انصاف سب کے لیے برابر ہونا چاہیے

نصرت جاوید  ہفتہ 1 ستمبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

مجھے تو نیب پر کبھی بھی اعتماد نہیں رہا۔ مگر ہم جیسے عامیوں اور مسکینوں کی کون سنتا ہے۔ وہ تو اﷲ کا کرم ہوا کہ ارسلان افتخار پر گند اُچھالنے کی کوشش کی گئی۔ نیب کو تحقیقات کے لیے حکم دیا گیا اور بالآخر بات کھلی کہ یہ ادارہ صاف اور شفاف تفتیش کے لائق ہی نہیں۔ جس گند میں پتھر پھینکا گیا تھا اس کی چھینٹیں سب سے زیادہ اخباروں میں بقراط بن کر کالم لکھنے والوں اور ٹی وی اسکرینوں پر پارسائی کے وعظ دینے والے صحافیوں اور اینکر پرسنوں کا مقدر بنیں۔ ان میں سے ہر کوئی اپنے اپنے قریبی حلقوں میں صفائی پیش کرتا اپنی بے گناہی کے رونے رو رہا ہے۔ داغ تو مگر لگ گئے۔ ایک اشتہار کے بقول داغ تو اچھے ہوتے ہیں مگر لفظ بیچ کر پیٹ پالنے والوں کا سب کچھ تو ان کی ساکھ ہی ہوا کرتی ہے۔ وہ لٹ جائے تو کبھی لوٹ کر نہیں آتی۔ بچپن کی معصومیت کی طرح۔

احتساب والوں سے میرا واسطہ ایک ملزم نہیں بطور صحافی کافی زیادہ رہا ہے۔ نواز شریف صاحب کی پہلی وزارتِ عظمیٰ کے دوران چوہدری نثار علی خان کی شفقت، ملک نعیم سے دوستی اور عبدالستار لالیکا مرحوم سے یاری کے باوجود میں اس دور میں سرکاری غم وغصے کا نشانہ بنا رہا۔ جواباََ بطور صحافی کے میں نے بھی نواز شریف کی ذات اور حکومت کو نقصان پہنچانے کی اپنی بساط کے مطابق ہر ممکن کوشش کی۔ لڑائی لمبی ہو گئی اور بہت دیر تک جاری رہی۔

اسی نوعیت کی مزید لڑائی کو روکنے کے لیے میاں صاحب کے دوسری مرتبہ اقتدار سنبھالنے کے بعد ہی خواجہ آصف اور مشاہد حسین سید جیسے کرم فرمائوں نے میرے اور نواز شریف کے درمیان ایک معقول اور باعزت قسم کی انڈراسٹیڈنگ کرا دی۔ میں ان پر تنقید تو کرتا لیکن ان کے خلاف ہونے والی محلاتی سازشوں کا جیالا سپاہی کبھی نہ بنا۔ میں بھی مطمئن رہا اور نواز شریف بھی راضی رہے۔ مگر احتساب سیل کے سیف الرحمن کو یہ بات ہضم ہو کر نہیں دیتی تھی۔ وہ تواتر کے ساتھ مجھے اپنے دفتر بلا کر گھنٹوں موٹی موٹی فائلیں دکھا کر اپنی جانب سے برپا کیے جہاد برائے انسدادِ کرپشن کا صحافتی سپاہی بنانے کو مجبور کرتے رہے۔ انھی ملاقاتوں کی وجہ سے میں پوری طرح جان پایا کہ اختیار ایک عام سے انسان کو کس طرح فرعون بنا دیا کرتا ہے۔ ایسے اختیارات سے بس ربّ کی پناہ ہی مانگتا رہا۔

پھر نوازشریف رخصت کر دیے گئے اور ساتھ ہی سیف الرحمن بھی۔ احتساب کا کاروبار جنرل امجد کی کمانڈ میں آ گیا۔ مجھے آج تک ان سے ملنے کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ مگر جنرل صاحب کے دو بہت ہی قریبی مشیر و معتمد ہوا کرتے تھے۔ دونوں کو جوانی میں اپنے ’’انقلابی‘‘ خیالات کے باعث ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں فوج سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک صاحب قلمی نام سے بڑی ہی خوب صورت انگریزی میں ضمیر کو جگانے اور ایمان میں حرارت پیدا کرنے والے کالم بھی لکھا کرتے تھے۔ پتہ نہیں کیوں انھیں میرا لکھنا بھی پسند تھا اور ہم دونوں کی بڑی بے تکلف دوستی ہو گئی۔ ان دونوں افراد کے ذریعے تقریباََ لمحہ بہ لمحہ مجھے فرعونیت کے اس اظہار کا پتہ چلتا رہتا جو جنرل مشرف کی سرپرستی میں احتساب والے اس ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے رواں رکھے ہوئے تھے۔ یہ جہاد بھی مگر چل نہ سکا۔ جنرل امجد کو ہٹا کر خالد مقبول کو لانا پڑا اور پھر فیصل صالح حیات وغیرہ جنرل مشرف ہی کے وزیر بھی بن گئے۔

2008ء کے انتخابات کے بعد بھی اپنی جگہ قائم رہنے والے کارخانۂ احتساب سے خیر کی اُمید تو ویسے بھی نہیں رکھنا چاہیے تھی۔ مگر چند ماہ پہلے جب ایڈمرل (ریٹائرڈ) فصیح بخاری چیئرمین نیب ہوئے تو میں کچھ اور سوچنے پر مجبور ہو گیا۔

بخاری صاحب نے جنرل مشرف کو کا رگل جانے پر لاہور کے گورنر ہائوس میں بلائی گئی ایک میٹنگ میں زور دار الفاظ سے لتاڑا تھا۔ مگر جب نواز شریف نے اسی مشرف کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بھی بنا دیا تو بخاری صاحب نے استعفیٰ دے دیا۔ مجھے فخر ہے کہ ایڈمرل بخاری نے اپنے استعفیٰ کی خبر اور اس کی کاپی مجھے خود بلا کر دی اور میرا ایک دھانسو قسم کا Exclusive بنوایا۔ جنرل مشرف کے آخری دنوں میں وہ ایک بار پھر عدلیہ کی آزادی کے لیے چلائی جانے والی تحریک میں نمایاں طور پر مارچ کرتے نظر آئے۔

میرے بہت سارے ساتھی اپنی تحریروں کے ذریعے مگر تواتر کے ساتھ لکھتے رہتے ہیں کہ بخاری صاحب اتنے اصول پسند اور پاک باز نہیں جتنی ان کی شہرت ہے۔ بڑے لوگوں کے بارے میں اچھی اور بُری باتیں تو ہوتی رہتی ہیں۔ مگر اب سپریم کورٹ نے باقاعدہ طور پر دریافت کر لیا ہے کہ فصیح بخاری کی سرپرستی میں چلایا جانے والا یہ ادارہ تو کسی کے اشاروں پر ناچتا ہے۔ اس ادارے کو ارسلان افتخار صاحب کے اوپر لگائے گئے الزامات کی چھان بین سے روک دیا گیا ہے۔ میری شدید خواہش ہے کہ فصیح بخاری اگر ویسے ہی ہیں جو میں سوچتا ہوں تو انھیں جمعرات کے فیصلے کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر گھر چلے جانا چاہیے۔

سیدھی سی بات ہے جس ادارے کو سپریم کورٹ اس قابل نہ سمجھے کہ وہ ارسلان افتخار صاحب پر لگائے جانے والے الزامات کا ثبوت یا عدم ثبوت فراہم کر سکے، اس ادارے کو یہ حق بھی نہیں کہ وہ پاکستان کے دوسرے شہریوں سے خواہ وہ کتنے ہی کمزور اور بے حیثیت کیوں نہ ہوں کرپشن کے نام پر سوالات کر سکے۔ انصاف سب کے لیے برابر ہوتا ہے۔ ہمارا آئین اور قانون بھی پاکستان کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق دیتے ہیں۔ جمعرات کے فیصلے کے بعد احتساب کے زیر تفتیش ہر ملزم کا یہ حق بن گیا ہے کہ وہ اپنے معاملات کسی اور کے ذریعے طے کرانے کی درخواستیں دائر کر کے اس نا اہل اور بے وقار ادارے سے اپنی جان چھڑائیں۔

یہ کالم لکھتے ہوئے اس پیرے تک پہنچنے سے پہلے مجھے تین فون آ چکے ہیں۔ میں فون کرنے والوں کے نام نہیں لکھ سکتا نہ ہی کرپشن کے ان الزامات کا تذکرہ جو ان لوگوں کے اوپر لگا کر احتساب والے انھیں اپنے دفاتر میں بلا رہے ہیں۔ اشارہ صرف اتنا کرنا ہے کہ ان میں سے دو لوگ بڑے نام والی کمپنیوں کے سرکردہ تھے۔ احتساب بیورو ان سے کسی ٹیکس کے نام پر اربوں روپے وصول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ لیت ولعل سے کام لے رہے تھے۔ افتخار ارسلان کے معاملے میں جمعرات کا فیصلہ آنے کے بعد ان کا کام آسان ہو گیا ہے۔ میں سوائے انھیں مبارک دینے کے اور کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔