تعلیم ہماری ترجیح… تدریس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جارہاہے: حکومت پنجاب

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 14 اکتوبر 2019
 ’’شعبہ تعلیم میں اصلاحات‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں منعقدہ مذاکرہ کی رپورٹ

 ’’شعبہ تعلیم میں اصلاحات‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں منعقدہ مذاکرہ کی رپورٹ

تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے ۔ جو قومیں نظام تعلیم کی بہتری اور اساتذہ کی فلاح کیلئے زیادہ کام کرتی ہیں وہ دنیا میں تیزی سے ترقی کرتی ہیں۔

دنیا کے تمام مذاہب خصوصاََ دین اسلام میں حصول تعلیم کو فریضہ قرار دیا گیا ہے جبکہ دنیا بھر میں اسے بنیادی انسانی حقوق میں شامل کیا گیا ہے جس سے تعلیم کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آئین پاکستان بھی تعلیم کو بنیادی انسانی حق تسلیم کرتا ہے اور ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ تمام پاکستانیوں کو بلاتفریق رنگ، نسل مذہب، علاقہ و دیگرامتیاز کے تعلیم دے۔ پاکستان کے نظام تعلیم پر بیشتر سوالات اٹھتے ہیں اور ہر حکومت اپنے انداز میں اسے چلانے کی کوشش کرتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے اپنے منشور میں تعلیم کو ترجیحات میں شامل کیا اور 100 روزہ پلان میں بھی اس پر خصوصی توجہ دی گئی۔ اس حوالے سے حکومت کیا کام کر رہی ہے اور آئندہ کیا اقدامات کیے جا ر ہے ہیں، ان کا جائزہ لینے کیلئے ’’نظام تعلیم میں اصلاحات‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا۔

جس میں سیکرٹری سکول ایجوکیشن پنجاب محمد محمود رائے اور اساتذہ یونینز کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ یہ فورم چند روز قبل منعقد کیا گیا تھا جبکہ اب سیکرٹری سکول ایجوکیشن پنجاب محمد محمود رائے کا تبادلہ ہوچکا ہے۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

 محمد محمود رائے
(سابق سیکرٹری سکول ایجوکیشن پنجاب)

تعلیم حکومتی ترجیحات میں شامل ہے اور حکومت اس شعبے کو مزید بہتر بنانا چاہتی ہے۔ پنجاب کا محکمہ سکول ایجوکیشن، ہیومن ریسورس اور بجٹ کے لحاظ سے پاکستان کا دوسرا بڑا محکمہ ہے جبکہ ریلوے، پولیس، واپڈا و دیگر محکمے ماسوائے پاکستان آرمی کے، سب اس سے چھوٹے ہیں۔ ہمارے 6 لاکھ ملازمین ہیں جو حکومت پنجاب کے ہیومن ریسورس کا 40 فیصد ہے۔

پنجاب کے 1 کھرب روپے کے سالانہ بجٹ میں سے 400 ارب روپے محکمہ تعلیم پر خرچ کیے جاتے ہیں لہٰذا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ محکمہ کتنا اہم ہے۔ بچوں اور سکولوں کی تعداد کے اعتبار سے یہ دنیا کا ایک محکمہ بڑا ہے۔ ہمارے 53 ہزار سکول ہیں جن میں سوا کروڑ بچے زیر تعلیم ہیں جنہیں سوا چار لاکھ اساتذہ پڑھاتے ہیں۔یہ بے شمار ممالک کی آبادی سے بڑی تعداد ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس محکمے کو چلانا کتنا بڑا چیلنج ہے۔

55 فیصد بچے سرکاری جبکہ 45 فیصد بچے نجی سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس کی وجہ سے حکومت پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نجی سکولوں میں بھی معیاری تعلیم یقینی بنائے۔ گزشتہ 10 سے 15 برس میں تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی اور تندہی سے کام کیا گیا جس میں زیادہ کام ’تعلیم تک رسائی‘ پر کیا گیا اور اس میں بہتری بھی آئی۔

سکولوں کا انفراسٹرکچر بہتر بنایا گیا، ٹائلٹ، کلاس روم، پانی، بجلی و دیگر سہولیات کو یقینی بنایا گیا تاکہ بچوں کو بہتر ماحول اور سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ صوبہ پنجاب نے تعلیم پر خصوصی توجہ دی اور یہاں بے شمار اصلاحات لائی گئیں۔ پنجاب کے سکولوں کا تمام ڈیٹا کمپیوٹرائزڈ کردیا جس سے ہر سکول جیو ٹیگ ہوگیا اور تمام ریکارڈ ایک کلک پر میسر ہوگیا ہے۔

اس سسٹم کی کامیابی کی وجہ سے اب پنجاب میں ایک بھی گھوسٹ سکول یا ٹیچر نہیں ہے جو بہت بڑی بات ہے۔ ہمارے ہاں اب ایک سسٹم بن چکا ہے جبکہ باقی صوبے ابھی تک اس مسئلے پر قابو نہیں پاسکے۔سکولوں کے ڈیٹا و مانیٹرنگ کے حوالے سے ہم نے ایک ’ایپ‘ بنوائی ہے جس میں سکولوں کی تعداد، اساتذہ و طلبہ کا ریکارڈ، صفائی ستھرائی، ٹائلٹ، کلاس رومز، رزلٹ، خالی آسامیاں و تمام مطلوبہ ڈیٹا موجود ہے جسے ایک کلک پر دیکھا جاسکتا ہے۔

میں نے ایک ’ایپ‘ بنائی ہے، میں جب بھی کہیں سفر کرتا ہوں تو یہ ’ایپ‘ مجھے نزدیکی سکولوں کی لوکیشن بتاتی ہے ، راستہ دکھاتی ہے اور مزید کلک کرنے پر سکول کی تمام تفصیلات آجاتی ہیں جن میں اساتذہ ، بچوں، کلاس رومز کی تعداد، گزشتہ 5 برسوں کا رزلٹ، پیسے ، و دیگر معلومات شامل ہیں۔ اب اچانک دورہ کیا جاتا ہے۔

جس سے موجودہ حالت کا علم ہوجاتا ہے ورنہ پہلے سکول کو اطلاع مل جاتی تھی اور پہنچنے سے پہلے ہی بہت سارے معاملات مینج کر لیے جاتے تھے۔ ایک بات قابل ذکر ہے کہ انفراسٹرکچر وسہولیات بہتر کرنے کے باوجود تعلیمی معیار میں بہتری نہیں آئی لہٰذا اب آئندہ 10 برسوں میں انفراسٹرکچر سے زیادہ ہماری توجہ معیاری تعلیم پر ہوگی کہ بچوں کو وہ پڑھایا جائے جو ان کے لیے فائدہ مند ہو۔ یہ چیلنج بہت بڑا ہے مگر ہم اس پر تندہی سے کام کریں گے۔

ہمارے تعلیمی نظام کے افسوسناک اعداد و شمار یہ ہیں کہ سوا کروڑ بچوں میں سے 60فیصد بچے پرائمری میں پڑھائی چھوڑ دیتے ہیںاور صرف ایک چوتھائی بچے میٹرک تک پہنچتے ہیں۔سواکروڑ میں سے صرف 20لاکھ بچے میٹرک تک پہنچتے ہیں یعنی ڈراپ ریٹ 75 فیصد ہے جو تشویشناک ہے ۔ دیگر علاقائی ممالک سے موازنہ کریں تو بھارت کے 73 فیصد ، بنگلہ دیش کے 66 فیصد جبکہ ہمارے 25 فیصد بچے پرائمری سے میٹرک تک پہنچتے ہیں جن میں سے 50 فیصد میٹرک میں فیل ہوجاتے ہیں۔ یہ باعث تشویش ہے کہ اتنے بڑے تعلیمی نظام میں سے صرف 15 فیصد بچے میٹرک پاس کرتے ہیں جو سسٹم پر سوالیہ نشان ہے۔ اسکولوں میں معیار تعلیم بہتر نہیں ہے جس کی وجہ سے اتنا بڑا نقصان ہورہا ہے۔

ہمارے ملک میں جب کوئی بچہ میٹرک کرتا ہے تو اس کی قابلیت ایک پرائمری کے بچے جتنی ہوتی ہے، وہ پڑھ اور لکھ سکتا ہے اور بنیادی حساب کرسکتاہے جبکہ دنیا کے دیگر ممالک میں میٹرک تک بچے جدیدعلوم کی تعلیم حاصل کرچکے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ تنقید کرتے ہیں کہ ایم اے پاس نائب قاصد کی نوکری کر رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی قابلیت زیادہ نہیں ہے۔

ہم معیار تعلیم بہتر کرنا چاہ رہے ہیں جس کے تین طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ تعلیمی نصاب کی بہتری، دوسرا طریقہ ٹیچر ٹریننگ جبکہ تیسراطریقہ اساتذہ کی اہلیت کی جانچ پڑتال ہے۔ ہمارا تعلیمی نصاب اچھا ہے اور اس میں کوئی بڑی خرابی نہیں ہے لہٰذا میں نصاب میں تبدیلی کے حق میں نہیں ہوں۔ ہمارا زیادہ مسئلہ اساتذہ کرام کے ساتھ ہے۔ اگر پبلک و پرائیویٹ سیکٹر کے نظام کا موازنہ کیا جائے تو سرکاری سکولوں کے اساتذہ نجی سکولوں کے اساتذہ سے زیادہ قابل اور تعلیم یافتہ ہیں۔

ان کی تنخواہ بھی زیادہ ہے اور تجربہ بھی، لیکن جب نتائج کی بات کریں تو نجی سکولوں کا رزلٹ بہتر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نجی سکولوں میں احتسابی عمل مضبوط ہے جبکہ سرکاری سکول میں کسی ٹیچر کو نکالا نہیں جاسکتا بلکہ ایسے اساتذہ کو عدالتی حکم پر بحال کیا جارہا ہے جو گزشتہ 10 برسوں سے نوکری سے فارغ ہیں، انہیں 10 برس کی تنخواہ بھی دی گئی ہے۔ نجی شعبے میں تعلیم ایکٹیویٹی پر مبنی ہے جبکہ سرکاری سکولوں میں خبرنامے والا ماحول ہے، بچوں کو لیکچر دیا، چند سوال کروائے اور چلے گئے۔

افسوس ہے کہ سرکاری سکولوں میں ’لرننگ کلچر‘ نہیں ہے بلکہ رٹہ سسٹم کو فروغ دیا جارہا ہے، ہمارا امتحانی نظام بھی رٹے کو فروغ دیتا ہے جس کی وجہ سے بچے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی قابل نہیں ہیں۔ رٹہ کی حوصلہ شکنی اور سکولوں میں ’لرننگ کلچر‘ کو فروغ دینے کیلئے لائحہ عمل بنا رہے ہیں۔ سکولوں میں دوستانہ ماحول اور پرکشش فضا قائم کریں گے تاکہ بچے دلچسپی لیکر سکول آئیں۔

ہم اپنے امتحانی نظام کو بھی ٹھیک کرنے جارہے ہیں اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔ ہم تعلیمی نظام میں انقلابی اقدامات کرنے جارہے ہیں جس کے لیے عملدرآمد و مانیٹرنگ کا نظام بنا رہے ہیں۔ ہم ابتداء میں چند ایریاز پر توجہ دیں گے اور ان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد بتدریج دیگر نکات کی طرف جائیں گے۔ ہم اپنے تعلیمی نظام کو رٹہ سسٹم سے لرننگ کی طرف لے کر جائیں گے تو پہلے برس رزلٹ خراب ہوسکتا ہے جس پر حکومت اور والدین ردعمل کا اظہار کریں گے۔ اس کے لیے والدین، اساتذہ، طلبہ اور اعلیٰ سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینے پر کام جاری ہے، اس کے دورست نتائج برآمد ہوں گے۔اس کے علاوہ وفاقی و صوبائی امتحانی بورڈز کے درمیان روابط بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

اگر پنجاب اپنا نظام تبدیل کرتا ہے اور باقی بورڈز نہیںکرتے تو ہمارے طلبہ کو کالجوں، یونیورسٹیوں میں داخلے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا لہٰذا سب کو مل کر اقدامات کرنا ہوں گے۔ میں نصاب میں تبدیلی کے حق میں نہیں، دنیا میں کہیں بھی تعلیمی نصاب میں بار بار تبدیلیاں نہیں کی جاتی۔ ہم عالمی و مقامی ماہرین سے رائے لے رہے ہیں، وہ ہمیں تعلیمی نصاب و تعلیمی نظام کی بہتری کیلئے سفارشات اور لائحہ عمل دے رہے ہیں،اگر اچھی پالیسیاں بنا کر ان پر تندہی سے کام کیا گیا اور ان کا تسلسل برقرار رہا تو یقینا تعلیمی نظام میں بہت بہتری آئے گی۔

اساتذہ کی تربیت کیلئے ورکشاپس منعقد کی جارہی ہیں جنہیں مزید بہتر اور وسیع کیا جائے گا، ہم استاد کو معاشرے میں ’رول ماڈل‘ کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے 4 سالہ پروگرام مرتب کیا ہے جس کے تحت ٹیچرز ٹریننگ، ٹیچر کیلئے خصوصی کارڈ، بس میں اچھی سیٹ،قطار میں آگے جگہ و دیگر سہولیات دی جائیں گی اور اس کے ساتھ ساتھ اچھی کارکردگی دکھانے والے اساتذہ کو ہر سال سرسید احمد خان ایوارڈ سے نوازا جائے گا۔ تدریس کیلئے اساتذہ کو باقاعدہ لائسنس جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا بل منظوری کیلئے صوبائی کابینہ کو بھیج دیا گیا ہے، منظوری کے بعد اسے جلد اسمبلی میں پیش کیاجائے گا۔ میں نے اساتذہ کی ریکروٹمنٹ اور ٹرانسفر، پوسٹنگ کے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کر دیا ہے۔

’ای ٹرانسفرایپ‘ بنائی گئی ہے جس سے اساتذہ خالی آسامی دیکھ سکتے ہیں اور یہ ایپ خود ہی ان کے ٹرانسفر، پوسٹنگ کے کیسوں کا فیصلہ کرتی ہے، اس ایپ کے ذریعے گزشتہ 2 ماہ میں ایک لاکھ درخواستیں نمٹائی گئیں جبکہ20 ہزار اساتذہ کے آرڈر جاری ہوئے جس سے محکمے کا بوجھ کم ہوا ہے۔ ہمیں نجی سکولوں کو مدمقابل کے بجائے پارٹنر کے طور پر دیکھناچاہیے، 45 فیصد بچے نجی سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو حکومت کی بہت بڑی مدد ہے، ہم نجی سکولوں کی بہتری کے حوالے سے نیا فریم ورک بنا رہے ہیں۔

جس کے تحت سہولیات کے حوالے سے سکولوںکی مختلف کیٹیگریز بنائی جائیں گی، ان کے اساتذہ کو ٹریننگ و مفت کتابیں دی جائیں گی اور ان سکولوں کی بہتری میں مدد بھی کی جائے گی، اس سے نئے سکول بنانے کا اربوں روپے کا بجٹ بچے گا۔ حکومت نجی سکولوں میں فی سکول 15 بچوں کے اخراجات برداشت کرتی ہے، سرکاری سکول میں ماہانہ فی بچہ 1400 روپے جبکہ نجی سکول میں سرکاری خرچے پر پڑھنے والے بچے پر 700 روپے خرچ آتے ہیں لہٰذا اگر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو فروغ دیا جائے تو بہتری لائی جاسکتی ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق فیس میں اوور چارجنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے، اس حوالے سے زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے ، ایک سکول کو 6 لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا جاچکا ہے۔

رانا لیاقت علی
(مرکزی جنرل سیکرٹری ٹیچرز یونین پنجاب)

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں 5 اکتوبر کر ٹیچرز ڈے ’سلام ٹیچر‘ کے نام سے منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں جنرل (ر) پرویز مشرف دور میں ٹیچرز ڈے کا آغاز کیا گیا۔ سابق دور حکومت میں بھی اس دن کو منایا جاتا رہا اور اساتذہ کی کاکردگی کی جانچ پڑتال کے بعد پنجاب کی سطح پر بہترین کارکردگی دکھانے والے 500 اساتذہ کو ’’سٹار ٹیچر ایوارڈ اورکیشن انعام‘‘ دیا گیا۔ موجودہ حکومت نے بھی اس کو جاری رکھا ہے بلکہ یہ تعداد 500 سے بڑھا کر 920 کر دی ہے۔

جس سے یقینا اساتذہ کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ کسی بھی معاشرے میں سب سے معزز و اہم طبقہ اساتذہ کا ہے۔ استاد کی عظمت کا اندازہ نبی اکرمؐ کے فرمان ’’میں تمہارے درمیان معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘ سے لگایا جاسکتا ہے۔ اللہ کے نبیؐ نے خود کو معلم فرمایا ہے لہٰذا تدریس پیغمبری پیشہ ہے اور اساتذہ لائق عزت و تحسین ہیں۔ والدین کے ساتھ ساتھ استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا گیا ہے۔

استاد ہی وہ ہستی ہے جو شاگردوں کو زیور سے آراستہ کرتی ہے اور ان کی تربیت کرکے معاشرے میں اعلیٰ مقام تک پہنچاتی ہے۔ قوموں کا عروج و زوال اساتذہ کا مرہون منت ہے۔ دنیا میں جن ممالک نے بھی ترقی کی وہ اساتذہ ہی کی بدولت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں استاد کی قدرو منزلت کو انتہائی درجے تک ناپید کردیا گیا ہے۔ آج اساتذہ کو اپنے جائز حقوق کیلئے نہ چاہتے ہوئے بھی سڑکوں پر آنا پڑتا ہے۔

ہمارے ارباب اختیار اپنی ناکامیاں چھپانے کیلئے اساتذہ کو مورد الزام ٹہراتے ہیں۔ اس پرُ آشوب مہنگائی کے دور میں بھاری جرمانے اور سالانہ ترقیوں کی بندش جیسی سزائیں دے کر اساتذہ کا معاشی قتل و استحصال کیا جا رہا ہے۔اب ای ٹرانسفر ایپ کے ذریعے کچھ بہتری آئی ہے اور اساتذہ کو رشوت مافیا سے نجات مل رہی ہے۔

وزیر تعلیم نے کہا تھا کہ اساتذہ ایک ساتھ 6 چھٹیاں لے سکتے ہیں مگر ابھی تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا بلکہ انہیں ایک یوم کی رخصت کیلئے بھی مشکل ہوتی ہے۔ اساتذہ کے سکیل ان کی تعلیمی قابلیت سے کمتر ہیں۔ صحت و رہائشی سہولیات ایک خواب ہے۔ دنیا میں اساتذہ کی تنخواہ سب سے زیادہ ہے کیونکہ وہ قوم کے معمار ہیں۔ ہمارے ہاں دیگر محکموں کا کام بھی اساتذہ سے کروایا جاتا ہے، پولیو کے قطرے، الیکشن ڈیوٹی، مردم شماری و دیگر کام اساتذہ کے ذمے لگا دیے جاتے ہیں جن سے ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ اساتذہ پر اضافی بوجھ ختم کرنے سے ان کی کارکردگی میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ تدریسی امور کے علاوہ کوالٹی ایجوکیشن کے نام پر نت نئی اصلاحات کا نفاذ اساتذہ کیلئے درد سر بن چکا ہے۔

اس گھٹن اور مہنگائی کے دور میں پاکستان میں ٹیچرز ڈے کو سلام ٹیچر کے طور پر منانا امید کی کرن ہے کہ کم از کم اساتذہ کو سال بھر محنت و دیانتداری اور اچھے نتائج دینے پر ان کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ ہسپتالوں میں اساتذہ کیلئے کوئی سپیشل ڈیسک نہیں اور نہ ہی ان کی رہائش کیلئے کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی ہے حالانکہ دیگر محکموں کی اپنی اپنی کالونیاں ہیں جن میں ان کے ملازمین کو رہائش ملتی ہے۔ خاتون ٹیچر کو بھی مسائل کا سامنا ہے، سکولوں میں ڈے کیئر سینٹرز نہیں ہیں جس کی وجہ سے اُن کے بچے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ موجودہ صوبائی وزیر تعلیم اور سیکرٹری تعلیم پنجاب نے گزشتہ 6ماہ میں جس قدر اساتذہ کو دفتری امور کی گنجھلوں سے آزاد کروانے کا سلسلہ شروع کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔

اسی ٹرانسفر پوسٹنگ میں رشوت ستانی کے کلچر کا خاتمہ بلاشبہ عظیم کارنامہ ہے جس سے اساتذہ کے وقار اور ان کے اعتماد میں اضافہ ہو۔ اگر اساتذہ کے سروس امور کو مکمل ڈیجیٹلائز کردیا جائے تو اساتذہ کو بیشمار مصائب سے چھٹکارہ  مل جائے گا۔ اساتذہ کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ان کے مسائل حل کیے جائیں۔ انہیں کم از کم گریڈ 17 دیا جائے، غیر ضروری اسائنمنٹس سے نجات دی جائے، معمولی باتوں پر جرمانے و سالانہ ترقی میں بندش ختم کی جائے، افسران کی جانب سے تضحیک آمیز رویے کی حوصلہ شکنی کی جائے، اساتذہ کو صحت و رہائشی سہولیات فراہم کی جائیں اور ان کے نقائص تلاش کرنے کے بجائے۔

ان کی مدد کی جائے اور جہاں ضروری ہے وہاں ٹریننگ کے ذریعے ان کی اصلاح کی جائے۔ زمینی حقائق کے برعکس تعلیمی روڈ میپ ، نئے بلدیاتی آرڈیننس 2019ء پر خدشات ، پے پروٹیکشن و ریگولرائزیشن جیسے مسائل پر وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر تعلیم پنجاب اور سیکرٹری سکولز پنجاب کو فی الفور توجہ دینی چاہیے ۔

یہ بات قابل فکر ہے کہ وہ بلدیاتی نمائندے جو گلی کم تعلیم یافتہ ہیں اور گلی محلے کا کام ٹھیک سے نہیں کرواسکتے وہ سکولوں کو کیسے بہتر کریں گے۔ حکومت کو مشورہ ہے کہ نت نئے تجربات سے تعلیمی نظام کو مزید خراب نہ کیا جائے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اساتذہ کے مسائل حل کیے جائیں تاکہ وہ معاشی تفکرات سے آزاد، ذہنی سکون اور عزت و وقار کے ساتھ اپنے فرائض منصبی سرانجام دے کر ملکی ترقی اور عالمی سطح پر وطن عزیز کا نام اجاگر کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرسکیں۔

کاشف شہزاد چودھری
(سیکرٹری جنرل متحدہ محاذ اساتذہ پنجاب )

ہمارے ہاں ٹیچر کی عزت کا رواج ختم ہوچکا ہے جبکہ ماضی میں استاد، شاگرد کے درمیان احترام کا رشتہ تھا۔ ہم آج بھی اپنے اساتذہ سے عزت و احترام سے ملتے ہیں اور ان کی قدر کرتے ہیںمگر افسوس ہے کہ معاشرے میں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے جو اساتذہ کے خلاف ہے۔ سرکاری و نجی سکولوں اور مدارس میں 10 سے 12 لاکھ اساتذہ بچوں کو تعلیم دیتے ہیں۔

ان میں سے اگر کسی ٹیچر کی طرف سے چند ماہ بعد تشدد کا کوئی واقعہ سامنے آتا ہے تو اس پر واویلا مچایا جاتا ہے اور ایسا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ تمام اساتذہ ہی غلط ہیں۔ افسوس ہے کہ ایسی برین واشنگ کی جارہی ہے کہ اساتذہ، بچوں کے دشمن ہیں۔ میانوالی میں ایک طالب علم نے ٹیچر کو گولی مار دی مگر اس کو دبا دیا گیا جو قابل مذمت ہے۔

اگر خدانخواستہ ایسا کسی ٹیچر نے کیا ہوتا تو دنیا بھر میں اساتذہ کی بدنامی کی جاتی۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اساتذہ کی عزت کیے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، جس معاشرے میں استاد کی عزت ختم ہوجائے وہ معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوجاتا ہے۔ والدین بچے کی شکایت پر ٹیچر سے لڑنے کیلئے سکول آجاتے ہیں اور طلبہ کے سامنے ہی استاد کی بے عزتی کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ایسے میں بچے کیا سیکھیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ آج بچے بے راہ روی کا شکار ہیں۔ ہماری کامیابی میں ہمارے والدین اور اساتذہ کا کردار انتہائی اہم ہے۔

اساتذہ  ہماری تعلیم و تربیت کرتے تھے اور غلطی کرنے پر سرزنش بھی مگر ہمارے والدین نے کبھی اساتذہ کی بے عزتی نہیں کی بلکہ ہمیں بھی ان کی عزت کرنے کا درس دیا۔ ایک اور چیز واضح ہونی چاہیے کہ تشدد کسی بھی استاد کو پسند نہیں، ہلکی پھلکی ڈانٹ ڈپٹ کو تشدد کا نام نہ دیا جائے۔ہمارے سسٹم میں اساتذہ کو بے شمار معاشی و سماجی مسائل کا سامنا ہے۔

دنیا بھر میں اساتذہ کی تنخواہ دیگر شعبوں سے زیادہ ہے، انہیں وہاں عزت و احترام بھی ملتا ہے اور مراعات بھی مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اساتذہ کی تنخواہ انتہائی کم ہے اور انہیں کوئی مراعات بھی حاصل نہیں ہیں۔ ہم نے اس سال ’یوم اساتذہ‘ کو ’یوم سیاہ‘ کے طور پر منایا، اساتذہ نے سکولوںمیں سیاہ پٹیاں بھی باندھی اور اس حوالے سے جنوبی پنجاب میں ایک بڑی تقریب بھی منعقد کی گئی۔

اب سکولوں کو بلدیات کے حوالے کیا جا رہا ہے جس سے نظام تعلیم مزید خراب ہوگا، ہم اس کی شدید مزمت کرتے ہیں۔ نظام تعلیم میں خرابی کی ایک بڑی وجہ تعلیمی نصاب اور نت نئے تجربات ہیں۔ عالمی ڈونرز کے کہنے پر یہاں تبدیلیاں کر دی جاتی ہیں اور وہ بار بار تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں کرواتے رہے ہیں جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ 2006ء میں قومی نصاب کے نام پر تعلیمی نصاب ترتیب دیا گیا جسے 2009ء میں تبدیل کیا گیا اور پھر 2018ء میں مزید تبدیلیاں لائی گئیں۔

افسوس ہے کہ تعلیمی نصاب ترتیب دینے والوں میں سے 90 فیصد کا تعلق سکولوں سے نہیں، یہی وجہ ہے کہ نہ تو نصاب موثر ہوتا ہے اور نہ ہی اچھے نتائج آتے ہیں اور پھر ا س میں تبدیلیاں لانا پڑتی ہیں۔ تعلیمی نصاب کو بہتر اور موثر بنانے کیلئے متعلقہ افراد کو شامل کیا جائے ، ان سے مشاورت کی جائے اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔