معصوم طالب علم کا قاتل کون؟

مناظر علی  منگل 15 اکتوبر 2019
صائم نے رزلٹ اچھا نہ آنے پر دریا میں چھلانگ لگاکر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ (فوٹو: فائل)

صائم نے رزلٹ اچھا نہ آنے پر دریا میں چھلانگ لگاکر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ (فوٹو: فائل)

’’میرے پیارے ابو اور میری ماں، مجھے معاف کردینا۔ میرا رزلٹ بہت گندا آیا ہے۔ اور جس کی وجہ سے اب کوئی عزت میری نہیں رہے گی۔ مگر میں نے نمبر لینے کی کوشش کی تھی۔ بس مجھے معاف کردینا۔ اللہ حافظ‘‘۔

یہ الفاظ اس پرچی پر لکھے تھے جو ملتان میں فرسٹ ایئر کے طالب علم صائم نے اپنے والدین کے نام مبینہ طور پر لکھی تھی۔ دریا سے لاش ملنے کے بعد پولیس نے تصدیق کردی کہ بچے نے امتحان میں اچھا نتیجہ نہ آنے پر خودکشی کی ہے۔

ویسے تو پولیس کا یہی بیان سامنے آیا ہے کہ یہ خودکشی کا واقعہ ہے، مگر مزید تحقیقات ہوں تو کیا پتہ حقائق مختلف نکلیں۔ کیوں کہ مجھے ذاتی طور پر اس اندازتحریر سے یہ لگتا ہے کہ فرسٹ ایئر کے طالب علم کی لکھائی اور ایک کم پڑھے لکھے شخص اور چھوٹے بچے کی لکھائی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ بچے کے ساتھ کچھ اور ناخوشگوار واقعہ ہوا ہو، جیسا کہ ملک کے مختلف علاقوں میں واقعات رونما ہورہے ہیں۔ قصور اس میں سرفہرست ہے۔

ایسے واقعات کے بعد پولیس پر دباؤ ہوتا ہے اور انہیں ایسے واقعات کے بعد معطلی اور دیگر مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، لہٰذا پولیس کچھ واقعات کو ایسے رنگ دینے کی کوشش کرتی ہے کہ جس سے ملبہ ان پر نہ گرے۔ جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ کسی جگہ اگر ڈکیتی ہوجائے تو پولیس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دفعات معمولی لگائیں، کیوں کہ ڈکیتیوں کی شرح بڑھنے سے پولیس کی عزت پر بھی حرف آتا ہے۔ بالکل اسی طرح زیادتی کے واقعات بھی متعلقہ تھانے کے ریکارڈ پر گہرے اثرات ڈالتے ہیں۔ لہٰذا اکثر افسران کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ واقعات کو ایسا ہی رنگ دیا جائے جس سے ان کی محکمانہ عزت کو نقصان نہ ہو۔ اور مرنے والا تو مر گیا، اس نے کہاں واپس آنا ہے، اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی داستان کس نے سنانی ہے۔

ملتان میں اس مبینہ خودکشی کے واقعے پر پولیس کے بیان کو میں کسی صورت بھی چیلنج نہیں کررہا، لیکن ایک پہلو جس پر تحقیقات ہونی چاہئیں، اس کی نشاندہی کررہا ہوں۔ بطور لکھاری میں یہی کرسکتا ہوں۔ پولیس کے اعلیٰ افسران کو طالب علم کی مبینہ خودکشی کے معاملے میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تفتیش کرنے کی ضرورت ہے۔ جیساکہ چونیاں کے حالیہ واقعے میں پولیس نے بہت اچھا رزلٹ دیا کہ وہ ماہر پولیس اہلکاروں، جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بڑے کم عرصے میں مجرم تک پہنچ گئی۔ اچھے کام پر پولیس کی تعریف بھی ان کا حق ہے۔

اگر ہم تصویر کا وہ رخ دیکھیں جو پولیس کے بیان سے دکھایا جارہا ہے کہ طالب علم نے اچھا رزلٹ نہ آنے پر خودکشی کرلی۔ تو ایسی صورت میں بھی پولیس کا کام ہے کہ ان کرداروں کو منظرعام پر لائے جن کی وجہ سے طالب علم کا ذہنی دباؤ اس سطح تک پہنچ گیا کہ اسے زندگی سے ہی نفرت ہوگئی اور اس نے زندہ رہنے پر موت کو ترجیح دی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک طالب علم کو نمبرز لینے کی دوڑ میں اتنا زیادہ پریشان کردیا گیا کہ وہ اتنے نمبرز ہی لے گا تو وہ کامیاب انسان ہے ورنہ ویسا نہیں جو معاشرہ تسلیم کرتا ہے، والدین خوش ہوتے ہیں اور زمانے میں ناک نہیں کٹتی۔

سب سے پہلا کام والدین کے کرنے کا ہے کہ بچے کی تعلیم وتربیت پر جہاں توجہ دیں، وہیں اسے یہ اعتماد بھی دیں کہ نمبرز کم آجانے سے معاشرے میں عزت خراب نہیں ہوتی اور اگر فیل ہوجائیں تو بچوں کے ذہن میں ڈالیں کہ بیٹا ناکامی ہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔ جو لوگ گھبرا جاتے ہیں وہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ لہٰذا اعلیٰ پوزیشن سے کہیں زیادہ عزیز انہیں اپنے بیٹے کی زندگی ہے اور وہ اپنے بیٹے کو بے حد پیار کرتے ہیں۔ بچوں کو دوست بنائیے، اس طرح کہ انہیں دوستی کےلیے باہر نہ بھٹکنا پڑے۔ کیوں کہ باہر کے دوست ممکن ہے اچھے نہ ہوں اور بری محفل انسان کو برائی کی دلدل میں ہی دھکیلتی ہے۔ لہٰذا جو والدین اپنی اولاد سے پیار کرتے ہیں انہیں اپنے بچے کو یہ احساس بھی دلانے کی ضرورت ہے کہ بچوں سے بڑھ کر انہیں کوئی چیز عزیز نہیں۔

دوسرا کام حکومت کا ہے کہ ہمیں تعلیمی نظام اور یکساں نصاب تعلیم پر فوری کام کی ضرورت ہے۔ اس موضوع پر ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ کس طرح ہمارا تعلیمی نظام، رٹا سسٹم اور انگریزی پر ہی زیادہ زور ہمارے بچوں کے پاؤں میں زنجیریں بنا ہوا ہے۔ تنیجتاً بچے پر ذہنی دباؤ دن بدن بڑھ رہا ہے، جس کے خوفناک نتائج جہاں گاہے بگاہے آتے رہتے ہیں، وہی صورتحال مزید گھمبیر ہونے کا خدشہ ہے۔ ایسا نظام لانے کی ضرورت ہے، جس میں تعلیمی میدان میں کامیابی کی طرف جانے والے راستے آسان ہوں اور طالب علم کی گھبراہٹ ختم ہوسکے۔

مبینہ خودکشی کرنے والے طالب علم صائم کے کیس میں بھی فوری طور پر ذمے داروں کا تعین کرکے حقائق سامنے لانے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ معلوم ہوکہ معصوم طالب علم کا قاتل ہمارا تعلیمی نظام ہے یا پھر کیس کے حقائق چھپانے کےلیے پولیس کا غیر ذمے دارانہ رویہ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مناظر علی

مناظر علی

بلاگر مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نیوزروم سے وابستہ رہ چکے ہیں، آج کل لاہور کے ایک ٹی وی چینل پر کام کررہے ہیں۔ عوامی مسائل اجاگر کرنے کےلیے مختلف ویب سائٹس پر بلاگ لکھتے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔