ہندسہ۔جوکبھی انسان تھا

سعد اللہ جان برق  جمعرات 17 اکتوبر 2019
barq@email.com

[email protected]

ہم اس وقت ایک ایسے نام کی تلاش میں تھے جو ہندسہ بن چکا تھا اور ع

تمام شہر ہی اس کی تلاش میں ’’گم‘‘تھا

ہم اس کے گھر کا پتہ کس سے پوچھتے یارو

فرق صرف اتنا تھا کہ تمام شہر۔اس کی نہیں بلکہ اپنی تلاش میں ’’گم‘‘تھا اس شہر کا نام ویسے تو ’’حیات آباد‘‘ہے لیکن ساری نشانیاں’’ممات آباد‘‘ کی ہیں۔ یہ نئے دور کا نیا نو یلا اور بیسٹ ماڈل کا ’’شہرناپرساں‘‘یا ’’شہرگم‘‘ہے۔کہ اس میں کہیں بھی کسی بھی چیز کا پرساں نہیں سارے لوگ سوری  ’’ہندسے‘‘ایک دوسرے سے ’’ناپرساں‘‘انجان اور بے جان وپہچان ہیں۔

اور ہم اس شہر ’’گم‘‘میں ایک ایسے آدمی۔مطلب یہ ’’نمبر اور عدد‘‘بننے سے پہلے وہ آدمی ہی تھا بلکہ پروفیسر بھی تھا ’’نصیرالدین‘‘  بھی تھا۔غالب بھی تھا اور تاجک بھی ۔ساتھ ہی شاعر وادیب محقق مورخ اور ماہرلسانیات بھی تھا۔لیکن اب یہ سب کچھ سمٹ کر فیز نمبر تین سیکٹر نمبر چار اور ’’510‘‘بن گیاتھا۔یہی پتہ انھوں نے آخری بار ہمیں دیاتھا، بیس تیس سال سے دوست تھا، آشناتھا ہم خیال وہم نشست تھا لیکن آج وہ صرف(510) تھا ان کی وفات کی خبر دو مہینے بعد ایک مجلے میں ان پر لکھے گئے مضمون سے ملی تو لواحقین کی تلاش میں نکلے کہ تعزیت کا حق ان کا ہم پر بنتا تھا۔وفات کی خبر اخبار میں آئی نہیں تھی اور انٹرنیٹ سے ہم واقف نہیں، بعد میںپتہ چلا کہ انٹرنیٹ پر بھی نہیں آئی حالانکہ اس کا اپنا بیٹا کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کررہا ہے۔

پہلے ایک دو مرتبہ اس شہر میںآدمیوں کی تلاش کرکے خوار ہوئے تھے، اس لیے آج ہم فیز تھری سیکٹر چار نمبر(510) سے صلح ہوکر آئے تھے لیکن پھر بھی یہ مسئلہ اعداد ہندسوں اور نمبروں کا تھا جس کے لیے انسان ہونا ضروری نہیں جتنا ریاضی دان ہونا ضروری ہے لیکن ہم ریاضی دان تو کیا حساب دان ایسا کچھ’’دان‘‘ نہیں تھے۔اس شہر نا پرساں میں نہ صرف یہ کہ ہندسے رہتے ہیں، بستے ہیں، چلتے پھرتے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے ہیں بلکہ ان تمام ہندسوں کا آپس میں کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا۔ٹھیک ہے ایک کے بعد دو اور تین ہوتے ہیں لیکن نہ ایک دو کو جانتاہے نہ تین کو اور تین بھی نہ دو سے واقف ہے نہ تین سے۔کیونکہ ہندسوں اور اعداد کی خاصیت ہی ایک دوسرے سے الگ ہونا ہوتی ہے۔

یہ عیب تو ناموں اور الفاظ یا حروف میں ہوتاہے کہ ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں چنانچہ کسی بھی ہندسے یا عدد سے دوسرے کے بارے میں پوچھیے تو نہیں جانتا۔  ہمارے ہاں معروف طریقہ توکسی سے پوچھنے کاہے لیکن وہ یہاں ناکام ہے، سڑکوں چوراہوں یا فٹ پاتھوں پرنظر آئے۔تو اس سے پوچھنے پرصرف ایک ہی جواب ملتاہے جو شاید سرکاری طور پر یہاں کے لیے منظور اور جاری ہوا ہے۔میں تونیا ہوں یا مہمان ہوں یا فلاں ہوں اس لیے آگے کسی اور سے پوچھ لو۔اس طرح آٹھ دس ’’کسی اور‘‘سے پوچھنے پر فیز کا پتہ تو لگالیا، اب سیکٹر کا مرحلہ تھا، ڈھونڈتے رہے پوچھتے رہے گلیوں کے سروں پر لگے ہوئے بورڈ پڑھتے اور کسی اور کسی اور کی طرف بڑھتے رہے، قسمت نے تھوڑی سی مروت دکھائی، تمام بندگیٹوں میں ایک گیٹ کے آگے دو ریٹائرڈ قسم کے ہندسے بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔

یہ ہمارا کوئی بارہواں ’’کسی اور‘‘ تھا اور ان ہندسوں میں شاید ناموں اور انسانوں کی تھوڑی سی ’’خرمن‘‘باقی تھی چنانچہ انھوں نے سمجھایا کہ صرف سیکٹر چار سے کام چلنے والا نہیں بلکہ اس کے ساتھ اے بی سی یا ایکس وائی زیڈ کا لاحقہ بھی ہونا چاہیے۔تو ہمیں معلوم ہی نہ تھا کیونکہ مرحوم نے صرف سیکٹر چار ہی بتایاتھا، اس بات کا نہ ہمیں پتہ تھا اور نہ ہی ان دو’’نیم انسان نیم اعداد‘‘کوپتہ تھا کہ جب 510 ہے تو گلی اسٹریٹ یا الفابیٹ کی کیا ضرورت ہے لیکن ہمیں توان ہندسوں یا نیم انسانوں یا تیرہویں ’’کسی اور‘‘نے الفابیٹ کے گورکھ دھندے میں الجھا دیا تھا چنانچہ ایک جگہ ایک درخت کے سائے میں گاڑی رکوا کرٹیلی فون کھڑکانا شروع کردیے۔

گویا ہندسوں اور اعداد کی ایک اور دنیا۔ بارے وہاں سے ایک نمبر ملا کہ یہ ان کے بیٹے کاہے، خوشی سے پھول گئے لیکن ملایا تو سوری یہ نمبر بند ہے۔ یاخدا۔یہ کس ’’بندوبست‘‘میں پھنس گئے، ہر طرف بند ہی بند، اتنا بند تو لاہور کا ’’بند‘‘روڈ بھی نہیں ہے۔ گلیوں گھومتے رہے، آخرکار ایک دروازے پر (513) لکھائی دیکھا توخوش ہوگئے کہ بس دو چار ہی قدم لب بام رہ گئے۔ 513سے پوچھا تو اس نے بھی صرف اتنا بتایا کہ ہمارا تو 513ہے، یہیں کہیں اس گلی یا اس گلی کے آگے پیچھے یادائیں بائیں کہیں ہوگا۔

کسی اور سے پوچھ لو۔پھر سے کسی اور اس بلاک کے چاروں طرف جتنے بھی بلاک تھے وہ کسی بھی کسی اور  نے سوائے اس کے کچھ نہیں بتایا کہ کسی اور سے پوچھ لو۔گھومتے گھومتے پھر 513 پر آئے شاید ہماری قسمت پر رحم کا کوئی چھینٹا پڑگیاتھا۔کہ ایک پندرہ سولہ سال کا لڑکا ملا جو شاید ابھی ہندسہ نہیں بنا تھا۔ اس نے تفصیل پوچھی۔ ہم نے بتائی تو بولا،وہ اسی سال کا بوڑھا جومراتھا یہی تو اس کا گھر۔اس نے 513کے سامنے والے دروازے کی طرف اشارہ کیا اور وہی نکلا بھی جس کے آگے ہم آدھا گھنٹہ اسی گلی کے ہندسوں سے پوچھتے رہے تھے۔باقی سب کچھ توہوگیا لیکن یہ بات ابھی تک ہمارے ذہن میں گرم سلاخ کی طرح اندر باہر ہورہی ہے کہ ’’انسان‘‘جب نام سے ہندسے اور نمبر بنتے ہیں تو یہ کتنا بڑا المیہ ہوتاہے

’’گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے‘‘۔کیا یہی ترقی کی معراج ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔