کتاب رفیقِ حیات

شکیل فاروقی  منگل 15 اکتوبر 2019
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

کتاب کے نشے کی لت ہمیں اپنے ماموں جان سید ظریف حسن مرحوم و مغفور سے ابتدائے بچپن میں اس وقت لگی جب ہم واقعی طفل مکتب کی حیثیت سے اپنے پیدائشی اور ننھیالی قصبے بگھرہ ، ضلع مظفر نگر، یو۔پی کے ایک امدادی مکتب میں دوسری جماعت کے طالب علم تھے۔

سچ پوچھیے تو ہمیں شعر وشاعری کا چسکا بھی اسی وقت سے لگا کیوں کہ ہمارے استاد گرامی منشی محمد طاہر (مرحوم) کو بیت بازی کے مقابلے کرانے کا شوق جنون کی حد تک لاحق تھا۔ شعرگوئی کی لت بھی یہیں سے لگی جس نے رفتہ رفتہ زندگی بھر کے روگ کی صورت اختیار کرلی اور نتیجہ اول اردو، پھر ہندی اور اس کے بعد انگریزی شاعری کی صورت میں ظاہر ہوا۔

ناسپاسی ہوگی اگر برسبیل تذکرہ یہ اعتراف نہ کیا جائے کہ میرے دامن علم میں آج جو کچھ بھی ہے وہ میرے والد سے بھی زیادہ شفیق اور نگہبان، مہربان انھی ماموں جان سید ظریف حسن مرحوم کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔ آج مجھے جیسی بھی انگریزی آتی ہے اس کی بنیاد انھی کی رکھی ہوئی ہے۔ مرحوم اس زمانے کے اول درجہ پاس میٹرک تھے جب مڈل پاس تحصیل دار ہوا کرتے تھے۔ مگر چونکہ مرحوم بڑے زمیندار تھے اس لیے سرکاری ملازمت کی جانب راغب نہیں ہوئے۔ چونکہ مزاجاً فقیر منش تھے اس لیے بھگت کبیر کے اس قول کے قائل تھے:

دیکھ پرائی چوپڑی مت للچائے جی

روکھی سوکھی کھائی کے ٹھنڈا پانی پی

ترجمہ: ’’غیر کی چکنی چپڑی روٹی کو دیکھ کر اپنا جی مت للچا۔ اپنی روکھی سوکھی روٹی کھا کر ٹھنڈا پانی پی کر خوش ہوجا‘‘۔ گھر کے کونے میں لکڑی کا ایک بڑا سا صندوق رکھا ہوا تھا جو ماموں جان کی متفرق اقسام کی کتابوں سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ علم کا یہ انمول خزانہ ہی ہماری زندگی کا سب سے پہلا دارالمطالعہ تھا۔

کتابوں کی چاٹ ہمیں گھرکی اسی لائبریری سے لگی جس نے دائمی لت کی صورت اختیار کرلی۔ پھر جوں جوں ہماری عمر بڑھتی رہی کتابوں کی یہ لت بھی توں توں زور پکڑتی چلی گئی۔ بگھرہ سے میٹرک تک تحصیل علم سے فارغ ہوکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہم اپنے والدین کے پاس دلی آگئے۔

دلی کیا آئے گویا ہماری لاٹری نکل آئی۔ ایک سے بڑھ کر ایک لائبریری۔ سرفہرست خود اپنے دہلی کالج کی قدیم اور عظیم الشان لائبریری جو نایاب کتابوں کے انمول خزانے سے کم نہیں۔ سو پڑھائی سے فارغ ہونے کے بعد گھر واپسی سے پہلے کا ہمارا بیشتر وقت اسی لائبریری میں گزرا کرتا تھا‘‘۔ غرض کالج کی لائبریری سے لے کر دہلی پبلک لائبریری تک شہر بھر میں کوئی بھی ایسی لائبریری باقی نہ تھی جو ہماری دسترس سے باہر ہو۔

کثیراللسان اور وسیع المطالعہ ہونے کی وجہ سے ہماری دلچسپی کی کتابوں کا دائرہ بھی ہمیشہ غیر معمولی طور پر وسیع رہا ہے۔ چنانچہ ہماری ذاتی لائبریری میں بھانت بھانت کی کتب کی صورت میں بھان متی کا کنبہ آ آ کر جڑتا چلا گیا۔ جو ایک مرتبہ حادثاتی طور پر اس وقت اجڑا جب ہم نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنے کے نتیجے میں دلی کو خیرباد کہہ کر شہر قائد کراچی میں سکونت اختیار کی۔ اس نقل مکانی کے نتیجے میں ہماری بیش قیمت کتابیں خصوصاً ہندی زبان کی نادر کتابیں دلی میں ہی رہ گئیں اور انجام کار انھیں دیمک کھا گئی۔

نقل مکانی کی مشکلات و مضمرات کا اندازہ صرف وہی کرسکتا ہے جسے کبھی اس عذاب سے گزرنا پڑا ہو۔ ہمیں ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کرنے کے علاوہ ایک شہر سے دوسرے شہر اور اندرون شہر ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں نقل مکانی کرنے کا ذاتی تجربہ ہے، اس لیے ہمیں اس کے عملی نتائج کا پورا اندازہ ہے۔ اس بار بار کی نقل مکانی کے نتیجے میں سب سے زیادہ ناقابل تلافی نقصان ہمیں کتابوں کے حوالے سے اٹھانا پڑا۔

پیرزادہ عاشق کیرانوی نے کیا خوب فرمایا ہے:

سرور عالم ہے کیف شراب سے بہتر

کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر

ہر شخص کی کوئی نہ کوئی کمزوری ضرور ہوتی ہے۔ ہمیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی تامل ہے نہ تردد کہ کتاب ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے۔ کتاب کے ساتھ ہمارا تعلق مہد سے ہے اور لحد تک قائم رہے گا۔ کتابیں ہمارا اوڑھنا بچھونا ہیں۔ اس کا تجربہ ہمیں گزشتہ چند ماہ قبل اس وقت ہوا جب حالات کے جبر نے ہمیں اپنی برسوں سے قطرہ قطرہ کی صورت جمع کی ہوئی نادر کتابیں کباڑیے کے ہاتھوں کوڑیوں کے مول فروخت کرنا پڑیں۔

اس بیش قیمت ذخیرے میں بعض عظیم شعرا کے دستخط شدہ مجموعے اور ممتاز ادیبوں کی آٹو گراف سے آراستہ نثری کتب بھی شامل تھیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان میں ہندی و انگریزی زبان کی وہ کتابیں بھی شامل تھیں جو ناپید ہیں۔ علاوہ ازیں اس ذخیرے میں آئین اور قانون کی نایاب کتب اور معاشیات و سیاسیات کے موضوعات پر مشتمل بعض ایسی کتابیں بھی شامل تھیں جو اب ڈھونڈے سے نہیں ملیں گی۔ افسوس صد افسوس کہ:

گوہر فروختند و چہ ارزاں فروختند

ان کتابوں کو اونے پونے فروخت کرنے کا قلق ہمیں ہمیشہ رہے گا۔ یہ وہ کاری زخم ہے جو شاید کبھی مندمل نہ ہوگا اور وقت کا مرہم بھی اس کی ٹیسوں کی شدت کو کم نہ کرسکے گا۔ یہ خلاف طبیعت فیصلہ ہمیں اپنے پرانے فلیٹ سے نئی رہائش گاہ پر منتقلی کی وجہ سے کرنا پڑا کیونکہ نئی رہائش گاہ میں اتنی ساری کتابوں کے رکھنے کی گنجائش نہ تھی۔ پرانے فلیٹ کو فروخت کرنے کے لیے اسے مکمل طور پر خالی کرنا ناگزیر۔ شومئی قسمت یہ کہ حالات تبدیل ہونے کے باعث فلیٹ کی فروخت کا فیصلہ موخر کرنا پڑا مگر ’’گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں‘‘۔ فلیٹ بھی فروخت نہ ہوا اور نادرکتب بھی ہاتھوں سے نکل گئیں۔

کتابیں ہماری زندگی میں نئے دریچے کھول کر ذہنی حبس کی کیفیت سے نجات دلاتی ہیں۔ کتابیں ہماری تنہائی کا بہترین رفیق ہیں۔ بعض کتابیں اتنی اثر انگیز ہوتی ہیں کہ پڑھنے والے کی زندگی کا رخ تبدیل کردیتی ہیں۔ کتاب دوستی اور انتخاب کتب سے انسان کی شخصیت اور کردار کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس سے انسان کی سوچ اور اپروچ کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے میں بہت مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ جس طرح کسی شخص کے حلقہ احباب کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے اس کی صحبت کی جانکاری ممد و معاون ثابت ہوسکتی ہے کم و بیش اسی طرح انتخاب کتب کی مدد سے بھی کسی شخص کا خاکہ نہایت آسانی کے ساتھ مرتب کیا جاسکتا ہے۔ مرزا غالب کے درج ذیل شعر میں اسی جانب اشارہ ملتا ہے:

کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ

شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

مے نوشی بھی انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ حد تو یہ ہے کہ یہ آدمی کو گھر کے برتن بھانڈے تک فروخت کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ منفرد لب و لہجے کے شاعر نریش کمار شاد کے ساتھ پیش آنے والے اسی قسم کے واقعے کے ہم چشم دید گواہ ہیں۔ مے نوشی سے مجبور ہوکر ایک شام وہ اپنی کتابوں کا پلندہ لے کر بری طرح ہانپتے کانپتے ہوئے فروخت کرنے کے لیے ہمارے ایک دوست کی لائبریری پر چلے آئے جو پرانی دلی کے ایک مسلم محلے میں قائم تھی۔ ہمارے دوست نے معاملے کو بھانپ لیا اور کتابوں کے عوض ایک معقول رقم شاد صاحب کو ادا کرکے رخصت کردیا۔ اس کے بعد ایک روز چپکے سے وہ تمام کتابیں شاد صاحب کی بیگم صاحبہ کو ان کے گھر پہنچا دی گئیں۔ چلتے چلتے شاد صاحب کا یہ خوب صورت شعر ملاحظہ کیجیے اور داد پر داد دیجیے:

کون کہتا ہے مے نہیں چکھی‘ کون جھوٹی قسم اٹھاتا ہے

میکدے سے جو بچ نکلتا ہے ‘ تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔