اُردو کا نفاذ … قومی یکجہتی کا ذریعہ

غزالہ عزیز  اتوار 20 اکتوبر 2019
اردو زبان ہمارے لیے تاریخی تہذیبی اور ثقافتی ورثے کی حیثیت رکھتی ہے۔

اردو زبان ہمارے لیے تاریخی تہذیبی اور ثقافتی ورثے کی حیثیت رکھتی ہے۔

پاکستانی عدالت کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں اردو زبان میں پہلا فیصلہ جاری کردیا گیا۔ یہ فیصلہ قرآن پاک کے غیرمستند نسخوں کی اشاعت کے خلاف درخواست پر جاری کیا گیا۔

اگرچہ اردو کو ملک کی سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا حکم جاری ہوئے چار سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن تاحال اردو کو ریاستی اور حکومتی اداروں میں نافذ نہیں کیا جاسکا ہے۔

5ستمبر2015ء میں ایک عدالتی حکم جاری کیا گیا تھا جس کے تحت عدالتی اور سرکاری دفتری زبان کے طور پر اردو زبان کو نافذ کیا جانا چاہیے ، لیکن یہ حکم اپنے نافذ کا منتظر ہی رہا۔ پاکستان کے آئین میں بھی یہ بات موجود ہے جس کے تحت کہا گیا کہ 14اگست 1988ء تک تمام قومی اور حکومتی اداروں میں اردو کو نافذ کیا جائے ۔ اس کے بعد کتنے ہی 14اگست آئے اور گزرگئے لیکن اردو کا نافذ نہیں ہوسکا۔ البتہ 4  مئی 2019ء کے دن لاہور کی عدالت نے اردو زبان میں پہلا فیصلہ جاری کردیا گیا۔ یہ ایک اچھی شروعات ہے۔

اردو زبان ہمارے لیے تاریخی تہذیبی اور ثقافتی ورثے کی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی قوم کی زبان اس کی تہذیب، ثقافت اور اس کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں برسوں اردو کو اس کا حق نہیں دیا گیا۔ یعنی سرکاری، دفتری، عدالتی اور تعلیمی زبان کے طور پر اردو کو نافذ نہیں کیا گیا، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ انگریزی زبان کا ناجائز اور غیرقانونی تسلط ہے، جس کے ذریعے نوجوانوں کا تعلیمی قتل عام کیا گیا… اور کیا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیمی ترقی اردو کے نفاذ کے بغیر ممکن نہیں… انگریزی کو ابتدائی جماعتوں سے ذریعہ تعلیم بناکر صرف طوطوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی تمام ترقی یافتہ اقوام کا ذریعہ تعلیم مادری زبان ہی تھا۔ بدقسمتی سے ہم آج تک قومی زبان کو ذریعہ تعلیم کے طور پر اختیار نہیں کرسکے… حالاں کہ قومی زبان یک جہتی کا باعث بنتی ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ آج پاکستانی خود اپنی زبان بولتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں، خاص طور سے یہ بات تو اور باعث شرم ہے کہ نوجوان اردو بولنے میں خود کو کمتر محسوس کرنے اور کہلانے میں ایک طرح کا فخر محسوس کرتے ہیں۔ اردو بولنے اور پڑھنے والے کو کم علم، کم تر اور کم درجہ سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ پاکستان کے بڑے نام ور ادیب، شاعر، سائنس داں اور ڈاکٹروں کی اکثریت نے اردو میڈیم اسکولوں سے تعلیم حاصل کی بلکہ ٹاٹ اسکولوں میں بھی تعلیم حاصل کی اور ایک مقام اور نام حاصل کیا۔ یقیناً اگر اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے گا تو ہماری شرح خواندگی بڑھے گی۔ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے امتحان پاس کریں گے۔ ہنرمند افراد کی تعداد بڑھے گی۔

لوگوں کو عدالت اور سرکاری دفاتر میں کام کروانے میں آسانی ہوگی۔ آج دفاتر میں کاغذات پر انگریزی میں جو نوٹ لکھے جاتے ہیں وہ عام لوگ نہیں پڑھ پاتے۔ عدالتوں میں اپنے چلنے والے کیسوں کے بارے میں سمجھ نہیں پاتے جو کچھ وکیل انہیں بتاتا ہے اس پر یقین کرنا ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ وہ اپنی جائیداد بیچ کر وکیل کرتے ہیں۔ اگر عدالت میں اردو زبان کا نفاذ ہوگا تو وہ خود کیس کو سمجھ سکیں گے اور وکیلوں کے جھانسے میں آکر اپنی جمع پونجی نہ گنوائیں گے۔

اردو کی ناقدری میں والدین کا بھی خاصا حصہ ہے جن کو اس بات کی جلدی تھی اور ہے کہ ان کے بچے فر فر انگلش بولنا شروع ہوجائیں لہٰذا جب اس تمنا میں انہوں نے انگلش میڈیم اسکولوں میں بچوں کو O اور A لیول کے لئے داخل کرانا شروع کیا تو ان ہائی فائی اسکولوں میں فیس بھی بڑی ہائی فائی تھی لیکن والدین اس امید پر اس کو بھگتے رہے کہ ایک دن ان کا بچہ فر فر انگلش بولتا ہوا کسی بڑے ادارے میں بڑے عہدے پر فائز ہوجائے گا۔

بڑے انگلش میڈیم اسکولز سسٹم نے اردو کو یہ کہہ کر نظر انداز کرنا شروع کردیا کہ پھر بچوں پر اضافی بوجھ پڑے گا اور بچے انگلش مضامین پر پوری توجہ نہ دے سکیں گے۔ ان دلیلوں کے آگے والدین ڈھیر ہوگئے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ بڑے بڑے انگلش میڈیم اسکولوں کی دیکھا دیکھی چھوٹے چھوٹے گلی محلوں میں کھمبیوں کی طرح اُگے اسکولوں نے بھی اردو زبان کو نظر انداز کرنا شروع کردیا ہے حالاں کہ ان کے پاس انگریزی پڑھانے کے لیے بھی اچھے تربیت یافتہ اساتذہ بھی میسر نہیں تھے۔ یوں اردو اور انگریزی دونوں کی سطح گرنا شروع ہوگئی ہے اور احساس کمتری چھوت کے مرض کی طرح بڑھنے لگا ہے۔

دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں کہ کسی قوم نے اپنی زبان چھوڑ کر غیر ملکی زبان کو اپنایا اور پھر ترقی کی…!! جاپان کے بارے میں تو یہ بات مشہور ہے کہ جب دوسری عالم گیر جنگ میں اسے شکست ہوئی تو فاتح اقوام نے پوچھا مانگو کیا مانگتے ہو؟

جاپان کے دانا اور بینا شہنشاہ نے کہا ’’اپنے ملک میں اپنی زبان میں تعلیم‘‘آج دیکھ لیں ترقی یافتہ ممالک میں اس کاکیا مقام ہے۔ تعلیم کے بارے میں اقبال نے بہت پہلے ایک بات کہی تھی کہ:

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر

لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما

لے کہ آئی ہے مگر تیشہ فرہاد بھی ساتھ

یاد رہے کہ اقبال کے زمانے میں انگریز سرکار تھی۔ لہٰذا تعلیم کی ساری پالیسی ان کی مرضی و منشاء سے بنائی جاتی تھی۔ اقبال اسی چیز کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم جوانوں کی ترقی سے خوش تو ہیں مگر ہنستے ہوئے لب سے فریاد بھی بلند ہوجاتی ہے۔ سمجھ رہے تھے کہ نوجوان تعلیم حاصل کریں گے تو انہیں اچھی ملازمتیں ملیں گیں اور مالی لحاظ سے فارغ البالی حاصل ہوگی لیکن یہ کیا معلوم تھاکہ تعلیم کے ساتھ الحاد اور دین سے بیزاری بھی آئے گی۔ پس مغربی تعلیم تو شیریں کی طرح پرویز کے گھر آگئی لیکن ساتھ میں فرہاد کا تیشہ بھی لے آئی ہے اور اس کے ذریعے دین کی بربادی کا سامان بھی ہورہا ہے۔

پاکستان کے قیام کے بعد معاملہ یہ ہوا کہ شیریں کے پاس فرہاد کے تیشے کے علاوہ بھی کچھ اور سامان میسر آگیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کئی قسم کے تعلیمی ادارے اپنی اپنی تعلیم پالیسی کے تحت تعلیم دے رہے ہیں۔ کچھ سرکاری ہیں اور کچھ نجی، کسی میں ذریعہ تعلیم انگریزی ہے اور کچھ اردو زبان میں تعلیم دے رہے ہیں۔ کچھ میں سرکاری یا وفاقی نصاب پڑھایا جارہا ہے۔ کچھ میں آکسفورڈ اور کیمبرج کا نصاب پڑھا رہے ہیں۔ ایسے میں قوم تقسیم نہ ہوگی تو کیا ہوگی ۔ طبقات در طبقات انگلش اور اردو میڈیم … دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم … شہری اسکول اور دیہاتی اسکول … پھر O لیول اور A لیول میں پڑھایا جانے والا برطانوی اور امریکن نصاب… قوم کو تقسیم کرنے کا انتہائی ابتدائی سطح پر مکمل انتظام کیا گیا ہے۔

تعلیمی پالیسی کیا ہے؟ اس کا کسی کو علم نہیں… ملک میں تعلیمی تنزلی کی وجہ حکومتوں کی عدم دلچسپی ہے۔ سیاست دان خواہ اپنے منشور اور تقریروں میں کتنے ہی دعوے کریں لیکن تعلیم کبھی ان کی ترجیح نہیں ہوتی۔ لہٰذا شرحِ خواندگی میں پاکستان جنوبی ایشیا میں صرف افغانستان اور بنگلادیش سے اوپر ہے۔ پاکستان میں سالانہ ملک کی پیداوار کا دو فیصد سے بھی کم تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اس کا بھی ایک بڑا حصہ کرپشن اور بدعنوانی کی نذر ہوجاتا ہے۔

گھوسٹ اسکولوں کی تعداد پورے ملک میں بارہ سو کے قریب ہے۔ ان کے خلاف کارروائی… کاغذی کارروائی تک محدود ہے۔ عملہ کو باقاعدہ تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ حالاں کہ حقیقی طور پر ان اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں موجود ہی نہیں ہوتیں۔

سیاست داں اقتدار میں آکر اپنا کام لوگوں کو ملازمتیں دینا سمجھتے ہیں۔ لہٰذا سیاسی بنیادوں پر دیگر شعبوں کی طرح تعلیمی شعبے میں بھی نا اہل لوگ بھرتی کرتے ہیں۔ یوں اسے تباہی سے دوچار کردیاگیا ہے۔

پچھلے دور حکومت میں خادم اعلیٰ پنجاب نے سو فیصد خواندگی کا ہدف حاصل کرنے کے لئے مہم کا اعلان کیا لیکن پالیسی وہ اختیار کی جس سے خواندگی میں کمی آنا لازم ہے۔ یعنی لڑکے اور لڑکیوں کے علیحدہ پرائمری اسکول ختم کردیے۔ نتیجتاً والدین نے اپنی بچیوں کو اسکول بھیجنا ہی بند کردیا۔ اب ہمارے سندھ کے وزیراعلیٰ سندھ میں نظام تعلیم کے نئے ٹرینڈ کو متعارف کروا رہے ہیں۔

جس کے تحت صوبے میں کیمبرج نظام کے تحت پچاس نئے اسکول قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے پھر خود ہی اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تعلیم میں خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود ہم کو خاطر خواہ کام یابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔

مسئلہ وہ ہی معیار تعلیم اور نظام تعلیم کا ہے۔ سب سے پہلے جو چیز قومی سطح پر طے کرنے کی چیز ہے وہ ہے نظام تعلیم … یکساں نظام تعلیم کے تحت ہی معاشرہ ہم آہنگی کے ساتھ ترقی کرسکتا ہے۔ ورنہ طبقاتی نظام تعلیم معاشرے کی وحدت کو پارہ پارہ کردیتا ہے۔ جس سے تعمیر و ترقی نہیں بلکہ نفرت و حقارت کے جذبات جنم لیتے ہیں۔ اعلیٰ طبقے کے لوگ، نچلے طبقے کے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انہیں کم تر سمجھتے ہیں۔

پاکستان کے تعلیمی نظام میں سب سے بڑی خامی نظام تعلیم میں ہے جہاں شہری، دیہاتی، میٹرک، کیمبرج ، مدرسہ کتنے ہی طرز کی تعلیم رائج ہے۔ پھر دیہات میں اردو ذریعۂ تعلیم ہے، شہروں میں اور مہنگے نجی تعلیمی ادارے انگریزی میں تعلیم دیتے ہیں۔ دیہات سے بچے تعلیم پاکر شہر میں مزید تعلیم کے لئے آتے ہیں تو نصاب میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر ان کے اتنے سالوں کی تعلیم پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ طالب علم دلبرداشتہ ہوکر کامیابی کی منازل طے کرنے کے بجائے ناکامی کی طرف گام زن ہوجاتے ہیں۔ اکثر اوقات تعلیمی سفر کو یکسر خیر باد کہہ دیتے ہیں۔

معیارتعلیم کا یہ حال ہے کہ ملک کے بعض علاقوں کے سرکاری اور نجی اسکول کے پانچویں جماعت کے طلبہ میں سے 48 فیصد لکھی ہوئی اردو تک نہیں پڑھ سکتے۔

دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت پاکستان شعبۂ تعلیم میں اہداف کے حصول میں کئی دہائیاں پیچھے ہے۔ (اقوام متحدہ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان بنیادی تعلیم کے میدان میں اہداف کے حصول میں پچاس سال جب کہ ثانوی تعلیم کے میدان میں ساٹھ سال پیچھے ہے ۔

ہماری آبادی میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے یعنی کل آبادی میں گیارہ کروڑ 30 لاکھ نوجوان ہیں جو کل آبادی کا 65 فیصد بنتا ہے۔ لیکن دوسری طرف ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے انسانی سرمائے یعنی (ہیومن کیپٹل) سے متعلق 2017ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے 130 ممالک میں 125نمبر پر ہے۔ حالاں کہ کسی بھی ملک کی نوجوان آبادی اس کے لیے سرمایہ ہوتی ہے، جس کو تعلیم و تربیت فراہم کرکے ملکی ترقی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں اتنی بڑی نوجوانوں کی آبادی ہونے کے باوجود ان سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔ اس کی وجوہات میں اسکولوں میں بچوں کا داخلہ نہ ہونا ، ناقص بنیادی تعلیم اور نظام تعلیم اور فنی تربیت کا فقدان ہے… اور ان میں سب سے بڑی وجہ ابتدائی تعلیم اردو کے بجائے انگریزی ہے۔

اس وقت ملک میں اسکول جانے والے بچوں کی عمر کے دو کروڑ بیس لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ جب یہ دو کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہوں گے تو بڑے ہوکر یہ صرف محنت اور مزدوری کرنے والے کام ہی کرسکیں گے۔ اس طرح آبادی کے ایک بڑے حصے کی صلاحیت قومی سطح پر ضائع ہوجائے گی۔

پچھلے دنوں جاپان کے قونصل جنرل نے کراچی میں ایک تقریب میں کہا تھا کہ پاکستان میں تعلیم اپنی زبان میں خاص طور سے اور تکنیکی یعنی فنی تعلیم عام ہوجائے تو پاکستان کی غیر معمولی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جاپان کا تعلیمی نظام دنیا کے بہترین نظاموں میں شمار ہوتا ہے۔ جاپان کی ترقی کی بنیادی وجہ اس کا جاپانی زبان میں تعلیمی نظام کا ہونا ہے۔ جاپان کے پاس کسی قسم کے قدرتی وسائل نہیں ہیں۔ اس کے باوجود جاپانی قوم ترقی کے بلندیوں پر ہے۔ تعلیم ہی کے ذریعے ہم ایٹمی حملوں اور زلزلوں سے کامیابی سے نمٹتے رہے ہیں۔

پاکستان میں دقیانوسی تعلیمی نصاب اور انگریزوں کے زمانے کا نظام تعلیم ہے۔ فنی تعلیم پر توجہ نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ اس قدر بڑی نوجوانوں کی آبادی کو قوم کے لیے فائدہ مند بنانے کے لیے اپنی زبان میں بھرپور فنی تعلیم دی جائے۔ خواہ اس کی ڈگری انجینئرنگ سے کم ہو لیکن وہ ایک اچھا روزگار ضرور فراہم کرنے والی ہو۔ اس طرح یہ نوجوان ہمارے صنعتی شعبے کی ریڑھ کی ہڈی بن سکیں گے انشاء اﷲ۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں ذریعہ تعلیم اردو اور نظام تعلیم یکساں ہونا چاہیے۔ انگریزی ایک زبان کی حیثیت سے پڑھائی جانی چاہیے نہ کہ ذریعۂ تعلیم کی حیثیت سے…

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی تمام ترقی یافتہ اقوام کا ذریعہ تعلیم مادری زبان ہی رہی ہے۔ بدقسمتی سے ہم آج تک قومی زبان کو سرکاری تعلیمی دفتری اور عدالتی زمان کے طور پر اختیار نہیں کرسکے ہیں… حالاں کہ قومی زبان یک جہتی کا بھی باعث بنتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔