لنچستان یا سیکولر انڈیا

محمد فیصل سلہریا  منگل 15 اکتوبر 2019
سیکولر انڈیا اب ’لنچستان‘ بنا ہوا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سیکولر انڈیا اب ’لنچستان‘ بنا ہوا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اب آپ کو ایک ٹھہراؤ کی سی کیفیت محسوس ہورہی ہوگی، اپنے ہاں بھی، مشرق کی جانب سرحد پار بھی۔ ہمارے ہاں قومی سلامتی کو معیشت کے ساتھ توازن پیدا کرنے کا چیلنج آن پڑا ہے اور بھارت کی قومی سلامتی کو شخصی آزادی کے ساتھ توازن قائم کرنے کی چنوتی درپیش ہے۔ ہمیں یہ چیلنج سپہ سالار کی جانب سے ملا ہے، جبکہ بھارتی حکومت کو مذکورہ چنوتی سپریم کورٹ کی جانب سے ملی ہے۔ ہمارے ہاں بحران کے خاتمے کےلیے فوج کی طرف اور بھارت میں عدلیہ کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ اپنے اپنے ہاں یہ دونوں ادارے وحدت کی علامت ہیں۔

پاکستان میں فوج نظریاتی اساس کی محافظ ہے تو بھارت میں عدلیہ شخصی اساس کی۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل 21 شہری (citizen) کے بجائے شخص (person) کو بنیادی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ بھارتی آئین کی اسی شق کے تحت سندھ سے ہجرت کرکے بھارت جانے والے ہندو خاندانوں کو انسانی ہمدردی کے تحت مودی سرکار نے اپنے سابقہ دور میں بھارتی شہریت دی تھی۔ جموں میں پناہ گزین میانمار کے روہنگیا مسلمانوں نے جب اس شق کا سہارا لے کر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس وقت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے اس اعتراض کے ساتھ شہریت دینے سے انکار کردیا کہ ان روہنگیاز میں آئی ایس آئی کے جاسوس ہوسکتے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے باسی جو کبھی بھارتی شہری تھے، اب عدالت عظمیٰ کی چوکھٹ پر یہ پوچھنے بیٹھے ہیں کہ آیا وہ انسان بھی ہیں یا نہیں؟ یہاں بھی جواب آیا کہ سرحد پار مواصلاتی اور زمینی دراندازی کے پیش نظر سخت کرفیو لگایا گیا ہے۔ عدالت نے حکومت کو یہ باور کراتے ہوئے کہ قومی سلامتی اور شخصی آزادی میں توازن ضروری ہے، ایک ماہ کی مہلت دے دی۔

ہمارے وزیر خارجہ نے بھی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں خطاب کرتے ہوئے ہم سے طویل دورانیے کی مہلت لے لی کہ ہمارا کشمیر بیانیہ تو درست ہے مگر ہماری جیب خالی ہے۔ گویا اقوام متحدہ کے بینر تلے سجا دنیا کا میلہ انہوں نے ابن انشاء کے الہڑ لڑکے کی طرح خالی جیب ہی گھوما:

ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
جی مچلتا تھا ایک اک شے پر مگر
جیب خالی تھی، کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا لیے حسرتیں سیکڑوں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں

اس الہڑ سے لڑکے نے اپنے ارمان کسی ساہوکار کے پاس گروی نہیں رکھے، بس اپنے وقت کا انتظار کیا:

خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آج میلہ لگا ہے اسی شان سے
آج چاہوں تو ایک اک دکاں مول لوں
آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں
نارسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں
پر وہ چھوٹا سا، الہڑ سا لڑکا کہاں؟

کاش یہ الہڑ لڑکا آئی ایم ایف کے پاس نہ جاتا، ایف اے ٹی ایف بھی اس کی گھات نہ لگائے رہتا، خالی جیب والے اس الہڑ لڑکے کی بے نیازی سے سب ڈرتے۔ کاش عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جیسی ایک تقریر خالی پیٹ اور خالی جیب کو ہتھیار بنا کر لڑنے کےلیے بھی ہوتی۔ اگر لڑنا ہے تو خالی جیب سے بڑا ہتھیار کیا ہوگا۔ لڑائی کا محرک آزادی کا حصول یا اس کا تحفظ ہوتا ہے، جیبیں اور پیٹ بھرنے والا آزادی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ بے نیازی کی دولت ہو تو ساری دنیا باندی ہوتی ہے۔ نیازمند سراسر غلام۔ جسمانی بھی ذہنی بھی۔ اب پتا نہیں ہم مزاجاً نیازمند ہیں یا قرضے کی لت نے ایسا بنا دیا؟ نیازمندی ذہنی اختراع کی قاتل ہے۔ وقت کے بدلتے تقاضوں کا ساتھ دینے سے قاصر ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے خطاب سے لگا جیسے یہ نیازمندی پھریری لینے لگی ہے، سانسیں رک گئیں، صرف دل کی دھڑکن تھی جو اس وقت کان آنکھ زبان بنی ہوئی۔ پھر جیسے نیازمندی کی اپنی سانس پھول گئی اور اس نے سچائی کے سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی باگیں اقوام متحدہ ہی کو تھما دیں۔ خطاب کا اختتام تھا ’اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل کرائے‘۔

70 برس بیت گئے، ہماری نیازمندی اقوام متحدہ کی عمارت کے سحر سے نہ نکلی۔ اب تو ہمیں بھی یہ گمان ہونے لگا ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ جاکر غلطی کی۔ وہ تو چکمہ دینے ہمیں وہاں لے گئے، ہم وہیں کے ہورہے۔ تب انڈیا سیکولر تھا اب ’لنچستان‘ بنا ہوا ہے۔ تب نیشنل کانفرنس کشمیری مسلمانوں کو اسی سیکولرازم کی بنیاد پر دلی سے جوڑتی تھی، اب لنچستان کے سرپرستوں نے یہ بنیاد بھی ختم کردی۔ تب کشمیریوں کا قائد شیخ عبداللہ تھا، اب برہان وانی شہید ہے۔ تب ریاست جموں و کشمیر میں سیاسی تقسیم تھی، اب یہ تقسیم ختم ہوچکی ہے۔ تب ریاست کا دلی سے الحاق مشروط اور دو طرفہ تھا، اب اسے غیر مشروط اور یک طرفہ ختم کردیا گیا۔ تب ہم نے بھارت کو اقوام متحدہ جانے پر مجبور کیا تھا، اب اقوام متحدہ ہماری مجبوری بنی ہوئی ہے۔ تب گاندھی جی کا قاتل نتھو رام گوڈسے ہندوستان کا پہلا دہشتگرد تھا، اب اسے ہیرو ماننے والے بھارتی پارلیمان کا حصہ ہیں۔

تب اور اب کے اس فرق کو ہم کب سمجھیں گے؟ جب کشمیری محض تصویروں میں باقی رہ جائیں گے؟ تب اور اب کے اس فرق کو ہم کب اپنے حق میں استعمال کرنا سیکھیں گے؟ جب اقوام متحدہ ہمیں آکر سکھائے گی؟

2017 کے جنرل اسمبلی اجلاس میں ہمیں ’ٹیررستان‘ کہا گیا۔ ہم راہول گاندھی کی طرح درسی وضاحتیں کرتے رہے۔ ان وضاحتوں کا نتیجہ کیا ہوتا ہے، یہ دیکھنے کےلیے انڈین نیشنل کانگریس کا حشر ملاحظہ کرلیجیے جو ہندوتوا کے سیلاب میں غوطے کھا رہی ہے۔ اب دیکھیے بھارتی سپریم کورٹ جموں و کشمیر کو اس سیلاب بلاخیز سے کیسے بچاتی ہے، یا ہمیں جواب آں غزل کے طور پر جوابی نشتر چلانے کا موقع دیتی ہے کہ ہم کس سے بات کریں، لنچستان سے یا سیکولر انڈیا سے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد فیصل سلہریا

محمد فیصل سلہریا

بلاگر روزنامہ ایکسپریس لاہور سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق لاہور اور ادبی کمیٹی لاہور پریس کلب کے رکن بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔