کیا حکومت ساکھ کھو رہی ہے؟

نصرت جاوید  بدھ 9 اکتوبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

1984سے بھارت اور پاکستان میں ہونے والے بہت سارے عام انتخابات کا بطور رپورٹر عملی مشاہدہ کرنے کے بعد میں یہ بات کافی اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے ہاں 11مئی 2013کو ہونے والے چنائو کے دوران ریاستی اداروں یا سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوئی منظم دھاندلی نہیں ہوئی تھی۔ چند شہروں اور حلقوں میں طاقتور گروہوں یا امیدواروں نے دھونس کا بے دریغ استعمال کیا۔ ہمارا الیکشن کمیشن ان کا مقابلہ نہ کرپایا۔ الیکشن کمیشن کی یہ بے بسی دیکھنے کے بعد میں یہ بات کہنے پر مجبور ہوں کہ اگر ہم اس ملک میں انتخابات کو واقعتاً صاف وشفاف بنانا چاہتے ہیں تو الیکشن کمیشن کو ریٹائرڈ ججوں سے بھرنے کے بجائے اس ادارے میں ان لوگوں کو فیصلہ سازی کے اختیارات دیں جنھیں انتظامی امور اور پولیس جیسے اداروں میں کام کرنے کا بھرپور تجربہ ہو۔

ان کی ساکھ کے ضمن میں صرف دیانت داری پر ہی توجہ نہ دی جائے۔ بہت ضروری یہ بھی ہے کہ ان کی شہرت اس وجہ سے ہوکہ انھیں اپنے اختیارات استعمال کرنا آتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی ساخت میں انقلابی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ہمیں اس تجویز کو بھی سنجیدگی سے لینا ہوگا کہ سارے ملک میں ایک ہی دن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام حلقوں کے لیے ووٹنگ نہ کروائی جائے۔ پولنگ مرحلہ وار ہو تاکہ الیکشن کمیشن اور اس کے تحت کام کرنے والی مشینری اپنے تمام وسائل کو نسبتاً کم حلقوں پر مرکوز کرسکے۔ بھارت میں یہ سب کچھ تقریباً 30سال سے ہورہا ہے اور وہاں کا کوئی سیاستدان یا میڈیا والا انتخابی عمل پر اُنگلیاں اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ ہمارے لیے اس طرح کا طریقہ کار اپنانا ہرگز مشکل نہیں ہے۔

میں یہ کالم مگر انتخابی نظام کو موثر اور قابل اعتبار بنانے کے لیے ایک مضمون کی صورت نہیں لکھ رہا۔ فی الوقت میرا اصل مقصد نوازشریف اور ان کی جماعت کے لوگوں کو سمجھانا ہے کہ پنجاب ان کے قبضے سے آہستہ آہستہ آزاد ہو رہا ہے۔ صورت حال وہی رہی جو آج کل نظر آرہی ہے تو آیندہ انتخابات کے دوران شاید مسلم لیگ نون بھی اتنی ہی غیر موثر بن کر ہمارے سامنے آسکتی ہے جیسے 11مئی 2013کے دن پیپلز پارٹی نظر آئی تھی۔

پیر کے دن فیصل آباد کے ایک صوبائی اسمبلی کے حلقے سے مسلم لیگ نون کے امیدوار کی شکست کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ ضمنی انتخابات میں ووٹروں کی اکثریت حکمران پارٹی کا ساتھ دینا چاہتی ہے۔ اپوزیشن کے امیدواروں سے محض اس بناء پر دور رہتی ہے کہ انھیں ووٹ دینا ان کے حلقے کو ’’ترقیاتی کاموں‘‘ سے محروم کرسکتا ہے۔ حکمران جماعت کے خلاف سخت غصہ یا بددلی ہی انھیں اپوزیشن کے امیدواروں کے ساتھ کھڑا کردینے پر مجبور کرتی ہے۔

نواز شریف صاحب 11مئی 2013کو اکثریت حاصل کرنے کے بعد اس ملک کے تیسری بار وزیر اعظم بن پائے تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہمارے ووٹروں کی اکثریت پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں کسی نووارد کے بجائے ایک ایسے سیاستدان سے Emotional Securityچاہتی تھی جسے ریاستی اور حکومتی مسائل سے نبردآزما ہونے کا تجربہ ہو۔ دوسری وجہ یہ گمان تھا کہ نواز شریف اور ان کے بھائی کاروباری ہونے کی وجہ سے معاشی محاذوں پر کوئی نہ کوئی جلوہ دکھاتے رہتے ہیں۔ موٹروے اور لاہور کی بس سروس نے ووٹروں کو بہت متاثر کیا۔ مگر نواز شریف صاحب نے وزیر اعظم بن جانے کے فوری بعد ہرگز وہ تیزی اور جلوے نہیں دکھائے جن کی لوگ ان سے امیدیں باندھ بیٹھے تھے۔ مسلسل اور طویل ترین اجلاسوں کے بعد انھوں نے بیک وقت500ارب روپے دے کر سرکلر ڈیٹ کا مسئلہ یقینا حل کردیا۔ مگر یہ بھاری ادائیگی لوڈشیڈنگ کو صرف کچھ حد تک کم کرسکی۔ بارشیں ہوئیں تو دریائوں میں بہت سارا پانی آگیا جس نے بجلی کی پیداوار بڑھادی۔ موسم خوش گوار ہوا تو پنکھوں اور اے سی وغیرہ کے لیے طلب بھی کم ہوگئی۔ اکتوبر کے مہینے میں لوڈشیڈنگ کے حوالے سے اب ہم تقریباً ’’آنے والی تھاں‘‘ پر واپس آگئے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی جو بل ہم اس مہینے کے آخر سے وصول کرنا شروع کریں گے ان کی ادائیگی ہمیں بے بسی کی حد تک پریشان کردے گی۔

اب یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ بجلی پیدا کرنے والوں کے گردشی قرضے نوٹ چھاپ کر ادا کیے گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے روپے کی قدر میں بڑی کمی آئی ہے اور ڈالر کے مقابلے میں گرتی اس کی قدر کی وجہ سے ہم پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر مجبور ہوئے ہیں۔ روپے کی گرتی قدر، بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں ناقابلِ برداشت اضافوں نے نچلے اور متوسط طبقات کو بوکھلادیا ہے۔ یہ بوکھلاہٹ اب غصے اور مایوسی کی صورت اختیار کررہی ہے اور فیصل آباد کے ضمنی انتخاب کا نتیجہ اس کا واضح اظہار ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کو اس انتخابی نتیجے کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا۔ نواز شریف صاحب مگر ان دنوں کچھ اس طرح کا تاثر دینا شروع ہوگئے ہیں جیسے وہ خود وزیر اعظم بن جانے کے بعد اپنے سامنے کھڑے مسائل کے انبارسے گھبرا گئے ہیں۔ لیڈروں کے چہروں پر خوف کی لکیریں گہری ہونا شروع ہوجائیں تو ’’رعایا‘‘ جی ہار بیٹھتی ہے۔ ’’حاکم‘‘ کا فرض بنتا ہے کہ وہ مایوسی کے ان لمحات میں لوگوں کو حوصلہ دے۔

ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے۔ صرف ٹی وی پر کبھی کبھار تقریریں نہ کرے۔ شہروں اور قصبوں میں جاکر ان سے براہِ راست رابطے کرے۔ یہ بات درست ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی کے خوف سے حکمران بڑے جلسے کرنے سے گھبراتے ہیں۔ مگر Town Hall Meetingsنام کی ایک چیز بھی سیاسی عمل کا حصہ ہے۔ نواز شریف صاحب کو یہ نسخہ ضرور آزمانا چاہیے۔ ملک کے جو مسائل اب ان کے سامنے آئے ہیں انھیں شہر شہر جاکر لوگوں کے سامنے بیان کردینے سے لوگ ان سے ناراض ہونے کے بجائے ہمدردی کا اظہار کرنا شروع کردیں گے۔ اگر وہ ان مسائل کی حقیقت بیان کرنے کے بعد ان سے نبردآزما ہونے کے کچھ طریقے بھی بتائیں گے تو لوگ مشکل کی اس گھڑی میں کچھ صبر کرنے پر آمادہ ہوجائیں گے۔

لوگوں سے کنارہ کشی کے تاثر کے ساتھ ہی ساتھ نواز شریف صاحب اپنے اس دور میں تیزی سے فیصلے کرتے ہوئے بھی نظر نہیں آرہے۔ یوں محسوس ہورہا ہے جیسے ان کے ذہن میں کوئی واضح حکمت عملی موجود نہیں ہے اور نہ ہی اپنی منزل کی طرف بڑھنے کے لیے مرحلہ وار اقدامات اٹھانے کی لگن۔ جنرل کیانی کے حوالے سے جو کچھ ہم سب کے سامنے آیا وہ ایک کمزور اور اُلجھے ذہن کی نشان دہی کرتا ہے۔ نواز شریف کی شہرت ایک اچھے Managerکی ہوا کرتی تھی۔ اپنی تیسری بار کے ابتدائی مہینوں میں وہ یہ ساکھ بتدریج کھورہے ہیں اور ان کے گرد جمع خوشامدیوں میں سے شاید کوئی بھی انھیں یہ بتانے کی جرأت نہیں کررہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔