جنگ کے شیطان اور امن کے دیوتا

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 17 اکتوبر 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

قوموں کے درمیان تنازعات کی تاریخ میں افغانستان ایک واحد تنازعہ ہے کہ عشرے گزرنے کے بعد بھی ہنوز اول رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب سرسری نہیں دیا جاسکتا، اس ملک کی پوری تاریخ خاص طور پر طالبان کی تاریخ کو سامنے رکھ کر اس ملک کے تنازعات حل کرنے کی کوشش کرنا پڑے گی۔

حالیہ تاریخ افغانستان اور امریکا کے تنازعات اور فسادات کی تاریخ ہے۔ افغانستان کی تنازعات کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ ہے، جس کی ابتدا امریکا اور طالبان کی مناشقت سے ہوتی ہے۔ اس سیریز کے بعد بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوا ہے کہ طالبان افغانستان کی لڑائی کا طویل سلسلہ شروع ہوا۔

جب روس نے افغانستان میں انٹری دی تو یہ مسئلہ شدید الجھ گیا اور سب سے بڑی بات یہ ہوئی کہ امریکا اس لڑائی کا باضابطہ پارٹنر بن گیا یہ صورتحال طویل عرصے چلی مغربی ملکوں خصوصاً امریکا کا سامنا طویل عرصے تک رہا کہا جاتا ہے، اس لڑائی میں افغانستان اور پاکستان آمنے سامنے رہے اور پاکستان کو بڑے مالی اور جوانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان اس لڑائی میں مفت کا شکار ہوتا رہا، سامراجی سرکاری پالیسی یہ رہی کہ وہ خود تو اس لڑائی سے دور رہا، پاکستان کو اس لڑائی میں ملوث کر دیا۔ اس حوالے سے دوسرا المیہ یہ ہے کہ پاکستان جو اس لڑائی میں براہ راست ملوث نہ تھا ، اسے بہت بڑے جانی نقصان کے علاوہ مالی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ امریکا کے صدر نے اس لڑائی کو اینٹی ٹیررسٹ لڑائی میں بدل دیا اور پاکستان کو ناحق اس میں شامل کرکے نقصان پہنچا دیا ہے۔

امریکا کے سابق صدر جارج بش نے اس لڑائی میں غیر متعلق افراد کو شریک کرکے اس میں پاکستان جیسے لڑائی سے دور ملک کو گھسیٹ لیا ، اصل مسئلہ افغانستان میں روس کی آمد سے شروع ہوا تھا ، امریکا نہیں چاہتا تھا کہ روس  کامیاب ہو، لہذا اس نے سی آئی اے کے ذریعے اپنی سازشوں کا جال بچھایا۔ امریکا افغانستان سے ہزاروں میل دور تھا اور لڑائی افغانستان میں لڑی جا رہی تھی امریکا کی یہ کوشش تھی کہ افغانستان کے پہلے حصے میں امریکی فوجیں امریکا میں رہیں نہ براہ راست جنگ میں شریک ہوں۔

اس سیاسی حکمت عملی کا ابتدا میں فائدہ ہوا لیکن جب امریکا پراپر وے میں افغان وار کا حصہ بنا تو وہ جن نقصانات سے بچنا چاہ رہا تھا آخر ان نقصانات کا اسے سامنا کرنا پڑا۔ سیکڑوں سپاہیوں کے علاوہ اربوں ڈالر کا نقصان ہوا چونکہ امریکا جنگ کا فریق تھا یا بن گیا تھا لہٰذا سیکڑوںامریکی سپاہیوں کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالر کا نقصان بھی ہوا۔

افغان وارکا دوسرا متاثر پاکستان تھا جسے بھاری جانی نقصان کے علاوہ مالی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اور ہزاروں بے گناہ لوگ بھی اس زبردستی کی لڑائی میں جان سے گئے ،کیا یہ افیکٹیو پالیسی تھی یا گھاس کھودا گیا تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان کو تو دہشت گردی کی اس نام نہاد جنگ میں گھسیٹ لیا گیا لیکن پیچھے رہ کر آگے کے کام کرنے والے بھارت کا کوئی نقصان نہ ہوا۔ اس کے برخلاف افغانستان کے بڑے بڑے پروجیکٹ ہندوستان کو ملتے رہے۔

اگر مفکرین اس پوری افغان جنگ کا آؤٹ کم دیکھیں تو یہ ماننا پڑتا ہے کہ ہم سے بڑا گدھا کوئی نہیں۔ بھارتی سیاستدانوں کا کمال ہے کہ وہ جنگوں کے اہم پیش رو تو بنے رہتے ہیں لیکن ان کے نقصانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔افغانستان کے زعما کو رک کر یہ سوچنا چاہیے کہ یہ جنگیں کیوں لڑی جاتی ہیں اور لڑی جا رہی ہیں۔

انسان دنیا میں جہاں کہیں بھی ہے وہ انسان کا بچہ ہے اس کی جبلت انسان کی ہے وہ فطرتاً لڑاکو نہیں ہوتا بلکہ امن پسند ہوتا ہے۔انسان دنیا کے جس حصے میں ہے غربت و افلاس کے ماحول میں ہوتا ہے جنگلوں اور دیہی علاقوں میں رہنے والوں کو نہ افلاس کا پتا ہوتا ہے نہ بھوک کا وہ روٹی نہ ملے تو صبر کرتے ہیں اگر بھوکا انسان روٹی چھیننے لگے تو معاشرے کا کیا ہوگا، انسان کا کیا ہوگا؟

جنگوں کے کلچر نے انسان کو اور زبوں حال بنادیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگوں کے فیصلے کرنے والے چند مفاد پرست انسان ہوتے ہیں۔ عوام کا ایک بڑا حصہ امن پسند ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ لاکھوں کروڑوں امن پسند عوام کسی گنتی میں نہیں اور مٹھی بھر جنگ پسند صف اول میں رہتے ہیں جن کا ملک اور معاشرے میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنگ پسند صف اول میں کیوں ہوتے ہیں؟

اس حقیقت کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ معاشروں میں امن پسند عوام کی بھاری اکثریت بے اختیار کیوں ہے اور شرپسند اور فسادی لوگ سب سے آگے آگے کیوں ہیں۔ امن پسند اور محبت کرنے والوں کو پیچھے کیوں دھکیل دیا جاتا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے اسی سے معاشرے کی ساخت کا تعین ہوتا ہے جس معاشرے میں امن پسند عوام کی بالادستی ہو وہ معاشرے پرامن اور تعمیری ہوتے ہیں اور جو معاشرے امن شکن اور فسادی ہوتے ہیں وہاں نہ عوام شر پسند ہوتے ہیں نہ فسادی خواہ ان کا تعلق کسی ملک کسی معاشرے سے ہو۔

اصل مسئلہ کھیل کھلانے والوں کا ہوتا ہے عوام بنیادی طور پر امن پسند ہوتے ہیں اور ان کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہ امن اور آشتی کی زندگی گزاریں لیکن جنگ پسند اور ان کے چیلے چانٹے معاشرے میں امن کی فضا قائم رہنے نہیں دیتے۔بات دور تک چلی گئی ہے اور جنگ اور امن شکنی کی فضا امن اور امن کے پیروکاروں کے لیے سوٹ نہیں کرتی، ہم نے افغانستان کی جنگ اور امریکا کے کردار کا بھی جائزہ لیا۔

اس پورے مسئلے میں اندر کی اور بھید کی بات یہ ہے کہ دن رات فیکٹریاں اورکارخانے ہتھیار بنا رہے  ہیں تیار ہونے والے ہتھیاروں کی ضرورت جنگ ہے خواہ وہ دنیا کے کسی حصے میں ہو۔ ہتھیار ہوں گے تو جنگ کا سامان خود بخود تیار ہوتا ہے۔ افغانستان میں کون جنگ چاہتا ہے کیوں چاہتا ہے اس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں۔ جب جنگ پسندوں اور امن پسندوں کا تعین ہو جائے گا تو جنگ کے نام لیوا کا خاتمہ آسان ہوجائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔