انجام بھی رہے مدنظر

محمد سعید آرائیں  منگل 15 اکتوبر 2019

عمران خان کی وزارت عظمیٰ میں پی ٹی آئی کی حکومت 14 ماہ مکمل کرنے کے بعد ماہ رواں کے تیسرے ہفتے میں پندرہواں ماہ نومبر میں اس وقت مکمل کرے گی ، جب اسلام آباد میں اپوزیشن کا مشترکہ احتجاج جاری ہوگا۔ مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ اور بعد میں دھرنا اب توقع ہے کہ اکتوبر کی 27 تاریخ مقررہ پر ہی ہوگا۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بھی اس بات پر متفق ہیں کہ دونوں مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ میں شرکت کریں گی۔ اپوزیشن اپنی اے پی سی میں فیصلہ کرے گی کہ آزادی مارچ یا احتجاجی دھرنا کب اور کیسی صورت میں کیا جائے گا مگر مولانا فیصلہ کرچکے نومبر میں ربیع الاول کا مبارک ماہ اور عید میلادالنبی بھی ہے جسکے بعد ہی اپوزیشن اپنے احتجاج کا فیصلہ کریگی تو عمران خان کی حکومت اپنا سوا سال گزار چکی ہوگی اور حکومت کے لیے اپوزیشن کی احتجاجی تحریک مشترکہ ہوگی۔

عمران خان اور طاہر القادری نے بھی 2014 میں نواز شریف حکومت کے خلاف ایک سال بعد ہی شروع کی تھی اور دونوں کے الگ الگ دھرنے 126 روز کے بعد ختم ہوئے تھے۔ طاہر القادری تو مایوس ہوکر پہلے ہی دھرنا ختم کرکے لوٹ گئے تھے جن کا دھرنا حقیقی دھرنا تھا اور وہ اپنی مرضی سے عمران خان سے پوچھے بغیر اور اپنا کوئی مطالبہ منوائے بغیر لاہور لوٹ گئے تھے جب کہ 126 دن میں کچھ نہ حاصل کرسکنے والے عمران خان کو پبلک اسکول پشاور کی دہشت گردی سے اپنا دھرنا ختم کرنے کا موقعہ مل گیا تھا جو دعویٰ کرتے تھے کہ وزیر اعظم نواز شریف سے استعفیٰ لیے بغیر دھرنا ختم نہیں کروں گا مگر وہ کچھ بھی حاصل نہ کرسکے تھے اور حکومت نے ان کا کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس وقت دوسری بڑی پارلیمانی پارٹی پی پی پی، جے یو آئی اور حکومتی حلیف پارٹیاں حکومت کے ساتھ تھیں۔

موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی کے پاس قومی اسمبلی میں زیادہ نشستیں تو حاصل ہیں اور ان کی حکومت ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل اور چند آزاد ارکان کی حمایت کی مرہون منت ہے اور سندھ سے جی ڈی اے بھی ایک وزارت لے کر عمران خان کی حامی ہے جب کہ بی این پی مینگل نے جی ڈی اے سے زیادہ نشستیں ہونے کے باوجود کوئی وزارت نہیں لی۔ مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کو وزیر اعظم نے دو مزید وزارتیں دینے کے آسرے پر رکھا ہوا ہے۔

گھوٹکی میں جی ڈی اے کی نشست ہارے جانے کے بعد حکومتی اتحاد کی ایک نشست بھی کم ہوگئی ہے۔ ملک کی صنعتی اور تجارتی صورتحال کی بہتری کے لیے کابینہ نے جو فیصلے کیے تھے اس پر عمل نہ ہونے پر صنعت کار اور تاجر آرمی چیف کے پاس شکایات لے کر پہنچ گئے جس پر آرمی چیف نے انھیں جہاں مسائل کے حل میں مدد کی یقین دہانی کرائی وہاں یہ بھی زور دیا کہ وہ حکومت سے تعاون کریں۔

تاجر اور صنعتکاروں نے اپنے مسائل اور متوقع احتجاج کے سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی اور انھیں ایف بی آر کی طرف سے اعلانات پر عمل نہ ہونے کی بھی شکایات کی، جس میں سب سے اہم مسئلہ این آئی سی(شناختی کارڈ) طلب کیے جانے کا ہے جس پر عمل نہیں ہو رہا۔ وزیر اعظم بھی اس سلسلے میں پریشان ہیں کیونکہ معاشی صورتحال دن بہ دن بگڑ ہی رہی ہے اور تاجروں کو ایف بی آر سے بہت سی شکایات ہیں جو دورکرنے کے لیے وزیر اعظم نے یقین دہانی تو کرا دی ہے مگر عمل درآمد ضروری ہے جس کے بغیر ملک کی تاجر تنظیموں کو عمل کا انتظار رہے گا۔

مولانا فضل الرحمن نے حیرت انگیز طور پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی گزارشات کو نظرانداز کرکے 27 اکتوبر کو آزادی مارچ کا اعلان کردیا ہے جب کہ توقع تھی کہ وہ آزادی مارچ کو نومبر تک موخر کر دیں گے مگر انھوں نے اپنی پارٹی میں یہ تجاویز پیش کیں اور اپنی رائے اور 8 ماہ سے جاری تیاریوں کا بھی بتایا اور فیصلہ ہوا کہ اکتوبر کے اعلان کے مطابق 27 اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ شروع کریں گے اور جے یو آئی اس سلسلے میں اپنی تیاریاں مکمل کرچکی ہے جس پر عمل کیا جائے گا۔

اب مولانا فیصلہ کرچکے کہ وہ اسلام آباد ضرور آئینگے۔ وزیر اعظم عمران خان نے تو خود اپوزیشن کو دعوت دی تھی کہ جسکو اسلام آباد احتجاج کرنا ہے آئے تو وہ انھیں کنٹینر اور کھانا بھی فراہم کریں گے جب کہ انھی کے وزیر اعلیٰ کے پی کے محمود خان کا کہنا ہے کہ ہم لانگ مارچ والوں کو کے پی کے سے بھی گزرنے نہیں دیں گے۔ مولانا کے اعلان کو وزیروں نے مذاق کے طور پر لیا ہے اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ شروع کردیا ہے۔

شیخ رشید نے کہا کہ معاملہ طے ہوگیا ہے اپوزیشن لانگ مارچ نہیں کرے گی مگر اسی روز مولانا فضل الرحمن نے لانگ مارچ کا اعلان کرکے شیخ رشید کو آئینہ دکھا دیا جب کہ شہریار آفریدی انھیں حلوہ بھی کھلانے کو تیار ہیں تو فیصل واوڈا کہتے ہیں کہ مولانا کو گرفتار کرکے جیل میں ان کے لیے ورزش کی مشین بھی دیں گے۔ کوئی کہتا ہے کہ مولانا اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکیں گے۔

اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں کیا ہونے جا رہا ہے اس پر سنجیدگی اختیارکرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے پاس بھی ساری اطلاعات ہوں گی مگر وہ بضد ہیں کہ وہ اپنی پارٹی کی طاقت پر 27 اکتوبر کو ہی اسلام آباد جائیں گے اور وہ اپنے فیصلے پر عمل کریں گے۔

وزیر اعظم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن مدارس اصلاحات سے پریشان ہیں۔ اصلاحات سے مولانا طلبا کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرسکیں گے۔ وہ اپنی ڈوبتی سیاست کو بچا رہے ہیں۔ آزادی مارچ سے مولانا کی سیاست ڈوبتی ہے یا تیرتی ہے مگر حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ موقعہ جلتی پر تیل ڈالنے کا بہرحال نہیں ہے۔ اس کے منفی نتائج پر مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے جسے مسلم لیگ (ن) اور پی پی تو محسوس کر رہی ہے مگر حکمران یہ نہیں سوچ رہے۔

ماضی گواہ ہے۔ بھٹو دور کی تحریک میں بھی حکومت کی حمایت میں بہت کچھ کہا گیا تھا مگر 5 جولائی کو کیا ہوا تھا اس کا حکومت اور اپوزیشن سب کو پتا ہے اس لیے مولانا کو ہلکا نہ لیا جائے نہ اشتعال انگیز بیان بازی ہونی چاہیے کیونکہ ملکی سیاست میں سب کچھ ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔