز شام کو صدر پاکستا ن جنرل یحییٰ خان نے ریڈیو پر قوم سے خطاب میں یہ کہا ،،کہ کسی ایک محاذ پر جنگ ہارنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جنگ ہار گئے ہیں ہم جنگ لڑینگے،، مگر اب صورتحال بدل گئی تھی، اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل جس میں ہنگامی بنیادوں پر ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ بنا کر بھیجا گیا تھا، وہاں بھٹو نے شدید احتجاج کیا، کیوں کہ اقوام متحدہ کی جانب سے کسی قرارداد کی منظوری کے لیے سوویت یونین اور چند ممالک کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کر کے بھارتی فوج کو وقت دیا جا رہا تھا کہ وہ اپنے مقاصد حاصل کر لے ،کیونکہ اگر سکیورٹی کونسل کی جانب سے 1965 کی جنگ رکوانے کی قرارداد کی طرح 16 دسمبر1971 سے پہلے جنگ بندی کی کو ئی قرارداد منظور ہو جاتی تو بھارت کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو جاتا۔

بھارت کے مطابق اُس نے مشرقی پاکستان سے آنے والے ایک کروڑ افراد کو پناہ دے رکھی تھی، اگر جنگ بندی ہو جاتی تو پھر یہ مشکل تھا کہ وہ کچھ عرصے کے لیے بھی اِن کا بوجھ اٹھا سکتا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کی جانب سے تو اِن کی واپسی پر کو ئی پابندی نہیں تھی بلکہ اِن کے گلے شکوے دور کئے جاتے، اور اگر بہت طوفان کھڑا ہوتا تو اقوام متحدہ کی جانب سے معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیق کی جاتی لیکن ایسا نہ ہو سکا اور یہ حقیقت ہے کہ اُس وقت بھی دنیا کی بڑی قوتیں یہ فیصلہ کر چکی تھیں کہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کر دینا ہے اور پھر ایسا ہی ہوا۔

بھٹو احتجاج کرتے ہو ئے اپنی تحریر کردہ تقر یر کو پھاڑ کر یہ کہتے ہو ئے ہال سے نکل آئے کہ یہاں لیت ولعل سے کام لیا جا رہا ہے جب کہ میر ے ہم وطنوں کو مارا جارہا ہے میں یہا ں اپنا وقت کیوں ضائع کروں میں واپس وطن جاؤں گا ہم لڑلیں گے ہم پاکستان کو تعمیر کریں گے، اُس وقت شیخ مجیب الرحمٰن مغربی پاکستان میں قید تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو واپس پاکستان آئے تو جنگ بندی کے صرف چار دن بعد صدر جنرل یحیٰ خان مستعفیٰ ہو گئے اور چونکہ اُس وقت ملک میں کو ئی آئین نہیں تھا،اس لیے ذوالفقار علی بھٹو کو سول چیف مارشل لاایڈ منسٹریٹر اور صدر مملکت بنا کر اقتدار اُن کے سپر دکردیا گیا۔

سوال یہ بھی ہے کہ جب بھارت بہت بہتر پوزیشن میں تھا اور بعض اطلاعات کے مطابق اُس کا یہ منصو بہ بھی تھا۔ راجستھان، تھر پارکر سرحد سے بھارتی فوجیں نازی افواج کے فرانس پر حملے کی طرح نہایت تیز رفتاری سے پیش قدمی کرتے ہو ئے پہلے سندھ بلوچستان کو باقی ملک سے کاٹ دیں اور پھر اگر مناسب صورتحال ہو تو بلوچستان سے خیبر پختونخوا کی جانب پیش قدمی کر یں لیکن ایک جانب تو اقوام متحدہ میں بھارت نے جس مسئلے کو جواز بنا کر پاکستان کے خلاف بڑی فوجی قوت سے بھرپور حملہ کیا تھا وہ جواز اب ختم ہو گیا تھا۔

اب بد قسمتی سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا اور بھارت کے پاس جنگ جاری رکھنے کا کو ئی جواز نہیں تھا، تو ساتھ ہی اب امریکہ اور چین نے بھی واضح کر دیا تھا کہ بھارت کو اب اپنی جارحیت فوراً روکنی ہو گی، اگر چہ اندرا گاندھی نے جنگ سے چند دن پہلے امریکی صدر نکسن کے انتباہ کو نہ صرف نظر انداز کر دیا تھا بلکہ صدر نکسن سے جھوٹ بول کر اُن کو یقین دلایا تھا کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کر ے گا۔ بھارتی فوج تعداد میں پاکستان کی افواج سے تقریباً ساڑھے تین گنا زیادہ تھی بھارت نے مغربی پاکستان میں بھی تقریباً پانچ ہزار مربع میل رقبے پر قبضہ کر لیا تھا پھر اندرا گاندھی نے جنگ کیو ں روک دی؟

اس کی بنیاد ی وجہ حقیقت پسندی کی بنیاد پر بھارتی جنرلوں خصوصاً چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل مانیک شا اور جی او سی ایسٹرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل جگ جیت سنگھ اروڑہ کی جانب سے دیئے گئے مشورے تھے کہ ایک تو مشرقی پاکستان میں زمینی حقائق پاکستان کے خلاف تھے اس لیے وہاں فوجی شکست ہو گئی، مغربی پاکستان میں بھارتی مزید پیش قدمی محال ہو گی اور پھر جنگی اصولوں کے مطابق اگر حالات اور مقامی آبادی فاتح افواج کے حق میں نہ ہوں تو کسی ملک کے رقبے کو فتح کر نے کے بعد اُس پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے دس گنا زیادہ فوجی قوت اور اخراجات کے باوجود قبضہ آخر چھوڑنا پڑتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ جنگ 16 دسمبر1971 میں بند ہو گئی۔ 1947اور1971کی تاریخ کی بدترین خونریزی ہوئی، جس میں لاکھوں افراد مارے گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔