شجرکاری صدقہ جاریہ

ساجد حبیب میمن  جمعـء 18 اکتوبر 2019
آلودگی سے تحفظ اور بیماریوں سے بچاؤ کا کسی حد تک ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے شجرکاری۔ فوٹو: فائل

آلودگی سے تحفظ اور بیماریوں سے بچاؤ کا کسی حد تک ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے شجرکاری۔ فوٹو: فائل

موسمیاتی تبدیلیوں اور بیماریوں سے مدافعت کے لیے درخت اﷲ تعالی کی طرف سے ایک تحفہ ہیں اسی لیے اسلام نے درختوں کو کاٹنے سے منع فرمایا ہے اور انہیں زمین کی زینت قراردیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شجرکاری انسانیت کی بہترین خدمت ہے۔ اس کا فائدہ کسی ایک انسان کو نہیں بل کہ اربہا انسانوں کو بھی پہنچتا ہے اور ان سے ہر طرح کے چرند پرند بھی اپنی زندگی میں سُکون پاتے ہیں۔

آلودگی سے تحفظ اور بیماریوں سے بچاؤ کا کسی حد تک ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے شجرکاری۔ کیوں کہ ان درختوں کی وجہ سے مختلف امراض میں شفا ملتی ہے اور درختوں کے ہونے سے ہی بارشیں بھی ہوتی ہیں۔ درختوں کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ درخت ہمیں آکسیجن فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم سانس لیتے ہیں۔

اسی لیے شجرکاری کی اہمیت اور افادیت سے عوام کو واقف کرانا اب ہر باشعور شخص کی ذمے داری ہے، جو درختوں کی اہمیت سے خوب واقف ہوتا ہے۔ پھلوں کو انسان کی ابتدائی خوراک کہا جاتا ہے جس کے اندر پائے جانے والے فوائد سے اب ہر ایک انسان واقف ہوچکا ہے۔ یہ سب کچھ ہمیں درختوں سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کا پچیس فی صد حصہ جنگلات پر مشتمل ہونا بہت ضروری ہے، مگر افسوس کے پاکستان کا صرف دو سے تین فی صد حصہ ہی جنگلات پر مشتمل ہے۔

قرآن کریم میں اﷲ تعالی کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ پس ذرا انسان اپنے کھانے کو ہی دیکھ لے کہ ہم نے اوپر سے پانی برسایا، پھر ہم نے زمین کو عجیب طرح سے پھاڑا، پھر ہم نے اس میں غلّے اگائے اور انگور اور ترکاریاں اور زیتون اور کھجور اور گھنے باغات اور میوے اور چارا سب کچھ تمہارے اور تمہارے مویشیوں کی خاطر لگایا ہے۔

حضور کریم ﷺ کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ قیامت برپا ہو رہی ہو اور تمہیں درخت لگانے کی نیکی کا موقع مل جائے تو فوراً یہ نیکی کر ڈالو۔ اس لیے تو کہا جاتا ہے کہ شجرکاری کسی ایک شخص کی نہیں بل کہ ہر ایک کی ذمے داری ہے اور اپنی اس ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے ہر انسان کو اپنے حصے کا کم از کم ایک پودا تو ضرور لگانا ہی چاہیے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے درختوں کو یہ سمجھ کر کاٹا کہ سڑکوں کو اور اپنے گھروں کو کشادہ کردیا جائے اور جن لوگوں نے درختوں کی کٹائی صرف اس لیے کی کہ وہ کسی نہ کسی طرح سے درختوں سے آمدن حاصل کریں اور پھر ان خالی زمینوں پر قابض ہوجائیں اور جن لوگوں نے درختوں کو اس لیے کاٹا کے ان کے گھروں کے آنگن بڑے ہوجائیں تو یہ سب کچھ ایسے لوگوں کے لیے اب نشان عبرت بن چکا ہے۔

ایسے لوگ جو ان درختوں کو کاٹتے رہے تو ان کو احساس ہی نہیں ہو پایا کہ کب انہیں موسمیاتی تبدیلیوں نے آکر گھیرا اور بیمار کرنا شروع کردیا اور پھر یہی لوگ گرم موسموں میں اپنے بچوں کو لے کر دیگر ٹھنڈے مقامات پر لے کر جانے لگے، وہ تو اپنے بچوں کو باہر اور ملک کے اندر ٹھنڈے مقامات پر لے جانے کی استطاعت اور وسائل رکھتے ہیں لیکن کوئی غریب اور سفید پوش جن کی ہمارے ملک میں اکثریت ہے وہ کیا کریں؟

درختوں کی بے دردانہ کٹائی کرنے والے بے حس لوگوں کی وجہ سے پوری قوم ہی موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آگئی ہے۔ درختوں کی کٹائی کرنے والوں کے ہاتھوں سے ایک ایسا گناہ سرزد ہوچکا ہے جس کا خمیازہ قوم کے ہر ایک فرد کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ لیکن اب لکیر پیٹنے سے بہتر ہے کہ ہر شخص صرف ایک پودا بھی لگائے تو اتنے درخت ہوجائیں گے کہ ہمارا ملک ایک بار پھر سے سرسبز و شاداب ہوجائے گا۔

ہم میں سے ہر ایک یہ بات جان چکا ہے کہ جن علاقوں میں درخت زیادہ ہوتے ہیں وہاں کے لوگ بھی نہایت ہی خوب صورت اور صحت مند ہوتے ہیں، کیوں کہ درخت وہاں کے بسنے والوں کو ذہنی تناؤ اور مختلف بیماریوں سے بچا کر ہر لمحہ تر و تازہ رکھتے ہیں۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ ایک درخت کٹ تو منٹوں میں جاتا ہے مگر ایک پودے سے درخت بننے کے لیے کئی سال درکار ہوتے ہیں۔

اس لیے جب تک ہر شخص اپنی انفرادی کوشش سے درختوں کی تعداد نہیں بڑھائے گا یہ ملک کبھی بیماریوں اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نہیں نکل سکے گا۔ یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ حکومت نے شجر کاری پر توجہ دی ہے لیکن انہیں اس کے لیے مزید جدوجہد کرنا ہوگی اور اس کا بوجھ صرف محکمہ جنگلات پر ڈالنا کافی نہیں ہے بل کہ اس کی ذمے داری اب ہر محکمے پر ہی ڈالنا ہوگی۔ درختوں کے نہ ہونے سے اب وہ لوگ بھی پریشان ہیں، جن کے گھروں میں ہر وقت ایئر کنڈیشنرز چلتے رہتے ہیں ان لوگوں کو یہ احساس اب شدت سے ہونے لگا ہے کہ گھروں میں لگے ایئر کنڈیشنرز اور ائیر کولر زندہ رہنے کے لیے کافی نہیں ہیں بل کہ بعض صورتوں میں تو مضر بھی ہیں۔

پاکستان کے جن علاقوں میں درختوں کی بھرمار تھی وہاں سیلاب کے دنوں میں جانیں اور مالی نقصانات کا اندیشہ نہیں ہوتا تھا، لیکن آج درختوں کے کٹنے سے پانی کا تیز بہاؤ سیدھا اور بغیر کسی روک ٹوک کے بستی کی بستیاں اجاڑ دیتا ہے۔ اور یہی نہیں بل کہ یہ درخت صرف سیلاب کو ہی نہیں روکتے تھے بل کہ یہ ہی درخت بارشوں کا سبب بھی بنتے تھے، یہ ایک ایسا نظام قدرت ہے جس کے راز کو آج کی ترقی یافتہ اقوام سمجھ گئی ہیں اور وہ درختوں کی حفاظت کرتی ہیں۔

آج ایک باشعور انسان کو یہ سمجھ میں آچکا ہے کہ اے سی اور ائیر کولر ہمیں وقتی سکون تو دے سکتے ہیں مگر یہ کسی بھی لحاظ سے ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں اور ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے نہیں بچاسکتے۔ بالکل اسی طرح سے اب یہ سمجھ میں آنا بھی بہت ضروری ہے کہ پاکستان میں شجرکاری کو جب تک ایک بنیادی اہمیت اور مقام نہیں ملے گا شجرکاری کا خواب جلد پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ پائے گا۔ ہم سب کو بہ حیثیت ایک قوم کے اس چیلنج سے نمٹنا ہوگا اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم سب اپنی اس ذمے داری کا احساس پیدا کریں اور اپنے حصے کا کوئی درخت ضرور لگائیں۔

اﷲ تعالی ہمیں اس کار خیر کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔