مائیکرو بیالوجی کی ممتاز محقق؛ سامیہ تسلیم

عارف عزیز  منگل 15 اکتوبر 2019
اپنی تحقیق کو مصنوع کی شکل میں دیکھنے کی خواہاں ہیں۔ فوٹو:فائل

اپنی تحقیق کو مصنوع کی شکل میں دیکھنے کی خواہاں ہیں۔ فوٹو:فائل

ماحول کی بقا، صحت اور علاج معالجے کے حوالے سے طبی تحقیق اور تجربات میں مصروف سامیہ تسلیم خرد حیاتیات (مائیکرو بیالوجی) میں  ’پی ایچ ڈی‘ ہیں۔ گفتگو کے دوران کُھلا کہ ان کی فکر اور معلومات صرف ان کے مضمون تک محدود نہیں، بلکہ سماج کے مختلف پہلوؤں پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔

ضرورت کے مطابق اپنا نکتۂ نظر واضح کرنے کے لیے تاریخ اور مذہب کے حوالے دیتی ہیں۔ تعلیم، خاص طور پر سائنس و تحقیق کے میدان میں طلبا کی راہ نمائی اور ہمّت افزائی کرنا فرض سمجھتی ہیں۔ ان دنوں جامعہ کراچی و دیگر تعلیمی اداروں کی لیبارٹریوں میں مختلف تحقیقی کاموں اور سائنسی تجربات میں مصروف ہیں۔

ماحول اور انسانی صحت کی بقا کے لیے اپنا عملی اور مفید کردار ادا کرنے کے لیے متحرک رہتی ہیں۔ سامیہ تسلیم نے خرد حیاتیات کے شعبے کو صرف تعلیمی سند کے حصول تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اپنی قابلیت اور صلاحتیوں کی بدولت خاتون سائنس داں کے طور پر منوایا ہے۔ خرد حیاتیات ایک وسیع علم ہے جس میں عام آنکھ سے نظر آنے والے اجسام کا مطالعہ اہمیت کا حامل ہے۔

ہر نوع کی حیات، یعنی انسان اور نباتات میں پائے جانے والے یہ خرد بینی جان دار ان کے لیے مفید اور مضر بھی ثابت ہوتے ہیں۔ سامیہ تسلیم کا سائنسی کارنامہ ایک ایسے مرہم ( ointment) کی تیاری ہے، جو جلدی امراض اور مختلف حادثات کی صورت میں زخم کو ٹھیک کرنے میں فوری اور مؤثر ثابت ہوا ہے۔ اس مرہم کی تیاری شہد پر ان کی مسلسل تحقیق اور تجربات کے بعد عمل میں آئی ہے جسے ان کے اساتذہ، سائنس دانوں اور ماہرینِ طب نے اعتماد اور اعتبار بخشا۔ لیبارٹری میں ابتدائی تجربات نے اس مرہم کو دافع جراثیم، شفا بخش اور قابلِ استعمال ثابت کیا۔ سامیہ طبی سائنس میں اپنے تحقیقی کاموں پر متعدد مقامی اور عالمی تنظیموں سے ایوارڈ وصول کرچکی ہیں۔

ان کا تعلق کراچی سے ہے، اسی شہر میں سرکاری درس گاہوں سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعہ کراچی کے شعبۂ خرد حیاتیات میں قدم رکھا اور 2013 میں پی ایچ ڈی کی۔ وہ اپنے طبی تحقیقی کارنامے کی بابت بتاتی ہیں، میں نے ’پی ایچ ڈی‘ کرنے کی ٹھانی، تو شہد کی خاصیت اور اجزا کا مطالعہ کیا، اس کے لیے ملک بھر سے شہد کے نمونے حاصل کیے اور ان پر لیبارٹری میں تحقیق اور تجربات کے دوران بعض اجزا کی جلدی امراض میں حیرت انگیز اور شفا بخش خاصیت کا علم ہوا جس نے مجھے اس مرہم کی تیاری کی طرف مائل کیا۔ شہد کی اسی خاصیت پر میں نے ’پی ایچ ڈی‘ کا مقالہ تحریر کیا اور اس کام کو آگے بڑھاتے ہوئے مرہم تیار کرنے میں کام یاب رہی۔

سامیہ کے اعزازات اور انعامات کی تفصیل میں جائیں تو ایجادات اور اختراعات کے میدان میں سرگرم طلبا اور ماہرین کے کاموں کو سراہنے اور دنیا بھر میں متعارف والی تنظیم  DICE نے 2016 میں انہیں ان کی طبی سائنس میںکاوش پر پہلا انعام کا حق دار قرار دیا۔ اسی سال ان کی طبی تحقیق کو حکومت نے رجسٹرڈ کیا۔ 2017 میں ان کے لیے ایک حوصلہ افزا اور خوشی کی خبر یہ تھی کہ وہ یعنی ڈاکٹر سامیہ تسلیم، دنیا بھر میں خرد حیاتیات کے 500 نہایت متحرک اور سرگرم محققین میں شامل کی گئی ہیں۔

یہ اعزاز انٹرنیشنل ایجنسی آف اسٹینڈرڈ اینڈ ریٹنگ نے ان کے نام کیا تھا۔ 2018 آیا تو سندھ میں Invention to innovation summit  کے پلیٹ فارم سے تھرڈ پرائز اور ایک ایوارڈ اپنے نام کرنے میں کام یاب رہیں۔ سامیہ کی ان کام یابیوں کے علاوہ ریسرچ کے میدان کے جرنلز اور مختلف پبلشنگ اداروں سے ان کی وابستگی بھی ہے۔

ان کے ریسرچ پیپر دنیا بھر میں مستند جرنلز کا حصہ بنے جب کہ متعدد سائنسی جرنلز کی جانب سے دیگر سائنس دانوں کے ریسرچ پیپر پر نظرِ ثانی کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ وہ مختلف امریکی اور دیگر غیر ملکی جریدوں کے ادارتی بورڈ کی رکن بھی ہیں۔ یہ خرد حیاتیات، ادویہ سازی اور صحت و علاج معالجہ سے متعلق جرائد ہیں۔ سامیہ اپنے شعبے کی ایک ماہر کی حیثیت سے مختلف سائنسی و طبی مذاکروں، تربیتی مہمات اور کالج و جامعات کی سطح پر بھی متحرک رہی ہیں۔

وہ اپنے مضمون میں چار کتب کی مصنف بھی ہیں جو دراصل ان کی تحقیق اور تجربات کا احاطہ کرتی ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور عالمی سطح پر سائنس کے میدان میں سرگرم اداروں نے ان کے تیس سے زائد تحقیقی مضامین کو اعتبار کی سند بخشی۔ ہمدرد یونیورسٹی سے اسسٹنٹ پروفیسر کی حثیت سے جڑی رہیں، جب کہ ’ایچ ای سی‘ کی طرف سے ’آئی پی ایف پی‘ پروگرام کے بعد شعبۂ خرد حیاتیات میں بھی اسسٹنٹ پروفیسر  کے لیے منتخب ہوئیں۔ ان کی تعلیم اور طبی سائنس میں مہارت سے متعدد ادارے مستفید ہوئے، جن میں مختلف ادویہ ساز کمپنیاں اور پیتھالوجی ادارے شامل ہیں۔

سامیہ تسلیم نباتات اور حیوانات کی مختلف اقسام سے متعلق جاننے کا شوق رکھتی ہیں، تحقیق اور خرد بینی جان داروں سے ماحول اور انسان کی بقا کے لیے کام کرنا ان کا جنون ہے۔ وہ سائنسی تجربہ گاہ میں ان جانداروں کی خصوصیات، برتاؤ اور ان کے ذریعے علاج معالجے میں آسانی پیدا کرنے اور دیگر طبی فوائد و نقصانات کا جائزہ لیتے وقت گزارنا پسند کرتی ہیں۔ فی الوقت ان کی توجہ اپنی تحقیق کا نتیجہ اور اپنی طبی ایجاد یعنی مرہم کو پروڈکٹ کے طور پر متعارف کروانے پر ہے، جس کے لیے مختلف متعلقہ اداروں سے جانچ پڑتال، منظوری لینے کے مراحل جاری ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ مرہم جھلس جانے والی جلد، کسی رگڑ یا کسی وجہ سے کٹ جانے کی صورت میں نمودار ہو جانے والے جلدی زخم کو خراب ہونے سے بچانے اور اس میں پیدا ہونے والے جراثیم کے خلاف فوری اور مؤثر کام کرنے کے قابل ہے۔ سامیہ کے مطابق وہ ادویات کی تیاری سے متعلق اداروں اور ماہرین کی رائے اور سند حاصل کرنے کے بعد اب اپنی تحقیق کو مصنوع (پروڈکٹ) کی شکل میں دیکھنے کی شدید خواہش رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانی صحت اور علاج معالجے میں اگر ان کی یہ تحقیق اور پراڈکٹ کارآمد ثابت ہوتی ہے، تو اس سے بڑی خوشی کیا ہو سکتی ہے۔

سامیہ  کا کہنا ہے کہ یہ دور سائنس اور  ٹیکنالوجی کا ہے اور اگر حکومت ہمارے ملک میں تعلیم اور خاص طور پر سائنس کے مختلف شعبوں پر توجہ دے اور بجٹ بڑھائے تو درس گاہوں سے لیبارٹریز تک مصروفِ عمل طلبا اپنی تحقیق اور تجربات کے بعد ایسی اہم دریافت اور ایجادات کرسکتے ہیں جن سے دنیا بھر میں انسانوں کو فائدہ پہنچے گا۔

ان کا کہنا تھاکہ جامعہ کراچی کے قابل اساتذہ اور ماہرین کی بدولت یہاں کی لیبارٹریز میں بہت اہم موضوعات پر ریسرچ جاری ہے، جس کی حوصلہ افزائی کرنا ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے علاوہ صنعتی اداروں اور خاص طور پر سائنس اور اس کے مختلف شعبوں کے لیے آلات اور دیگر سامان تیار کرنے والی صنعتوں کو تحقیق اور تجربات میں مصروف جامعات اور لیبارٹریز کو مالی مدد دینا چاہیے۔ سامیہ کے مطابق مالی وسائل کا درست اور بروقت استعمال ضروری ہے ورنہ یہ قوم ہمیشہ غیروں کی امداد پر پلتی رہے گی اور اس کا کوئی مستقبل نہ ہو گا۔

دور حاضر میں جہاں ہر شعبۂ حیات میں تعلیم یافتہ اور ہنر مند خواتین مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں، وہیں سائنس اور طب کا شعبہ بھی ہمارے ملک کی نصف آبادی کی قابلیت اور صلاحیت سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ سائنس کے میدان میں خواتین کی حوصلہ افزائی اور آگے بڑھنے پر آمادہ کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ نے ایک اہم قدم اٹھایا اور اب ہر سال 11 فروری کو ’’انٹرنیشنل ڈے آف ویمن اینڈ گرلز ان سائنس‘‘کا انعقاد کیا جاتا ہے جس نے سائنس کے مختلف شعبوں میں تعلیم یافتہ خواتین کی ہمّت افزائی ہوئی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں سائنسی تحقیق اور طبی میدان میں اہم اور نمایاں کام کرنے والوں میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں بہت کم ہے، لیکن سامیہ تسلیم جیسی خواتین جامعات میں پڑھنے والی لڑکیوں کے لیے مثال ہیں اور امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں سائنس کے مختلف شعبوں میں یہ لڑکیاں اپنے تحقیقی کاموں اور ایجادات کی وجہ سے ملک کا نام روشن کرنے کے ساتھ انسانیت کی بھلائی اور خدمت کے لیے اپنا کردار ادا کریں گی۔ سامیہ کا کہنا ہے کہ تعلیم و تربیت کے ساتھ والدین اور اساتذہ کی جانب سے توجہ اور ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی وجہ سے خواتین ایسے شعبوں میں اپنا لوہا منوا سکتی ہیں جن کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔