یہ ہڑتالی کلچر

مزمل سہروردی  جمعرات 17 اکتوبر 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

اس وقت ملک بھر میں ڈاکٹروں کی ہڑتال کا موسم چل رہا ہے۔ بالخصوص تحریک انصاف کی حکومت والے صوبے پنجاب اور کے پی میں ڈاکٹروں کی ہڑتال عروج پر ہے۔ دونوں صوبوںمیں اسپتال بند ہیںاور میدان جنگ بنے ہوئے ہیں۔ مریض خوار ہو رہے ہیں۔ حکومت خاموش تماشائی ہے۔ اس معاملہ کا کسی کے پاس کوئی حل نظر نہیں آرہا۔

اس ہڑتال کا ایک دوسرا منظر بھی ہے۔ پنجاب اور کے پی میں ایک طرف سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی ہڑتالیں جاری ہیں۔ دوسری طرف پرائیویٹ اسپتالوں اور کلینک میں مریضوں کا رش کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ یہ ڈاکٹر جو ایک طرف سرکاری اسپتالوں میں نہایت جوش و خروش سے ہڑتال کرتے ہیں دوسری طرف پرائیویٹ اسپتالوں اور کلینک میں بڑی دل جمعی سے کام کرتے ہیں۔

ایک طرف مریضوں کو علاج کی سہولت سے انکار کرتے ہیں دوسری طرف مہنگے علاج کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوتے ہیں۔ اس لیے سرکاری اسپتالوں میں ہڑتالیں ایک طرح سے پرائیو یٹ اسپتالوںکی چاندی کا بھی باعث ہے۔ ان ہڑتالوں کا براہ راست فائدہ اس ان کو ہورہا ہے۔ انھیں عوام کو لوٹنے کا کھلے عام موقع ملتا ہے۔

میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ حکومت کو ایسی قانون سازی کرنی چاہیے جس کے تحت ڈاکٹروں کی ہڑتال جرم قرار دیا جائے تاکہ ہڑتالی ڈاکٹروں کے خلاف  قانونی کارروائی عمل میں آسکے۔میں یہ بات بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں ڈاکٹروں کے ساتھ وکلا کی ہڑتال کے بھی اسی طرح خلاف ہوں۔ جس طرح ڈاکٹروں کی ہڑتال سے لوگ علاج سے محروم ہو جاتے ہیں اسی طرح وکلا کی ہڑتال سے لوگ انصاف سے محروم ہو جاتے ہیں۔

جس طرح ڈاکٹروں کی ہڑتال سے علاج کی سہولت ختم ہو جاتی ہے اسی طرح وکلا کی ہڑتال سے انصاف کا حصول ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے جس طرح میں ڈاکٹروں کی ہڑتال کے لیے سخت قانون سازی کا مطالبہ کرتا ہوں اسی طرح وکلا کی ہڑتال کے خلاف بھی سخت قانون سازی ہونی چاہیے۔ کسی مہذب ملک میں اسپتالوں اور عدالتوں میں ہڑتال کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ بہر حال ڈاکٹر آج کل ایک نئے نظام کے خلاف ہڑتال کر رہے ہیں۔

جس کے تحت پنجاب کے سرکاری اسپتالوں کو چلانے کے لیے ایک نیا نظام وضع کیا جا رہا ہے۔ یہ نظام اچھا ہے کہ نہیں میں اس وقت اس بحث میں نہیں جانا چاہیے۔ لیکن کیا اس مجوزہ نظام کی وجہ سے ڈاکٹروں کی ہڑتال جائز ہے۔ یہ درست ہے کہ پنجاب میں اسپتالوں سے مفت علاج کی سہولت ختم کی جا رہی ہے۔ لیکن کیا یہ ہڑتال کی جائز وجہ ہے۔

میں مانتا ہوں کہ تحریک انصاف کی حکومت ابھی تک اسپتالوں کو بہتر کرنے کا کوئی اچھا نظام سامنے نہیں لا سکی ہے۔ لیکن پھر بھی اس بنیاد پر ہڑتال نہیں کی جا سکتی۔ مفت دوائیوں کی سہولت ختم کی جا رہی ہے۔ مفت ٹیسٹ کی سہولت ختم کی جا رہی ہے۔ اس کے لیے جدوجہد ہونی چاہیے لیکن ہڑتال سے نہیں کالی پٹیاں باندھ کر۔

تحریک انصاف کی حکومت صحت کے شعبہ میں جو اصلاحات کر رہی ہے۔ یہ اچھی ہیں یا بری۔ یہ عوام دوست ہیں یا عوام دشمن۔ اس کا فیصلہ عوام کریں۔ اور عوام کے  پاس یہ فیصلہ کرنے کا بہترین فورم ووٹ ہے۔ اگلے الیکشن میں اگر یہ اصلاحات ٹھیک نہیں ہوںگی تو عوام صرف اسی بنیاد پر تحریک انصا ف کو مسترد کر دیں گے۔ دوسری شکل یہ ہے کہ اس نئے نظام کے خلاف عوام خود نکل آئیں۔ لوگ سڑکوں پر آجائیں۔ اور اس نئے نظام کے خلاف ایک تحریک شروع ہو جائے۔ اور تحریک انصاف کی موجودہ حکومت عوامی دباؤ کی بنیاد پر اپنی اصلاحا ت کو واپس لینے پر مجبور ہو جائے۔ لیکن صرف ڈاکٹروں کی ہڑتال کیوجہ سے اصلاحات واپس لینا جائز نہیں ہیں۔

یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ملک میں ڈاکٹروں کی ہڑتالیں گزشتہ دور حکومت سے بڑھ گئی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں صرف ن لیگ اور بالخصوص شہباز شریف کی حکومت کو نیچا دکھانے کے لیے تحریک انصاف ڈاکٹروں کی ہڑتال کی بالواسطہ اور براہ راست حمایت کرتی تھی۔

تحریک انصاف کے لیڈر ڈاکٹروں کے ہڑتالی کیمپوں کے دورے کرتے تھے۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں آج تحریک انصاف کی پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد کو بھی یہی گلہ ہے کہ ن لیگ ان کے خلاف سازش کر رہی ہے۔ ان کے خیال میں ن لیگ ان ہڑتالی ڈاکٹروں کے ساتھ ملی ہوئی ہے تا کہ تحریک انصاف کو ناکام کیا جا سکے۔ حالانکہ ن لیگ اس وقت اس ہڑتال کا اس طرح کھلم کھلا ساتھ نہیں دے رہی جیسے تحریک انصاف دیتی رہی ہے۔

میرے لیے یہ بات نہایت دکھ کی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت صحت کے شعبے کو اب تک بہتر کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ایک امید تھی کہ تحریک انصاف اور کچھ کر سکے یا نہ کر سکے لیکن صحت کے شعبہ میں اچھی کارکر دگی ضرور دکھائے گی۔ سب کو امید تھی کہ یہاں بہت بہتری آجائے گی۔ جو ابھی تک نہیں ہو سکا۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف صحت کارڈکی تقسیم کو ابھی تک اپنی سب سے بڑی کارکردگی سمجھ رہی ہے۔

میں صحت کارڈکی افادیت سے انکار نہیں کرتا۔ لیکن جب اسپتال ہی بند ہوں گے تو یہ کارڈ بھی بے کارہونگے۔ لوگ ان کارڈز کا کیا کریں گے۔ یہ کارڈز گھر بیٹھے تو علاج کی سہولت نہیں دے سکتے۔ لیکن ا س کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف یہ بھول رہی ہے کہ صحت کارڈ سے مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس اس کارڈ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتی ہے۔

ابھی تک محکمہ صحت پنجاب نے جو اقدامات اٹھائے ہیں ان کی وجہ سے مڈل کلاس کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کیا چاہتی ہے جو زکوۃ کا مستحق نہیں ہے اس کے لیے زندگی مشکل سے مشکل کر دی جائے۔ اس کے لیے علاج اتنا مہنگا کردیا جائے کہ وہ علاج کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔

ملک کی عمومی صورتحال اب ہڑتالوں کے لیے سازگار ہوتی جا رہی ہے۔ آزادی مارچ کے اعلان نے تمام مکاتب فکر کے لیے ماحول سازگار کر دیا ہے۔ اسی لیے تاجر بھی شیر ہوتے جا رہے ہیں۔ میری حکومت سے گزارش ہے کہ ہر قسم کی ہڑتالوں پر پابندی لگائی جائے۔ جس طرح ہم عالمی دباؤ پر بے گناہ لوگوں کو فورتھ شیڈول میں ڈال رہے ہیں۔ تا کہ علمی اداروں کو مطمئن کیا جاسکے۔

اسی طرح وہ ڈاکٹر جو ہڑتال کرتے ہیں انھیں بھی دہشت گرد قرار دیکر انھیں بھی فورتھ شیڈول میں ڈالا جائے۔ کیونکہ ہر وہ شخص جو انسان سے زندہ رہنے کا حق چھینے وہ قابل تعزیر ہے۔ گزشتہ حکومتیں بھی ڈاکٹروں کے ساتھ مذاکرات سے معاملات چلانے کی کوشش کر تی رہیں اور ناکام ہوئی اور موجودہ حکومت بھی ایسا ہی کررہی ہے ، دیکھیں کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔