خُوش کلامی کی تاثیر و برکات

امجد علی رشید  جمعـء 18 اکتوبر 2019
’’ اپنی آواز کو دھیما رکھا کرو، کرخت ترین آواز تو گدھوں کی ہوا کرتی ہے۔‘‘ فوٹو : فائل

’’ اپنی آواز کو دھیما رکھا کرو، کرخت ترین آواز تو گدھوں کی ہوا کرتی ہے۔‘‘ فوٹو : فائل

لوگوں کے ساتھ دھیمے اور شیریں لہجے میں بات کرنا بھی نیکی ہے۔ قرآن مجید میں بہت سی جگہ شدت کے ساتھ اس کی تاکید کی گئی ہے۔

سورہ لقمان میں حضرت لقمان اپنے بیٹے کو یوں نصیحت کرتے ہیں: ’’ اپنی آواز کو دھیما رکھا کرو، کرخت ترین آواز تو گدھوں کی ہوا کرتی ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہو ا کہ دھیمے اور شیریں کلام کے بہ جائے دوسروں پر چلاتے پھرنا فطانت و ذہانت کی بات نہیں بل کہ احمقانہ بات ہے۔

اﷲ تعالی نے جب حضرت موسیؑ اور حضرت ہارونؑ کو فرعون کے پاس روانہ کیا تو یہ نصیحت بھی کی: ’’ فرعون کے ساتھ نرم لہجے میں بات کرنا شاید وہ نصیحت حاصل کرلے یا اﷲ کا خوف اس میں پیدا ہو۔‘‘ اس آیت سے یہ اہم بات معلوم ہوئی کہ جس شخص کے سامنے تبلیغ کی جا رہی ہو اور یہ مقصود ہو کہ اس شخص کے دل میں نصیحت اور خشیت الہی کے پودے جڑ پکڑیں تو لازم ہے کہ اس شخص کے ساتھ نرم لہجے میں بات کی جائے۔

درشت اور کرخت لہجے میں بات کرنے سے نہ نصیحت حاصل ہوگی اور نہ ہی خشیت الہی۔ یہی بات حضور اکرم ﷺ کی وساطت سے عام مسلمانوں کو حکم دیتے ہوئے ایک اور آیت میں اس طرح ارشاد کی گئی: ’’ دانش مندی اور عمدہ و میٹھی نصیحت کے ذریعے لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی طرف بلائیے اور ان سے کبھی بحث بھی کیجیے تو انتہائی حسین پیرائے میں۔‘‘ اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ دھیمے، میٹھے اور حسین انداز میں گفت گو کرتے ہوئے حکمت و دانش مندی کا ساتھ حاصل ہوجاتا ہے۔

ا س کے برعکس جب پارہ چڑھ جائے، لہجہ کرخت اور سخت ہوجائے تو حکمت کا ساتھ باقی نہیں رہتا۔ ایسی صورت میں جذباتی، غیر دانش مندانہ اور بے تکی باتیں ہی منہ سے نکلتی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خوش کلامی اور شیریں گفتاری جیسی عمدہ نعمت کو حاصل کرنے کی آسان ترکیب کیا ہوسکتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ ہی سے اس بارے میں عمدہ سبق ملتا ہے، وہ درس یہ ہے کہ چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ، شیریں اور خندہ پیشانی جھلک رہی ہو اور دوسرے شخص کے لیے آنکھوں میں محبت ہو، جذبات ہوں تو محبت اور خیر خواہی کے، نفرت کے نہیں کیوں کہ نفرت نہ صرف زبان بگاڑ دیتی ہے بل کہ چہرے کو بھی تیوری زدہ اور مسخ کردیتی ہے۔

حضور اکرم ﷺ ہر وقت مسکراتے رہتے تھے۔ ایک صحابیؓ کا قول حدیث شریف میں یوں نقل کیا گیا ہے: ’’ میں نے نبی کریم ﷺ کے چہرے سے زیادہ مسکراتا ہوا اور کوئی چہرہ نہیں دیکھا۔ ‘‘ حضرت عائشہؓ نقل کرتی ہیں: ’’ حضور ﷺ جب گھر میں داخل ہوتے تو آپؐ کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی۔‘‘ یہ بات دل کو بھی لگتی ہے کہ اتنی حسین کائنات میں انسان خود کو خشک اور غیر شگفتہ کیوں بنائے رکھے، مسکراتا ہوا چہرہ حسین دل کا ترجمان ہے اور اس کا نتیجہ حسین، شیریں اور شگفتہ گفت گو ہے۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کسی رنج و فکر کا شکار ہوتا ہے۔

ایسی صورت میں اس کی شگفتگی اور شیرینی ضرور متاثر ہوجاتی ہے۔ ایسے موقع کے لیے حضور اکرم ﷺ کی نصیحت یہ ہے کہ زبان کو بند رکھو۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے : ’’جس شخص نے خاموشی اختیار کی، وہ نجات پاگیا۔‘‘ خاموشی بہ ذات خود ایک خوبی ہے اور غور و فکر کا ذریعہ ہے۔ حکمت انہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو خاموشی اختیار کیے رکھتے ہیں۔

جذبات کے موقع پر خاموش رہنا اور اپنی زبان کو قابو میں رکھنا شخصیت کا سب سے بڑا حُسن ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے مسلمان کی تعریف ان الفاظ میں ارشاد فرمائی: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ حضور اکرم ﷺ کے سامنے دو عورتوں کا ذکر کیا گیا، ایک عورت تو صرف فرائض و واجبات کی حد تک ہلکی پھکی اور بنیادی عبادات کرنے والی تھی۔ دوسری عورت ساری رات نوافل پڑھتی رہتی تھی لیکن ہمسایوں کے ساتھ سخت اور درشت باتیں کیا کرتی تھی۔ حضور اکرم ﷺ نے خوش کلامی کرنے والی عورت کو جنّتی قرار دیا اور دوسری عورت کو آپؐ نے ناپسندیدہ قرار دیا۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ مومن نہ تو طعنے دیتا ہے اور نہ ہی لعنتیں بھیجنے والا ہوتا ہے۔‘‘

ارشاد رب العزت کا مفہوم ہے: ’’ تباہی ہے اس شخص کے لیے جو طعنے دیتا ہے اور عیب چنتا ہے وہ شخص جس نے مال سمیٹا اور اسے گن گن کر رکھا وہ خیال رکھتا ہے کہ اس کا مال سدا اس کے ساتھ رہے گا۔‘‘ اس آیت سے بنیادی بات یہ معلوم ہوئی وہ یہ کہ زبان درازی، طعنہ گوئی اور عیب چینی کی عادات اس شخص کی ہوتی ہیں جو مال و دولت سمیٹنے کا رسیا ہو اور اس کا سارا بھروسا مال و اسباب پر ہو۔ ایسا شخص انتہائی لالچی اور دولت کی محبت میں ناجائز ہتکھنڈے اختیار کرنے والا ہوتا ہے۔ اپنے ناجائز کاموں کا جواز ڈھونڈے کے لیے وہ معاشرہ کے دوسرے لوگوں میں عیب ڈھونڈتا پھرتا ہے۔

جہاں اسے کسی کا عیب ملا وہ فوراً اس کی تشہیر کرتا ہے اور جگہ جگہ طعنے دیتا پھرتا ہے تاکہ لوگوں کی توجہ دوسروں کے عیب پر رہے اور اس کے اپنے جرائم لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ نے طعنے دینے اور زبان کے غلط استعمال کو بدترین جرم قرار دیا ہے۔

حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ زبان درازی سے زیادہ بُری خصلت آدمی کے لیے کوئی اور نہیں۔ ایک اور جگہ فرمایا: ’’ غیبت، زنا کے مقابلے میں زیادہ شدید جرم ہے۔‘‘ غور فرمائیے! کہ ایک بدکار شخص کے بارے میں یہ کہتے پھرنا کہ وہ بدکار ہے بہ ذات خود بدکاری کے مقابلے میں زیادہ سنگین جرم ہے۔ سیدھا طریقہ یہ ہے کہ یا تو ایسے شخص کا یہ جرم عدالت میں ثابت کیا جائے جس کے لیے معزز گواہوں کی ضرورت ہے، یا پھر اپنی زبان کو بند رکھا جائے، ورنہ اس طرح زبان کھولنے کے جرم کی سزا اسلامی فقہ میں اسّی کوڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے زیادہ باتیں کرنے سے منع فرمایا ہے کہ اس میں لغو باتوں کا یا غیبت کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ زیادہ بولنے والا آدمی عام طور پر جھوٹا ہوتا ہے۔

قرآن مجید میں بھی سختی کے ساتھ اس بات کی تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ’’ ان لوگوں کی اکثر سرگوشیوں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی، ہاں وہ لوگ اس سے مستثنی ہیں جو نیکی یا بھلائی کا یا لوگوں میں باہمی اصلاح کا مشورہ دیں۔‘‘ حضور اکرم ﷺ نے منافق کی تین علامات ارشاد فرمائیں: پہلی یہ کہ بات کرے تو جھوٹ بولے۔ دوسری یہ کہ کسی سے بات کرے تو بدکلامی کرے۔ تیسری یہ کہ کسی سے وعدہ کرے تو پورا نہ کرے۔ غور فرمائیے کہ ان تینوں خصائل بد کا تعلق زبان کے غلط استعمال سے ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ منافقت کا اصل سرچشمہ زبان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے زبان کو جسم کا انتہائی خطرناک حصہ قرار دیا۔

امام غزالیؒ کیمیائے سعادت میں لکھتے ہیں کہ انسان چار قسم کی باتیں کرتا ہے۔ اول وہ باتیں جن میں نقصان ہی نقصان ہے۔ دوم، وہ باتیں جن میں نفع کم اور نقصان زیادہ ہے۔ سوم، وہ باتیں جن میں نفع زیادہ اور نقصان کم ہے۔ چہارم، وہ باتیں جن میں نفع ہی نفع ہے۔ امامؒ فرماتے ہیں کہ ان چار قسموں میں صرف آخری قسم ہی قابل قبول ہے بقیہ قسمیں چھوڑنے کے لائق ہیں۔

حاصل کلام یہ ہے کہ زبان کا صحیح استعمال انسان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔