الیکٹیڈ ’’ولد‘‘ سلیکٹیڈ

سعد اللہ جان برق  منگل 15 اکتوبر 2019
barq@email.com

[email protected]

ان دنوں سیاست اور صحافت میں ’’الیکٹیڈ اور ’’سلیکٹیڈ‘‘کی دو اصطلاحات بیسٹ سیلرجاری ہیں۔

سیاست میں اسے کرسی یا اقتدار کا’’انتظار‘‘بھی کہہ سکتے۔ جس میں کبھی روٹی کپڑا مکان کبھی اعتدال پسندی کبھی اسلام ،کبھی جمہوریت اور کبھی تبدیلی اور انصاف کے انتظاریہ نغمے یا قوالیاں گائی جاتی ہیں اور اکثر کچھ خاص اصطلاحات بھی آن ایئر آن لائن یا لانچ کیے جاتے ہیں۔

کبھی بیانیہ کبھی ڈاکٹرائن وغیرہ ۔چنانچہ آج کل الیکٹیڈ اور سلیکٹیڈ کے الفاظ کے بغیر کوئی بھی پکوان مکمل نہیں ہوتا۔ چنانچہ گزشتہ دنوں ایک دانا دانشور کے دانش کدے اور دانا خانے یعنی کالم میں پڑھا۔کہ جوکام الیکٹیڈ نہیں کرپائے وہ سلیکٹیڈ نے کردکھایا۔ اس ’’کام‘‘کی تفصیل میں تو ہم نہیں جائیں گے جو سلیکٹیڈ نے کردکھایا کیونکہ یہ ہمارے لیول سے بہت زیادہ اونچا معاملہ ہے۔

ویسے بھی اس ملک کے ’’باسی‘‘ ’’اپنی ‘‘باسی کڑھی میں ابال کے عادی اور ماہر ہیں اور ہم تو ایسے باسی ہیں جن کے پاس باسی کڑھی ہی نہیں تو ’’ابال‘‘کس میں آئے۔البتہ اس مسمی الیکٹیڈ اور سلیکٹیڈ کے بارے میں کچھ کہہ سکتے ہیں کیونکہ عرصہ اکہترسال سے ہم ان دو چکی کے پاٹوں کے درمیان ہیں جو لگتے تو دو ہیں لیکن اصل میں ایک ہی ہے۔ یوں کہیے کہ یہ ایک ایسی تصویر کے دو رخ ہیں جس کا ایک رخ تو برائے نام ہے لیکن دوسرا برسرعام زیرحکام اور برسرانتظام واہتمام ہے۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان میں جو الیکٹیڈ ہے، وہ بھی اصل میں سلیکٹیڈ ہے اور سلیکٹیڈ تو ہے ہی سلیکٹیڈ یعنی یونہی اسے انناس سمجھ رہے ہیں اصل میں عورت ہی ہے

ضمیرشعلہ حسن یک نفس ہے

ہوس کی پاس ناموس وفا کیا

وہ جو کبھی کبھی یہاں کے’’باسیوں‘‘کی باسی کڑھی میں ’’الیکشن‘‘نام کا اُبال آتاہے اس کیعین  نیچے بھی سلیکشن ہی کی آگ ہوتی ہے۔سلیکشن نہیں تو اور کیاہے کہ جب تک’’کروڑوں‘‘روپے جیب میں نہ ہوں وہ الیکشن کا تصور بھی نہیں کرسکتا، صرف خاص خاص ’’سلیکٹیڈ‘‘خاندانوں کے جدی پشتی سلیکٹیڈ لوگ ہی اس بھاری پتھر کو ہاتھ لگاسکتے ہیں اور اس کا حساب بھی صاف ہے یعنی پندرہ فیصد وہ لوگ ہی اس’’رادھا‘‘ کو اپنے آنگن میں نچاسکتے ہیں۔

جن کے ہاں یا تو خاندانی تیل کے کولہو ہوں یاکسی اور طریقے سے ’’نومن تیل‘‘جمع کیاہو اور وہ تیل بھی فالتو ہو۔کوئی اور کام بھی نہ ہو۔تو ’’رادھا‘‘ہی کو نچانے کا شغل کرلیتے ہیں، ان کے پلے سے جاتا بھی کیاہے کہ اس ملک میں کالانعاموں کی کمی نہیں جو انڈے بھی دیتے ہیں دودھ بھی اور  ’’اون‘‘۔بلکہ کھالیں بھی جن سے’’سکے‘‘بنائے جاسکتے ہیں۔آئی تو دوہ لیں گے گائے پرائی۔نہیں آئی تو کوئی دوسرا ان جیسا باری لے جائے گا۔

کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ اس باسی کڑھی میں یہ جو الیکشن کے نام سے اُبال آتاہے اسے آخر کس اینگل سے جمہوریت یا الیکشن کہا جاسکتا ہے۔ جب نوے فیصد کالانعاموں کے لیے شجرممنوعہ ہوتے ہیں، اتنے اونچے نرخ کی جمہوریت اور الیکشن۔ بلکہ ایک طرح نوے فیصد تو پہلے ہی مستقل ’’ان کوالی فائیڈ‘‘ہوتے ہیں صرف دس فیصد سلیکٹیڈ آپس میں الیکشن الیکشن یا سلیکشن سلیکشن کھیل لیتے ہیں، ایسے میں الیکٹیڈ اور سلیکٹیڈ کا سوال ہی درمیان سے اٹھ جاتاہے کہ سلیکٹیڈ ہی سلیکٹ ہوجاتے ہیں۔

وا کردیے ہیں عشق نے بندنقاب حسن

غیرازنگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا

پرانے زمانے میں صرف’’نوراکشتی‘‘ہی ایک ایسی چیز ہوتی تھی لیکن اب ہر ہر قدم پر نوراکشتی کا دور دورہ ہے، صرف ایک مخصوص پندرہ فیصد اشرافیہ ہے جو پچاس فیصد ’’دودھ‘‘کی بالائی کہیے یا تلوں کا تیل یا ملکہ اور نکھٹو،کچھ بھی نام رکھ لیجیے ہرنام کا مطلب ’’سلیکٹیڈ‘‘ہی نکلے گا۔عالم میں ’’انتخاب نہ سہی‘‘عوام میں انتخاب تو ہوتے ہیں اور یہ نہ تو آج کے ’’سلیکٹیڈ‘‘ ہیں نہ کبھی عوام نے سلیکٹ کیے تھے بلکہ صدیوں بلکہ ہزاروں سال سے سلیکٹ چلے آرہے ہیں۔

الیکشن نامی چیز تو اس کا ایک پردہ ہے لیکن پردے کے پیچھے جو پردہ نشین ہے، اسے آج تک کسی بھی’’اکبر‘‘نے بے پردہ نہیں کیاہے کیونکہ ان پر جو پردہ پڑاہے، وہ بھی ان پر نہیں بلکہ عوام کی عقل پر پڑا ہواہے۔ یہ بات ہم نے اس سے پہلے بھی کئی مواقعے پرکہی ہے لیکن یہ ایسی بات ہے کہ بار بار دہرانے پر بھی اس’’زنگ‘‘کونہیں اتار پائے گی جو صدیوں اور ہزاریوں سے عوام کے دماغوں پر’’عدم استعمال‘‘کی وجہ سے پڑاہواہے۔

سیدھا سادا اصول ہے کہ جوچیز استعمال کی جاتی ہے وہ مزید تیز طاقتور اور بہترہوتی جاتی ہے اور دماغ بھی ایک ’’عضو‘‘ہی ہے جس کا استعمال اشرافیہ نے عوام کے لیے’’ممنوع‘‘کیاہوا ہیء جس طرح اپنے لیے ہاتھ پیروں کو ممنوع کیاہواہے خود دماغ کو نئے نئے پینترے بازیوں نو سربازیوں، نعروں، فلسفوں اور لفاظیوں سے تیز سے تیز ترکرتی جاری ہے اور عوام کو صرف جسم کے استعمال اور کمانے پرلگایا ہوا ہے۔

بچاری کارکن’’مکھیاں‘‘جو آندھی طوفانوں بارشوں آفتوں اور طرح طرح کے حادثات سے گزرتی ہوئی مرتی ہوئی ’’رس‘‘لاتی ہیں۔شہدتیارکرتی ہیں اور ملکہ کے انڈے دینے کے لیے گھر بناتی ہیں ملکہ اور اس کے آٹھ دس ’’نکھٹووں‘‘ کے لیے ’’رائل جیلی‘‘بناتی ہیں۔اور اس مسلسل کام میں نہ ’’نر‘‘بن پاتی ہیں اور نہ مادہ۔صرف کارکن مکھیاں۔اب اگر ’’شہد کے چھتے‘‘میں الیکشن ہوبھی تو وہ سلیکشن ہی کہلائے گا کیونکہ ’’کارکن مکھیاں‘‘تو الیکشن میں کھڑی ہی نہیں ہوسکتیں تو الیکٹ کیسے ہوں گی۔

یاں کے سپیدوسیہ ہم کودخل جوہے سواتناہے

رات کو رو رو صبح کیا دن کو جوں توں شام کیا

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

جو چاہے سو آپ کرے ہے ہم کو عبث بدنام کیا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔