400 کرپٹ

ظہیر اختر بیدری  منگل 15 اکتوبر 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

عمران خان کے حوالے سے یہ بات بہت مشہور ہے کہ وہ ’’ہر‘‘ زمانے میں بڑے دبنگ لیڈر رہے ہیں لیکن ہماری خوش فہمیوں کے باوجود ایسا دیکھنے میں نہیں آرہا کیونکہ کرکٹ کی سربراہی اور ملک و قوم کی سربراہی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کرکٹ 22-24 افراد پر مشتمل ہوتی ہے اور ہماری قوم 22 کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔

24-22 افراد پر کنٹرول جتنا آسان ہے 24-22 کروڑ افراد پر کنٹرول کس قدر مشکل ثابت ہوسکتا ہے، اس پر سہاگہ یہ کہ سیاست کاروں کے آگے صرف ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ ہے اقتدار، کیسے ہر قیمت پر حاصل کیا جائے؟ اقتدار جمہوری ملکوں میں خواہ وہ نام کے ہی جمہوری کیوں نہ ہوں ایک مکمل پروسیس کے ساتھ ملتا ہے، یہ نہیں کہ باتھ روم میں بیٹھ کر سوچیے اور باہر آکر چند اور اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں کو جمع کرلیجیے اور پھاؤڑا کدال لے کر حکومت گرانے نکل گئے۔

بدقسمتی یہ نہیں ہے کہ چند اہل غرض حکومت گرانے کی باتیں اس تواتر سے کر رہے ہیں کہ ان کی باتوں  پر تو عوام ذرا برابر یقین نہیں کرتے، البتہ یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ پانچ پانچ سال مجموعی طور پر دس سال حکومت کرنا ایک پارٹی دو جماعتوں کا وہ کارنامہ ہے جس پر ایسی سو جمہوریتیں قربان ہیں، ہمارے اپوزیشن رہنما فرما رہے ہیں کہ عمران حکومت آئی ہوئی ہے، عوام کی لائی ہوئی نہیں ہے۔

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ان اشرافیائی سیاستدانوں نے حکومت عوام سے نہیں سازشوں سے حاصل کی ہے اور سازشوں کے ہی ذریعے اس کی تشکیل چاہتے ہیں۔ ہمارے آج کے کالم کا موضوع عمران خان ہیں لیکن ہم اس سے پہلے ذرا اپوزیشن کے بارے میں بھی بات کرنا چاہتے ہیں ۔

اس حوالے سے سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 10 سال میں حکومت نے کیا کیا؟ عوام پچاسوں مسائل میں جکڑے ہوئے ہیں، پچھلے حکمرانوں نے عالمی مالیاتی اداروں سے 24 ہزار ارب قرضہ لے کر عوام کو مشکل سے دو وقت کی روٹی دی، یہ حکومت کا غریب عوام پر اتنا بڑا کرم ہے کہ اسی کرم کی وجہ سے سابق حکمران عوام پر احسان جتاتے ہیں کہ ہم نے تمہیں مرنے نہیں دیا، زندہ رکھا البتہ عوامی مسائل کا جہاں تک تعلق ہے دس سالوں میں ایک بھی مسئلہ حل نہ ہوسکا جب کہ اربوں کھربوں کے مسائل حل ہوگئے۔ اور اس خوش اسلوبی سے ہوگئے کہ دنیا کی تاریخ میں اتنے بڑے مسئلے اتنی بڑی خوش اسلوبی سے حل ہوگئے کیونکہ گھر کی بات تھی۔

ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کاش میں پانچ سو لوگوں کو جیل بھیج سکتا۔ اس ’’کاش‘‘ کے ساتھ غالباً عمران کی بے شمار خواہشیں وابستہ ہیں۔ انسان کچھ بڑا کام کرنا چاہتا ہے تو بڑا دل بھی رکھنا پڑتا ہے۔ عمران خان کی خواہش ہے کہ وہ کاش 500 کرپٹ لوگوں کو جیل بھیج سکتے؟ وہ کن لوگوں کو جیل بھیجنا چاہتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ کرپٹ لوگوں کو لیکن ایک سربراہ مملکت لاکھوں کرپٹ لوگوں کے مجموعے میں گڑگڑا رہا ہے کہ وہ صرف 500 کرپٹ لوگوں کو جیل بھیجنا چاہتا ہے۔

خان صاحب سچائی کے ساتھ بے رحمی کا کھیل ہے۔ ہمارے ملک میں کرپٹ ایک ڈھونڈو لاکھ ملتے ہیں۔ کرپٹ لوگوں کی کوئی کمی نہیں، ہزاروں کرپٹ صبح سے شام تک آزاد گھوم رہے ہیں لیکن کسی میں کسی ایک کو پکڑنے کی ہمت نہیں کیونکہ ہر کرپٹ کے گلے میں ایک تعویذ ہے۔ تعویذ کسی بابا یا ملا کی دیا ہوا نہیں بلکہ ہمارے آپ کے جیسے لوگوں کا دیا ہوا ہے اور ان تعویذوں میں ہر بلا کو دور کرنے کی طاقت ہے۔ کھوپڑی بڑے کام کی چیز ہے، بڑے بڑے کام نکالتی ہے، بڑے بڑے کام برباد کرتی ہے، سچ پوچھیے تو ہم بھی آج کل کھوپڑی کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹروں بلکہ اسپیشلسٹوں کا کہنا ہے کہ ہماری کھوپڑی خراب ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر آفتاب کے ہم زیر علاج ہیں۔ آپ دماغ کا علاج کر رہے ہیں۔ ہماری بیماری کا نام ہے بھلکڑ پن۔ اس مرض سے کوئی جسمانی تکلیف نہیں ہوتی بلکہ شدید ذہنی تکلیف ہوتی ہے۔ ہم 40 سال سے کالم لکھ رہے ہیں لیکن اب تک دیہاڑی دار ہیں ۔آج تک کسی اخبار کے ایڈیٹر یا ڈائریکٹر سے سلام دعا تک نہیں۔ ہم اپنی دنیا میں مست رہتے ہیں۔ انھی خوبیوں کی وجہ سے دیہاڑی دار ہیں۔ بیمار ہوں تو رخصت بیماری سے محروم ہیں کام نکل آئے تو رخصت اتفاقی سے محروم ہیں ۔ ادھر محرومیاں ادھر محرومیاں آدمی ہیں پتھر تو نہیں ہیں۔

یہی حال تقریباً سارے سینئر صحافیوں کا ہے۔ زبان بند دل کے سارے دروازے بند۔ دیہاڑی ہزار روپے روزانہ کیا ہزار روپے روزانہ میں صحافی خوشحال زندگی نہیں گزار سکتا؟ ہمارے بعض دوست کہتے ہیں کہ عمران خان ایک ایسا کیمیا بنا رہا ہے کہ سب مالا مال ہوجائیں گے، بس ذرا ضمیر کو کوٹھری بلکہ کالی کوٹھری میں بند کرنا پڑے گا۔ ہم پریشان بلکہ سخت پریشان ہیں کہ تنخواہ خواہ وہ کتنی کم تر کیوں نہ ہو، ہوتی تو ہے۔ کام نہیں کریں تو تنخواہ کہاں سے آئے گی؟

چلیے ہٹائیے سارے جھگڑے 40 سال سے عادت ہے، روزانہ ایک کالم ناشتے کے ساتھ چبایا جاتا ہے، اب ناغہ آرہا ہے تو پہلے سے خراب دماغ کی چولیں ہل رہی ہیں۔ خیر چھوڑیے ان لغو باتوں کو۔ اب آئیے بھئی عمران خان کی طرف، ان کی خواہش ہے کہ انھیں صرف 500 کرپٹ لوگ مل جائیں جنھیں وہ جیل بھیج سکیں۔ خواہش تو بڑی نیک ہے لیکن لگتا ہے عمران خان نے بھی ’’حکمرانوں‘‘ کو تنگ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔

عمران خان صرف 500 کرپٹ لوگ چاہتے ہیں جنھیں وہ جیلوں میں رکھیں گے اور یہاں عالم یہ ہے کہ کرپٹ محترمین لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ اول تو سلیکشن پر ہی لڑائی ہوگی پھر صوبوں کی جیلوں میں تعیناتی کا مسئلہ ہے اچھی خاصی سر پھٹول ہوگی۔ ہمارا مشورہ ہے عمران خان چین کی ’’اصلاحات‘‘ پر عمل کرنا چاہتے ہیں اور اس عمل کا خاطر خواہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو چین کی اصل اصلاحات پر عمل کیجیے جس سے چین کو 90 فیصد فائدہ ہوا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی نے 400 کرپٹوں کو جان سے مار دیا مسئلہ ختم۔ اب چین میں کرپشن نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔