دَھرنے سے جُڑی کچھ یادیں

جاوید چوہدری  بدھ 16 اکتوبر 2019
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

جُو ںجُوں مولانا کا دھرنا قریب آرہا ہے کپتان صاحب اور علامّہ صاحب کے دھرنے کی یادیں تازہ ہو رہی ہیں۔ کپتان صاحب وزیراعظم بن چکے ہیں اور اب وہ اپنی بہت سی پرانی باتوں، تقریروں اور کاموں کو خود بھی بھلا دینا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ عوام بھی انھیں بھول جائیں مگر میڈیا شرارت سے باز نہیں آتا، میڈیا کے منکر نکیر وزیراعظم صاحب کی ایسی ایسی باتیں اور تقریر یں نکال کر لے آتے ہیں اور پھر اسطرح ساری دنیا کو سنانا شروع کر دیتے ہیں کہ انھیں سنکر وزیراعظم صاحب بھی سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہوںگے اورکہتے ہوںگے کہ بھا ئی میں نے ایسی بات کہہ ہی دی تھی تواسے بھول جاؤ اور آج اس کا ڈھنڈورا پیٹ کر اور سب کو دکھا اور سنا کر مجھے اور میرے وزیروں کو embarrassمت کرو۔ لیکن میڈیا اس طرح کی چھوٹی موٹی گستاخیا ں کرتا رہتا ہے کیونکہ ایسی حرکتیں اس کی بقاء اور نشوونما کے لیے ضروری ہیں۔

چند چینل جہاں ایک طرف مولانافضل الرحمان کے احتجاج اور دھرنے کے خلاف وزراء اور خود وزیرِاعظم کے بیانات نشر کرتے ہیں توساتھ ہی بالکل اِسی طرح کے دھرنے کی تعریف و توصیف میں عمران خان صاحب کی جوش و ولولے سے بھرپورتقریریں بھی سنا دیتے ہیں، جنمیں وہ عوام کو دھرنے کی فیوض وبرکات سے آگاہ کررہے ہوتے ہیں، جنھیں دیکھ کر وزراء یقیناً شرمندہ ہوتے ہوںگے مگر عوام اس سے لطف اٹھاتے ہیں ۔ ویسے بھی نئے پاکستان والوں نے عوام کا جینا جس طرح دُوبھر کیا ہے اور ان کی زندگی سے لطف و سرور چھین لیا ہے۔ کہ وہ بیچارے اب اسطرح کی چیزوں سے دل بہلا سکتے ہیں ۔

یادش بخیر 2014 کا دھرنا شروع ہو ا تواُس وقت کی صوبائی حکومت کے نا اہل مشیر آج کے مشیروں کی طرح متحّرک ہوگئے اور انھوں نے حکمرانوں کے کانوں میں ایسے ایسے نسخے انڈیلنا شروع کیے کہ بعض نسخوں اور ٹوٹکوں پرتو خود حکمران انھیں برا بھلا کہنے پر مجبو رہوگئے کہ ’’ احتجا ج روکنے کا یہ کیا واہیات حل بتا رہے ہو جو قابلِ عمل ہی نہیں ‘‘۔

چور سپاہی کے اس کھیل میں لوہے کی شام چڑھے ڈنڈے کے ساتھ ساتھ کنٹینر کا رول بھی بڑا اہم ہوگیا ہے، اسلام آباد میں سیکیورٹی کے واحد انچارج وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان مدظلہ تھے جو اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتے تھے۔  قارئین کو یاد ہوگا کہ اُدھر پنجاب کی تمام شاہراہوں کو اور اِدھر اسلام آباد میں ڈی چوک اور شاہرہِ دستور کیطرف جانے والی سڑکوں کو کنٹینروں سے بند کر دیا گیا۔ حتّٰی کی لاہور کے قریب دریائے راوی کا پل بھی کنٹینروں سے بند کر دیا گیا جس سے ایک طرف شہریانِ لاہور محصور ہو کر رہ گئے اور دوسری طرف کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں باہر سے کوئی طالب علم ، مریض یا کوئی بھی شخص کسی قریبی عزیز کی وفات پر بھی لاہور پہنچنے میں کامیاب نہ ہو سکتا تھا۔

راقم اُن دنوں موٹر وے پولیس کا آئی جی تھا، شام کو گھر پہنچ کر ٹی وی آن کیا تو کسی چینل پر دکھایا جا رہا تھا کہ مسافر اور عام شہر ی کس طرح مشکلات کا شکا رہو گئے ہیںوہ انتہائی ناگہانی صورتِ حال میں بھی لاہور پہنچنے سے قاصر تھے، اسی دوران لائیو فوٹیج دکھا ئی گئی کہ ایک عمر رسیدہ اور قدرے فربہ عورت اپنی بچّی کے ہمراہ کنٹینر کے نیچے سے پیٹ کے بل رینگتی ہوئی دوسری جانب پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔وہ ایک دو مرتبہ پھنس گئی، پھر وہ زور لگا کر تھوڑا سا آگے کھسکنے میں کا میاب ہوئی، اس دوران بّچی مسلسل روتی رہی ، سارا منظر دیکھ کر بڑا دکھ ہوا ، دل بہت خراب ہوا اور میں سوچنے لگا کہ حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کرکے شہریوں سے کتنی بد دعائیں لی ہوںگی اور اس سے حکومت کی ساکھ کس قدر مجروح ہوئی ہوگی۔

اس کے چند منٹ بعد میرے فون پر گھنٹی بجی، میں نے فون آن کیا تو کوئی شخص پوچھنے لگا، ہم فیصل آباد سے کسی مریض کو لے کر لاہور جارہے ہیں، کیا موٹروے کھلی ہے یا وہ بھی بند کر دی گئی ہے؟ میںنے اسے یقین دلایا کہ موٹروے کھلی ہے اور وہ مریض لے کر لاہور جاسکتے ہیں، اس کے کچھ دیر بعد پھر کسی کا فون آیا ’’ہم راولپنڈی سے ایک قریبی عزیر کی وفات کے سلسلے میں لاہور جارہے ہیں جی ٹی روڈ تو بند ہے ہم موٹروے سے جاسکتے ہیں ؟‘‘۔ میں نے اسے بھی یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ’’موٹر و ے اس ملک کی لائف لائن ہے۔

یہ کھلی ہوئی ہے اور انشاء اﷲ ہمیشہ کھلی رہے گی‘‘ اور بھی کئی کالز آئیں اور میں نے سب کو یہی جواب دیا ، کالرز میں سے غالباً کوئی صحافی بھی ہوگا جس نے میرے حوالے سے کچھ ٹی وی چینلوں پر خبر چلوادی کہ آئی جی موٹروے نے کہا ہے کہ ’’کچھ بھی ہو موٹروے کھلی رہیگی‘‘۔  12اگست کو مجھے دانت میں درد محسوس ہوا تو سہ پہر تین بجے کے قریب میں نے دفتر سے نکل کر ڈاکٹر کے کلینک کا رخ کیا ابھی تھوڑی دور ہی گیاتھا کہ پرنسپل سیکریٹری ٹوپرائم منسٹر(جو ریٹائرڈ ہو کر غالباً بیرون ملک جا چکے ہیں) کا فون آگیا ’’آپ فوری طور پر پی ایم ہاؤس پہنچیں اور آکر مجھے ملیں‘‘ میں نے ڈرائیور کو گاڑی کی مہاریں موڑنے کی ہدایت کی پرنسپل سیکریٹری کے دفتر میں پہنچا تو وہ غُصّے سے پھنکار رہے تھے۔

جاتے ہی کہنے لگے ’’ موٹر وے کیوں بند نہیں ہوئی ؟‘‘ میں نے کہا ’’کچھ ملحقہ ضلعوں کے ڈی پی اوز اور ڈی سی اوز نے بند کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی مگر ہم ان کے کہنے پر تو بند نہیں کرسکتے، پرائم منسٹر (جو ہمارے محکمے کے وزیر ہیں) کا کوئی واضح حکم نہیں ملااس لیے ہم موٹروے کیوں بند کرتے ‘‘۔ موصوف کچھ دھیمے پڑے مگر وہ پھر پینترا بدل کر حملہ آور ہوئے ’’ آپ نے بیان دیا ہے کہ موٹروے کو کوئی بند نہیںکرسکتا اور یہ کھلی رہے گی آپ یہ کا بیان موجودہ حالات میں حکومت کی پالیسی کے منافی ہے۔

اس سلسلے میں کل لاہور میںایک اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوئی تھی جس میں وزیرِداخلہ اور کچھ اور وزراء نے پرائم منسٹر صاحب کو آپ کی شکایت کی ہے، جس پر پرائم منسٹر صاحب سخت ناراض ہوئے ہیں اور انھوں نے مجھے ہدایت کی ہے کہ آپ سے وضاحت طلب کی جائے ‘‘ میں نے کہا کہ ’’میں اپنی وضاحت پرائم منسٹر صاحب کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا ، لہٰذا آپ وزیراعظم صاحب سے کہیں کہ وہ مجھے وقت دیں تاکہ میں اپنا موقّف پیش کر سکوں‘‘ ۔ پرنسپل سیکریٹری وزیراعظم کو صورتِ حال بتانے ان کے آفس (جو تین چار قدم کے فاصلے پر تھا ) چلے گئے ۔وزیرِ اعظم صاحب نے بھی ’’ملزم‘‘ کی معروضات بذاتِ خود سننے پر آمادگی ظاہر کی اور مجھے وزیرِ اعظم کے دفتر میں طلب کر لیا گیا۔

پرائم منسٹر نواز شریف صاحب کے سامنے بھی میں نے یہی گذارش کی کہ ’’ جناب، شہریوں کو بڑی تکلیف کا سامنا ہے، ان حالات میں موٹروے کسی صورت بند نہیں ہونی چاہیے۔ میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا‘‘ سر! میں تو یہ بھی گذارش کرونگا کہ آپ اپوزیشن کو جلوس لانے کی اجازت دے دیں،  وزیر داخلہ ان کے ساتھ جگہ اور رُوٹ کے بارے میں معاملات طے کرلیں‘‘۔ پرائم منسٹر نے کہا کہ ’’ اگر وہ پارلیمنٹ ہاؤس پر یا ایوانِ صدر یا پی ایم ہاؤس پر حملہ آور ہوں تو؟‘‘ میں نے کہا ’’سر ایک تو چند بلڈنگز کی سیکیورٹی پر رینجرز تعینات کیے جاسکتے ہیں، اور دوسرا اگر وہ حملہ آور ہونگے تو میڈیا ان چیزوں کی لائیو کوریج کررہا ہوگا۔

اُنکی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی‘‘وزیراعظم نے کہا ’’آپ کہتے ہیں رینجرز کو تعینات کیا جائے، یہ کام پولیس کیوں نہیں کر سکتی؟‘‘بات تو ٹھیک تھی، ہونا تو ایسے ہی چائیے تھا، اوراگر میں اسلام آباد پولیس کا سربراہ ہوتا تو پولیس کے ذریعے ہی کنٹرول کر تامگر میں نے کہا’’سر! پولیس کی Capacity  کے بڑے مسائل ہیں جن پر کبھی توجہ نہیں دی گئی ۔ اور پھر رینجرز تو فوج ہے جسے دیکھ کر مظاہرین ڈر سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں‘‘ اسی دوران وزیرِ داخلہ سمیت کچھ وزرا اور مشیران کمرے میں داخل ہوئے ان میں سے ایک صاحب نے آتے ہی کہا ’’سر آپ نے آج ٹی وی پرجو تقریر کرنی ہے وہ دیکھ لیں ، وزیراعظم اب میری طلبی کو بھول کر تقریر کی جانب متوجہ ہوگئے مگر انھوں نے مجھے بھی وہیں بیٹھنے اور تقریر سننے کی ہدایت کی ۔نواز شریف صاحب تقریر پر مسلسل کمنٹس دیتے رہے لہٰذا کئی الفاظ اور پَیر ے تبدیل کیے گئے۔

تقریر میں اپوزیشن کو اسلام آباد آنے کی اجازت کا کوئی ذکر نہ تھا۔ تقریر پر اکا دکا تعر یفی تبصرے ہوئے۔ کچھ توقف کے بعد راقم نے بات کرنے کی اجازت طلب کی، وزیراعظم نے اجازت دی تو میں نے کہا ’’سر یہ تقریر وزیرِ داخلہ کوتو جچتی ہے مگر اِن حالات میں آپ کا خطاب ایک مدبّر statesman) ( والا ہونا چائیے ، آپ اعلان کریں کہ میں اپوزیشن کے جلوس کو اسلام آباد آنے کی اجازت دے رہا ہوں، ہم تمام رکاوٹیں ہٹا رہے ہیں مجھے امید ہے کہ وہ بھی ذمّے دار اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے اور ملکی قانون اور آئین کا پورا احترام کریں گے اور لاقانونیت اور تشدد کا راستہ اختیار نہیںکریں گے۔

میرے ناخوشگوار تبصرے پر تمام وزراء خاموش رہے، پرائم منسٹرصاحب نے بھی کوئی ردّ ِ عمل نہ دیا ۔ اور پھر اسی دوران ٹی وی کی ٹیم کمرے میں داخل ہوئی اور ہم باہر نکل گئے۔ بہرحال موٹروے کھلی رہی اور اﷲ کر ے ہمیشہ کھلی رہے ۔اس کے چند روز بعد ٹی وی پر دیکھا کہ خان صاحب اور علامّہ صاحب اپنے ورکروں کو پارلیمنٹ اور پرائم منسٹر ہاؤس پر حملہ کرنے کے لیے اکسا رہے ہیںاُس وقت نہ کہیں وزیرِ داخلہ نظر آئے،نہ ان کا سیکیورٹی پلان اور نہ رینجرز نظر آئے، جسطرح پارلیمنٹ ہاؤس اور سپریم کورٹ جیسے قومی اداروں کی توہین کی گئی اُسپر دل خون کے آنسو روتا رہا ۔کچھ لوگوں کی اناؤں اور سازشوں نے وطنِ عزیز کو دنیا بھر میں رسوا کیا۔ اﷲ کرے اب اَیسا نہ ہو۔ اﷲ تعالیٰ پاکستا ن کی حفاظت فرمائیں۔

جہاں تک مولانا کا مارچ روکنے والوں کا تعلق ہے، تو پولیس بددل ہے اور اس کی لیڈر شپ کمزور اور خوفزدہ ۔ مذہبی جوش و جذبے والے جوشیلے ورکروں کی یلغار روکنے کا پولیس میں کوئی دم خم نہیں ہے، ہاں اسلام آباد پولیس نے دھرنا روکنے کے لیے بیس ہزار کی نفری اور پچیّس کروڑ کی رقم مانگ لی ہے، اس سے آدھی رقم بھی مل گئی تو دھرنے کی برکت سے کچھ سینئر پولیس افسروں کی معیشت مزید مستحکم ہونے کے روشن اور قوی امکانات ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔