کیا پولیس ریفارمز کی ضرورت ہے؟

خرم شہزاد  پير 21 اکتوبر 2019
آخر ہر حکومت میں پولیس ریفارمز کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آخر ہر حکومت میں پولیس ریفارمز کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

تحریک انصاف کی حکومت کو اپنے پہلے دن سے ہی ملک کے کونے کونے سے کسی نہ کسی مسئلے کا سامنا رہا ہے اور یقیناً یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پورے ملک سے کہیں بھی کوئی ٹھنڈی ہوا اس حکومت کو نصیب نہ ہوئی۔ اس حکومت میں ساہیوال واقعہ وہ پہلا باقاعدہ حادثہ تھا جس میں پولیس کے خلاف بہت کچھ نہ صرف بولا گیا بلکہ بہت سے لوگوں نے اپنی بھڑاس نکالنے کےلیے بھی اس واقعے کو استعمال کیا۔ ایسے میں سب سے زیادہ ضرورت پولیس کے نظام کو بدلنے پر دی گئی۔

پولیس کے خلاف آپ یقیناً دس دن تک بولنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے، لیکن مجھے آج تک کسی نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ ایک نہایت شریف اور سیدھا سادہ بچہ جو میٹرک کا امتحان پاس کرتا ہے، ماں باپ کی آنکھ کا تارا ہوتا ہے اور محلے میں بھی ایک اچھے کردار کا حامل ہوتا ہے، وہ بچہ پولیس لائن میں بھرتی کےلیے جاتا ہے اور منتخب ہونے کے دوسرے دن جب وہ وردی پہنتا ہے تو ’ٹلا، رشوت خور، حرام خور، کمینہ، ظالم اور بدکردار‘ جیسے مقامات تک کیسے پہنچ جاتا ہے؟ کیا وہ بچہ ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں ہوتا یا پھر وردی پہن کر وہ ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں رہتا؟

سوال تو یہ بھی ہے کہ ایک سیدھا سادہ بچہ پولیس میں بھرتی ہوکر اپنے اس معاشرے کا حصہ کیونکر نہیں رہتا، جس میں اس نے اپنی ایک عمر گزاری ہوتی ہے؟ وہ معاشرے کو چھوڑتا ہے کہ معاشرہ اسے قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے اور یقیناً معاشرہ اسے قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے تو سوال یہ بھی ہے کہ معاشرہ اس کے ساتھ ایسا کیونکر کرتا ہے؟ اور پھر سارا الزام اس بچے کے سر لگادیا جاتا ہے کہ وہ اس معاشرے میں ایک فساد، خوف، برائی اور ظلم کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ آپ ان سوالات کے جواب تلاش کیجیے۔ اور ہم اگلی بات کی طرف چلتے ہیں کہ آخر ہر حکومت میں پولیس ریفارمز کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟

پولیس ریفارمز کی باتیں کرنے والے پولیس کے خلاف چارج شیٹ بناتے ہوئے پولیس کو ظالم قرار دیتے ہیں کہ پولیس خوامخواہ یا کسی کے کہنے پر یا کسی سے رشوت لے کر بندے مار دیتی ہے۔ تھانوں میں شریف آدمی کی کوئی عزت نہیں ہوتی اور شریف لوگوں کو تھانوں میں مارا پیٹا جاتا ہے، جبکہ پولیس یہ کام سیاسی لوگوں کے ڈیروں پر بھی سرانجام دیتی ہے۔ پولیس پر رشوت کا الزام بھی لگایا جاتا ہے جبکہ دیگر چھوٹے موٹے الزامات کی تعداد تو یقیناً ہزاروں میں ہوگی۔ ان میں سے کوئی بھی بات غلط نہیں، لیکن جس طرح سے آپ صحیح کہتے ہیں یہ بھی نہایت ہی غلط بات ہے۔ چلیں ان الزامات پر مکالمہ کرتے ہیں اور ان کی گہرائی تک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

کیا آپ نے کبھی کسی کو قتل کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں آپ یقیناً بھڑک کر جواب دیں گے کہ بھئی مجھے کیا پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ میں کسی کو قتل کروں گا؟ لیکن یہ بات ہم پولیس کےلیے ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ پولیس والوں کو کیا کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ وہ یونہی گھروں سے، بازاروں سے لوگوں کو اٹھا کر گولی مار دیتے ہیں۔

سفید کالر اور کپڑوں والے جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ سیاست دانوں کو بھی اپنے معاملات چلانے اور سیدھے رکھنے کےلیے بہت سے ٹیڑھے لوگوں کو راستے سے ہٹانا پڑتا ہے اور اس کام کےلیے انہیں پولیس سے مدد لینی پڑتی ہے۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ ہر ایم این اے اور ایم پی اے اپنے علاقے میں اپنی مرضی کا ایس ایچ او لانے کےلیے سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔ اپنی پسند کا باروچی تو سمجھ آتا ہے، لیکن اپنی پسند کے ایس ایچ او کی کوئی وضاحت آپ کردیں تو ہم اپنی لاعلمی اور جہالت پر افسوس ہی کرلیں۔

اب پولیس ریفارمز کے ذریعے آپ پولیس کے ہاتھ باندھنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن پولیس پر سیاست دانوں کی گرفت کمزور کرنے کا کوئی منصوبہ کسی کے پا س نہیں ہے۔ سیاست دانوں کے نوکریوں میں کوٹے ختم کرنے کا کوئی طریقہ کار کسی کمیٹی میں زیر بحث نہیں ہے اور انہی کوٹہ سسٹم کے بعد ہر ادارے بشمول پولیس میں سیاست دان اپنے نوکر اور چاکر بھرتی کرتے چلے جاتے ہیں۔ مجھے بھی بتائیں کہ ایسا کرنے سے پولیس سسٹم کس حد تک اور کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے کہ سیاست دانوں اور دوسرے لوگوں کو باندھنے کا نہ تو انتظام ہے اور نہ کہیں اس کی خواہش بھی موجود ہے۔

ہم پولیس کو بدلنے کی بات کرتے ہیں، لیکن کیا ہمیں نہیں پتہ کہ بااثر لوگوں کے ڈیروں پر لوگوں کو اٹھا کر لایا جاتا ہے اور بندے کا پتر بنانے کا کام کیا جاتا ہے۔ جب ان بااثر افراد نے ہی حکومت یا اثر میں رہنا ہے تو پھر پولیس کا نظام بدل کر ہم کون سا تیر مار لیں گے؟

جہاں تک رشوت کا تعلق ہے، اسی معاشرے میں ایک موٹرسائیکل والے کے درجن غیر قانونی معاملات گنوائے جاسکتے ہیں جن کا نہ صرف وہ ارتکاب کرتا ہے بلکہ دھڑلے سے کرتا ہے، کیونکہ اس کا خیال ہوتا ہے کہ اگر کہیں پکڑا گیا تو بٹوہ جیب میں ہے ناں۔ ایسے معاشرے میں ہم صرف اور صرف پولیس کے رشوت خور ہونے پر چیخ و پکار کرنے میں مصروف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر عوام قانون پر عمل درآمد نہیں کریں گے اور اپنے لیے کوئی نہ کوئی فوری حل ڈھونڈنے کےلیے کوشاں نہیں رہیں گے تو پولیس میں ریفارمز لاکر کون سا پہاڑ فتح کرلیا جائے گا۔ پولیس پر رشوت لینے کا الزام ہے لیکن رشوت دینے کا کلچر تو ختم کرنے کےلیے ہمارے پاس کوئی طریقہ کار نہیں۔ ہم نے عوام کو قانون پر عمل درآمد کرنے پر کس طرح سے مجبور کرنا ہے، اس بارے میں کوئی تجویز کبھی کہیں زیر غور ہی نہیں تو رشوت سے نجات کس طرح ممکن ہوسکے گی؟ اور ہاں مجھے کوئی ایسے چار لوگوں کے بارے میں ضرور بتائیے جنہوں نے رشوت کے خلاف رپورٹ لکھوائی ہو۔

ہم آسان سی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگرہم دوسروں کو بھی اپنے جیسا انسان ہی سمجھیں اور انہیں بھی جینے کا حق دیں، اگر سیاست دانوں کو مخالف مروانے اور پٹوانے کی ضرورت نہ رہے، اگر گھر والے ہر قاتل اور چور کو بھگانے اور چھپانے کی کوشش نہ کریں، اگر ہم اپنے چھوٹے بچوں کو گاڑیاں اور موٹر سائیکل نہ دیں، اگر ہم خود اپنی ذات میں اس علاقے کو جہاں ہم رہتے ہیں اپنا ملک، اپنا گھر سمجھیں، اگر ہم قانون کو قانون ہی سمجھیں اور اس پر عمل کریں، اگر ہم حکومتی پابندیوں کا احترام کریں، اگر ہم پولیس والوں کو ٹلا نہیں بلکہ پولیس والا ہی سمجھیں تو یقین مانیں کسی پولیس ریفارم کی ضرورت نہیں رہے گی۔

ہم کنویں سے ہزاروں ڈول پانی کے نکالنا چاہتے ہیں، لیکن مردہ کتے کو نکالنے کا خیال بھی ہمارے ذہن میں نہیں آتا۔ ہم سمجھتے نہیں کہ مردہ کتے کو نہ نکالا جائے تو ہزاروں ڈول پانی نکالنا بھی بیکار جاتا ہے اور اگر ہم آپ ایک دوسرے سے، اس ملک سے اور اس کے قانون سے مخلص نہیں اور قانون پر عمل کرنے والے نہیں، جائز کے خواہش مند نہیں تو پھر ہزاروں ریفارمز بھی ہمارا اور پولیس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ پولیس ریفارمز کی ضرورت ہی نہ رہے گی اگر ہم اپنی زندگیوں میں قانونی ریفارم لے آئیں، اور یہی سب سے مشکل کام ہے جس سے بچنے کےلیے ہم دوسروں اور خاص کر پولیس میں ریفارمز لانے پر مصر ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔