- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
ننانوے فیصد بے عمل لوگ
ہمارا معاشرہ جو کہ ماشااللہ سے ہر فن مولا افراد سے بھرا پڑا ہے، ہر مرض کی دوا، ہر مسئلے کا حل تقریباً ہر شخص، یا یوں کہنا زیادہ بجا ہوگا کہ ننانوے فیصد افراد کے پاس 24/7 موجود رہتا ہے اور عقل کل اشخاص کی تو کہیں پر بھی کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ اس تمام تر صورتحال کے باوجود جب اپنے معاشرے میں مشرق سے لے کر مغرب تک اور جنوب سے شمال کی طرف جھانکتا ہوں تو پورا سماج، پورا معاشرہ مسائل کے دلدل میں پھنسا نظر آتا۔ دیگر الفاظ میں آوے کا آوا بگڑا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
تمام اگلے پچھلے سروے کے اعداد و شمار اٹھا کر دیکھیں تو میرے ملک کے ننانوے فیصد افراد مذہبی خیالات رکھتے ہیں مگر مذہب میں ایک مثالی طرز حیات کے وضع کیے گئے رہنما اصول کہیں پر بھی نظر نہیں آتے۔ اخلاقیات ایک نایاب چیز کے مانند ناپید ہوتی جارہی ہے۔ برداشت انتہائی نچلی سطح پر آپہنچی ہے کہ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں، جبکہ حقوق العباد کو صرف رمضان المبارک کے مہینے تک محدود کردیا گیا ہے۔
کہتے ہیں ہماری پاکستانی قوم بہت دیالو (سخی) بھی ہے اور تمام فلاحی اداروں کو ہر سال کروڑوں، اربوں روپے کے حساب سے فنڈز ملتے ہیں، مگر صد افسوس کہ اسی معاشرے میں ان ہی امیر لوگوں کے آس پڑوس میں بسنے والے لوگ بدترین مسائل میں گھرے اور قابل رحم زندگی بسر کرتے نظر آتے ہیں۔ کوئی بھی ان نادار لوگوں کا پرسان حال نہیں۔
ہمارے معاشرے میں ننانوے فیصد لوگ عقل کل ہونے کے دعوے اور ’میں نہ مانوں‘ کی بیماری میں مبتلا نظر آتے ہیں، جن کے ساتھ اگر کسی بات، معاملہ یا مسئلے پر اختلاف رائے رکھا جائے یا اصولی اختلاف کا اظہار کیا جائے تو ایسے لوگ بات کو مستقل دشمنی تک لے جانے سے بھی گریز نہیں کرتے اور اپنی من گھڑت یا بے بنیاد بات کو سچ ثابت کرنے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔
یہی ننانوے فیصد افراد مذہب پرست ہیں، مذہب پر جان نچھاور کرتے نظر آتے ہیں، مگر اس کے باوجود معاشرہ اخلاقیات سے مکمل طور پر عاری، جھوٹ، فریب، دھوکا دہی، مکاری، رشوت، ظلم و ستم، جبر، ناانصافی کا مجموعہ بنا ہوا ہے۔ دوسروں کا مال ہڑپ کرنا ہمارے (عظیم اسلامی) معاشرے میں ایک معمولی سی بات تصور کی جاتی ہے۔ تمام عمر رشوت اور حرام خوری کرکے بڑی بڑی جائیدادیں اور عمارتیں بنا کر اوپر لکھ دیا جاتا ہے ’ہٰذا من فضل ربی‘ یا عمر آخر میں ایک سے زائد مرتبہ عمرہ و حج کرکے سمجھا جاتا ہے کہ بخشش ہوجائے گی۔
افسوس کہ مملکت خداداد پاکستان میں حقوق العباد کی کوئی اہمیت نہیں رہی، جبکہ خود خدا یہ کہہ رہا ہے کہ حقوق اللہ کی معافی ملنا ممکن ہے پر حقوق العباد کے حوالے سے وہ ذات بھی معاف نہیں کرے گی۔ میں کبھی کبھی مخدوش صورتحال دیکھ کر حیرت کے جزیروں میں غرق ہوجاتا ہوں کہ آخر کیوں ہمارا معاشرہ اس حد تک گرچکا ہے کہ چاروں طرف اسلام کی بات ہوتی ہے مگر اسلامی معاشرتی اقدار کہیں نظر نہیں آتیں۔ لوگ صوم و صلوٰۃ کے پابند مگر خوش اخلاقی سے کوسوں دور۔ جھوٹ بول کر اپنا دھندا اور کاروبار چمکانا جائز تصور کیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک کے مقدس مہیںے میں ہر وہ چیز مہنگی کردی جاتی ہے جس کا سحری و افطاری میں استعمال بڑھ جاتا ہے۔ کیا مذہب اس کی اجازت دیتا ہے؟
سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر ہمارا نام نہاد عظیم مذہبی معاشرہ جا کہاں رہا ہے؟ جس معاشرے میں نہ برداشت ہے، نہ ایمانداری نظر آتی ہے، نہ سچائی کی صدا بلند ہوتی ہے اور نہ ہی اجتماعیت کا فائدہ دیکھا جاتا ہے۔ تقسیم در تقسیم کا عمل بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ کہیں مذہب تو کہیں فرقہ، کہیں ذات پات تو کہیں برادری و قبیلے کے بنیاد پر۔ مطلب یہ کہ بظاہر یہ معاشرہ حاجیوں، نمازیوں، ایمانداروں سے بھرا پڑا ہے مگر اس کے باوجود تلخ حقیقت یہی ہے کہ مجموعی طور اخلاقی پستی اور زوال کا شکار ہوگیا ہے۔ کہیں پر بھی حقیقی انسانی معاشرہ قائم نہیں ہوسکا۔ 72 برس کا عرصہ بیت گیا مگر نہ اسلامی معاشرہ قائم ہوسکا اور نہ ہی آئیڈیل ادارے بن سکے۔
ہماری اجتماعی منافقت، بے ایمانی اور ناانصافی پر مبنی سوچ کے باعث پاکستانی معاشرہ ایک گھنے جنگل میں تبدیل ہوتا جارہا ہے، جہاں کوئی قانون نہیں اور لاقانونیت کا راج نافذ ہو، جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قاعدہ چل رہا ہو۔ پتا نہیں کب سمجھیں گے عوام کہ آئیڈیل معاشرہ ایک دوسرے کا حق کھا کر، ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھال کر یا صرف حقوق اللہ کو پورا کرنے سے قائم نہیں ہوتا بلکہ حقوق العباد پر عمل بھی لازمی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔