ملکی تعمیر نو کے آغاز میں کیا رکاوٹ ہے؟

ظفر سجاد  اتوار 20 اکتوبر 2019
تمام مسائل کا حل موجود، مگر بھرپور اقدامات کا فقدان ہے

تمام مسائل کا حل موجود، مگر بھرپور اقدامات کا فقدان ہے

موجودہ حکومت کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، ایک سال میں بھی حکومتی اقدامات کے ثمرات سامنے نہیں آئے، قوم اب بھی پُر اُمید ہے ۔ مگر تحریک انصاف کی حکومت ابھی تک کچھ خاص ’’ ڈلیور‘‘ نہیں کر سکی نئی۔ حکومت میں شامل شیخ رشید سمیت پُرانے اور تجربہ کار وزراء کی کارکردگی بھی متاثر کُن نہیں ہے۔

٭ حکومت کو ایک سال میں 11 ارب ڈالر بیرونی اور4313 ارب روپے اندرونی قرضہ حاصل کرنا پڑا ہے۔
٭مہنگائی کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ چکی ہے ۔
٭موجودہ سیاسی نظام طاقتور نہیں ہو سکا۔
٭ لاقانیت میں واضح کمی واقع نہیں ہوئی۔
٭محکمہ پولیس اور دوسرے سرکاری محکمے بے مہار ہو چکے ہیں۔
٭مسئلہ کشمیر پر خارجہ پالیسی کی خامیاں اور کمزور یاں سامنے آئی ہیں۔
٭ ابھی تک مرکز اور صوبوں میں منظم اور مربوط نظام حکومت نظر نہیں آیا ۔
٭ پہلے تحریک انصاف کے بعض راہنماؤں کا دعویٰ تھا کہ پاکستانیوں کے 400 ارب ڈالر بیرونی بنکوں میں موجود ہیں لیکن اب یہ رقم 120 ڈالر تک سُکڑ چکی ہے۔
٭پہلے ہر مسئلے کی وجہ کرپشن کو قرار دیا جاتا تھا، اب تمام ’’ کرپٹ ‘‘ سیاستدان جیلوں میں بند ہیں یا خودساختہ ’’ گھر یلو نظر بندی ‘‘ یا جلاوطنی میں ہیں مگر پھر بھی ۔۔۔۔۔۔۔!

پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کے تمام مسائل کی وجہ جانتے ہیں، انکا یہ بھی کہنا تھا بلکہ اب تک کہنا ہے کہ وہ تمام الجھے ہوئے معاملات کو سلجھانے کی صلاحیت اور ادراک رکھتے ہیں۔ ان کا ہمیشہ سے دعویٰ بھی رہا ہے کہ وہ پاکستانی معاشرے کی رگوں میں سرائیت کرپشن کے ناسُور کی اصل تشخیص اور اسکا موثر علاج تجویز کرچکے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی بھی مرض کی صحیح تشخیص ہو جائے تو اسکا آدھا علاج ہو جاتا ہے، دوائی صحیح تجویز کردی جائے تو پورا علاج ہو جاتا ہے۔ وطن عزیز میں یہ بات عجیب نظرآتی ہے کہ ’’ مرض کی مکمل تشخیص بھی ہو چکی ہے‘‘۔ ’’ مناسب علاج اور دوا بھی تجویز کر دی گئی ہے‘‘ مگر علاج شروع ہی نہیں کیا جا رہا۔ بصیرت کا فقدان ہے؟ ناتجربہ کاری ہے؟ قوت ِ فیصلہ میں کمی ہے؟ کسی قسم کا خوف ہے؟ کوئی بڑی رکاو ٹ ہے؟ کوئی خاص قسم کا اندورنی و بیرونی دباؤ ہے؟ قریبی ساتھی کسی بھی قسم کا قدم اٹھانے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں؟ ریاستی اداروں کا مکمل تعاون حاصل نہیں ہے؟ حکومت اور ریاستی اداروں کے مابین ہم آہنگی نہیں پائی جاتی؟ عوام بھولی بھولی یا بے شعور ہے؟ یا کوئی اور وجہ ہے؟ تما م مسائل کی وجہ مذہبی اور اخلاقی اقدار سے دُوری ہے؟۔

موجودہ حکومت کا ویژن ہی نیا پاکستان بنانا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے۔ ایک اسلامی ریاست میں انسانوں کی مرضی یا پسند نہیں دیکھی جاتی، اللہ اور اسکے رسولﷺ کے احکامات کو ہر چیز پر تر جیح دی جاتی ہے، اسلامی اصول تما م انسانوں کیلئے سراسر بھلائی ہیں، ان اصولوں میں وہ اخلاقی اقدار پنہاں ہیں کہ جن پر عمل کرکے دنیا کو خوشیوں کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے، یہ اصول مسلمانوں اور غیر مسلموں کیلئے یکسر امّن وآشتی، محبت اور ہر قسم کے تحفظ کا احساس دلاتے ہیں۔ ان اصولوں کے مطابق معاشرہ تشکیل دینے میں کس کو اعتراض ہو سکتا ہے؟۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ اقتصادی و معاشی مسائل ایسے ہیں جن کی وجہ سے ہم آزادانہ فیصلے نہیں کرسکتے، ہم قرضوں کے جال کی وجہ سے اپنی خود مختاری سے کسی حد تک ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، آج ہم اپنے مذہبی،قومی اور روایتی تشحض کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہمیں قرضہ دینے والی قوتیں ہم پر اپنا دباؤ بڑھا دیتی ہیں، جبکہ پوری قوم موجودہ حکومت سے مختلف توقعات قائم کئے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں مہنگائی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور اخراجات بھی کنٹرول میں نہیں ہیں۔ ضروریات ِ زندگی کی معمولی سے معمولی شئے سے لیکر ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہو چکا ہے، جبکہ ذرائع آمدن میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ بجلی،گیس اور پیٹرول مہنگا ہونے کی وجہ سے عام شہریوں کی معاشی حالت کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ دوائیاں مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں نے اپنی فیسوں اور لیبارٹریز نے ٹیسٹوں کی فیسوں میں زبردست اضافہ کردیا ہے، اسکولوں کی فیس میں اضافہ ہو چکا ہے، پرائیویٹ تعلیمی ادارے مختلف مَد میں فیسوں کے علاوہ بھی رقم بٹور رہے ہیں۔ کتابوں،کاپیاں، سٹیشنری اور دوسری تعلیمی اشیاء کی قیمتوں میں خاصا اضافہ ہوا ہے ۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ابھی تک حکومت اسکے سامنے بند باندھنے میں قطعاً کامیاب نہیں ہوئی۔ اس تمام مہنگائی کا ذمہ دار سابقہ حکومتوں کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ حکومت اور عسکری ادارے ایک ’’ پیج‘‘ (صفحے) پر ہیں یعنی تمام اُمور سلطنت میں سیاسی اور عسکری قیادت میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

اپوزیشن کی تقریباً ساری اہم قیادت اسیر ہے، جو باہر ہیں وہ مصلحت کے تحت دبی آواز میں مہنگائی اور حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہیں، بھارت نے جنگ کا ماحول پیدا کر رکھا ہے جس کی وجہ سے قوم بھی خاموشی سے اچھے وقتوں کا انتظار کر رہی ہے مگر یہاں ایک بہت ہی پیچیدہ اور احساس مسئلہ یہ ہے کہ اگر تمام مسائل پر قابو نہ پایا گیا تو اس دفعہ اس کا ذمہ دار سیاسی اور عسکری قیادت کو برابر کا سمجھا جائے گا۔ عوام کے دِلوں میں اپنے عسکری اداروں کے متعلق بے لوث محبت پائی جاتی ہے اور فوج کو ہر مسئلے کا آخری حل سمجھتے ہیں، حتیٰ کہ عام لوگوں میں یہ سوچ و فکر بھی پائی جاتی ہے کہ سیاسی پارٹیوںاور افراد سے جو بھی غلطیاں ہوئی ہیں، فوج ان پر قابو پانے اور سلجھانے اور سنوارنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہے، فوج ایک منظم اور مضبوط ادارہ سمجھا جاتا ہے کہ عوام کسی بھی قسم کے اندرونی و بیرونی بحران کی وجہ سے پریشانی یا اضطراب کا شکار نہیں ہوتی، انھیں اُمید ہوتی ہے کہ فوج کوئی نہ کوئی عملی حل نکال ہی لے گی، حتیٰ کہ جب سیاسی ادوار میں بے چینی پیدا ہوئی اور فوج نے اقتدار سنبھالا تو عوام نے فوج سے بہت ساری امیدیں اور توقعات وابستہ رکھی تھیں۔

مگر اب سیاسی اور عسکری ادارے ہم آ ہنگی کے ساتھ ملکی نظم و نسق سنبھالے ہوئے ہیں، اُن پر یہ بھاری ذمہ داری بھی عائد ہو چکی ہے کہ عوام کی اُمیدوں کو ٹوٹنے نہ دیں۔ وقت کا انتظار کئے بغیر عوام کو روزگار اور تمام بنیادی سہولتوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ قوم اچھے وقت کا شدت سے انتظار کر رہی ہے اور کسی معجزے کی منتظر ہے، ملک اور ریاستی اداروں سے محبت اور عقیدت رکھنے والے لوگوں کا یہ حق بھی ہے کہ انکا معیار زندگی بلند کیا جائے اور انھیں تفکرات سے نجات دلوائی جائے۔

میگا پراجیکٹس سے فوائد حاصل کئے جائیں
اعدادوشمار کے مطابق حکومت نے ایک سال میں گیارہ ارب ڈالر مزید قرض لیا ہے، حکومت کے مطابق یہ قرض سود اور پُرانے قرضوں کی ادائیگی کے سلسلہ میں لیا گیا ہے، گیارہ ارب ڈالر کا مطلب 1760 کھرب روپے ہے، ایک پڑ ھا لکھا طبقہ یہ سوچ سوچ کر اضطرابی کیفیت سے دو چار ہے کہ آخرکار اس اقتصادی و معاشی بحران کا نتیجہ کیا نِکلے گا، قوم کو مزید بحرانی کیفیت کا شکار نہیں رکھا جا سکتا کوئی نہ کوئی حل نکالنا ناگزیر ہے۔

کئی حل موجود بھی ہیں مگر حکومت کئی وجوہات کی بِنا پر’’ رسِک‘‘ لینے سے کنی کتر ارہی ہے۔ حتیٰ کہ کئی میگا پراجیکٹس ایسے ہیں کہ جنکی تعمیل سے شائد کچھ بہتری کے آثار پیدا ہو سکیں، مگر اُن کی تکمیل اورانھیں چلانے میں بھی کئی رکاوٹیں درپیش ہیں، ان پراجیکٹس کی تکمیل اور کامیابی میں کچھ عالمی قوتوں کا آلہ کار بھارت سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اس نے حکومت اور ریاستی اداروں کی تمامتر توجہ اپنی جانب مبذول کروا رکھی ہے، وہ آئے دن کوئی نہ کوئی شرارت ایسی ضرور کرتا ہے کہ ریاست اپنے مفاد کے منصوبوں کو کامیابی سے ہمکنار کر ہی نہیں پائی۔

بلکہ حکومت ان منصوبوں کو کامیاب کرنے کیلئے پورا زور لگانے سے بھی ہچکچا رہی ہے، ’’ سی پیک ‘‘ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے ’’ سی پیک ‘‘ کی کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یورپ اور اہم عالمی قوتیں ہیں، اگر دیکھا جائے تو سی پیک کی کامیابی سے جہاں چینی تجارت کو وسُعت حاصل ہوگی وہاں پاکستان کو بھی بے پناہ تجارتی، معاشی اور اقتصادی فوائد حاصل ہونگے، مگر بھارت بیرونی قوتوں کے ایماء پر ’’پاگل کُتے ‘‘ کی طرح ’’ کاٹ کھانے ‘‘ کو دوڑ پڑتا ہے ساری توجہ بھارت کے ’’ بھونکنے ‘‘ اور ’’ کاٹ کھانے ‘‘ سے بچنے کی جانب مبذول ہوجاتی ہے، اسکا علاج تو یہی ہے کہ ایک دفعہ ’’ پتھر یا اینٹ‘‘ مار کر اُسے بھاگنے پرمجبور کیا جائے وگر نہ وہ اسی طرح ہمیں پریشان کرتا رہے گا اور پاکستان ’’ راستے ‘‘ میں رک کر اسکے ’’ باؤلے پن ‘‘ سے بچنے کی تدبیر کرتا رہے گا۔ ایک دفعہ ’’ اینٹ یا پتھر ‘‘ مارکر بھارت کو خاموش کر دیا جائے تو ہم اپنی توجہ دوسری جانب مبذول کر پائیں گے۔ ایک بار سی پیک کامیاب ہوجائے اور چین کو بھی اسکے مطلوبہ ثمرات حاصل ہو جائیں تو وہ پاکستان میں مزید سرمایہ کاری کرے گا، جو قرض کی بجائے سرمایہ کاری کی شکل ہو سکتی ہے۔

پاکستان کو سب سے زیادہ قرض چین نے دیا ہوا ہے، سی پیک کے تناظر میں بھی بہت سارا قرض ملک پر چڑھ چکا ہے، اگر کوئی منصوبہ بیچ میں لٹک جائے تو اس پر ہونے والی ساری سرمایہ کاری وقتی طور پر ’’ ڈمپ‘‘ ہوجاتی ہے، ہر منصوبہ مقررہ وقت کے اندر مکمل ہوناچاہیے خواہ اس کا انجام کچھ بھی ہو وگرنہ منصوبہ شروع ہی نہ کیا جائے۔ بیرونی مخالف عوامل سے نبٹنے کی صلاحیت ہمیں اپنے اندر پیدا کرنی ہوگی، فی الحال تو بھارت سے نبٹنا ضروری ہے اسکو ہلہ شیری دینے والے خود بخود پیچھے ہٹ جائیں گے۔ ہمیں اپنی خود مختاری پر کسی مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے اورنہ ہی کوئی سمجھوتہ کرناچاہیے۔

سابقہ حکومتو ں نے اچھے بھلے ’’میگا پراجیکٹس ‘‘ سے انتخابی فوائد حاصل کرنے کیلئے انھیں متنازعہ بھی بنا دیا اور خزانے پر بوجھ بھی، حتیٰ کہ’’ میٹروبس ‘‘جیسے عوامی بہبود کے منصوبے بھی خزانے پر بوجھ بنا دئیے گئے ہیں۔ دس روپے سے تیس روپے کی ٹکٹ کرنے کے باوجود سات ارب سالانہ کا خسارہ ہے، پشاور کی’’ میٹروبس‘‘ ابھی تک مکمل ہی نہیں ہوئی، شہباز شریف میں یہ خوبی تو تھی کہ ’’پراجیکٹ ‘‘ مقررہ مدت سے پہلے ہی مکمل کروا لیتے تھے، کاش وہ اقتدار اور مال کی ہوس کا شکار نہ ہوتے، موجودہ حکومت اورنج ٹرین منصوبے کو مکمل کرنے سے بھی گریزاں ہی نظر آتی ہے کہ ٹرین چلنے کے بعد خزانے پر مزید بوجھ نہ پڑ جائے، اگر اورنج ٹرین کی ٹکٹ زیادہ رکھی جاتی ہے تو لوگ سفر نہیں کریں گے، ٹکٹ کم رکھی جاتی ہے تو نقصان کا اندیشہ ہے۔

پچھلے دور میں بجلی کے منصوبوں پر قرض لیکر جو سرمایہ کاری کی گئی اس کی وجہ سے گیارہ ہزار میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل تو ہوگئی مگر اس بجلی کا زیادہ فائدہ اور سہولت گھریلو صارفین کو حاصل ہوا، صنعتی ترقی میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے تجارتی فوائد حاصل نہیں ہوئے۔

موجودہ حکومت اگر کچھ معاملات میں ایک خاص ’’ لائن آف ڈائریکشن ‘‘ اختیار کر لے تو اُمید کی جا سکتی ہے کہ میگا پراجیکٹس سے بھی خاطر خواہ فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں، اب ماضی کے معاملات کی طرف توجہ نہ دی جائے کہ کونسا پراجیکٹ نقصان کا باعث ہے اور کونسا فائدے کا، بلکہ اب تمام توجہ اس جانب مبذول کی جائے کہ ان سے فائدہ کیسے اٹھایا جا سکتا ہے۔ بھارت کو خاموش کروانے کے بعد’’ سی پیک‘‘ صنعتی زونز کے قیام، سفری سہولتوں اور صنعتی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے۔ انڈسٹری کو بجلی کے ریٹ کا ٹیرف کم کردیا جائے۔ کیونکہ صنعتی ترقی کا زرِمبادلہ اور کئی مَدوں میں زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ سیاحت کے فروغ کیلئے ایک طویل اور دیر پا مہم شروع کی جائے جس میں ہر شہری کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔ سی پیک کے معاملے میں عالمی قوتوں کے خدشات کو دور کیا جائے بلکہ چین کی مرضی سے انھیں بھی شمولیت کی دعوت دی جائے۔ یہ ممالک سمجھتے ہیں کہ سی پیک یا ’’ ون روڈ ون بیلٹ‘‘ جیسے منصوبوں سے چین کو تجارتی اجارہ داری حاصل ہوگی۔ شائد انکے خدشات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم انھیں مطمین نہیں کر پائے۔

صنعتی زونز کے قیام میں بہت تیزی اور شِدت لائی جائے۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا۔ محض تعمیرات کے شعبے سے ایک کروڑ نوکریاں حاصل کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا اور اس کا ریاست کی ترقی میں حصہ نہیں ہوگا۔ ایک کروڑ نوکریاں صنعت وتجارت کو فروغ دینے کے سلسلے میں پیدا کی جائیں تو ملک ترقی کی انتہا تک چلاجائے گا۔

پی ٹی آئی کے ایک وزیر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ پچاس لاکھ مکانات بننے سے ایک کروڑ نوکریاں تو نِکل ہی آئیں گی۔ ’’ مگر انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان مکانات کی تعمیر اور تکمیل کے بعد ایک کروڑ بندے نیا کام کیاکریں گے اور پچاس لاکھ گھروں میں رہنے والے گھروں کے اخراجات کیسے پورے کریں گے، کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں ایسی صنعتیں قائم کی جائیں کہ جن کی مصنوعات کی اندرونی اور بیرونی سطح پر فروخت باآسانی ہو سکے۔

اس وقت ملک میں بہت ساری مصنوعات غیر ملکی دکھائی دیتی ہیں ان کی درآمد پر بھاری زرمبادلہ خرچ ہو رہا ہے، یہ مصنوعات ملک میں ہی تیار کی جائیں تو زرمبادلہ بھی بچے گا اور عوام کو روز گار بھی نصیب ہوگا۔

صنعتی و تجارتی انقلاب کی ضرورت
کافی عرصہ سے یہ بات محسوس کی جا رہی ہے کہ صنعت و تجارت کے فروغ کیلئے ’’ متعلقہ وزارتوں ‘‘ کی بیوروکریسی میں مطلوبہ اہلیت موجود نہیں ہے، حیران کن بات ہے کہ اگر اورنج ٹرین پر 200 ارب روپے خرچ کئے جا سکتے ہیں تو 200 ارب روپے سے صنعتوں کے جال کیوں نہیں بچھائے گئے؟ اگر 200 ارب روپے سے وہ صنعتیں قائم کی جائیں، جنکے قیام سے ہماری درآمدات میں کمی آتی تواقتصادی اُمور کے ایک’’ ماہر سید خرم‘‘ کے بقول 5 لاکھ افراد کو روز گار مِل سکتا تھا اور کم ازکم 2.5 ارب ڈالر درآمدات کی مَد میں بچ سکتے تھے۔ انکا یہ بھی کہنا ہے کہ تعلیم اور طب کی سہولیات سے بھی زیادہ ضروری صنعتی انقلاب ہے، ملک میں اگر پیسہ وافر ہو تو رفاہ عامہ اور مفاد عامہ کے تمام کاموں میں رقم با آسانی خرچ کی جا سکتی ہے۔

لوٹی ہوئی دولت کب وصول ہوگی
تحریک انصاف کا سب سے بڑا دعویٰ یہ تھا کہ وہ لوٹی ہوئی دولت واپس خزانوں میں جمع کروائیں گے ۔ مگر اس سلسلے میں ابھی کچھ خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ مگر قیدیوں کی ’’وی آئی پی موومنٹ ‘‘ پر لاکھوں روپے خرچ ہو رہے ہیں، حد تو یہ ہے کہ ڈاکٹر ز کی پوری ٹیم انکی صحت کا خیال رکھنے کیلئے جیلوں میں موجود رہتی ہے، لوٹی ہوئی دولت واپس لینے کیلئے ہرقدم اٹھایا جائے تاکہ آئندہ کسی کو ایسی حرکت کی ہمت نہ ہو۔

تحریک انصاف کے حامیوں کو پُختہ یقین تھا کہ جیسے ہی تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آئی ، رشوت اور سفارش کو بہت بڑا جرم قرار دیا جائے گا ، وزیر اعظم عمرا ن خان کی تقریریں بھی موجود ہیں مگر ابھی تک اسمبلیوں میں موثر قانون سازی نہیں کی گئی۔ سرکاری ملازمین آج بھی دھڑلے سے رشوت لیکر جائز و ناجائز کا م کر رہے ہیں، وزیر توانائی عمر ایوب کے دعوؤں کے برعکس تحر یک انصاف کے ایک سال میں بھی واپڈا اہلکار وں کی مِلی بھگت سے کروڑوں یونٹ بجلی چوری ہوتی ہے۔ سر کاری دفاتر میں کام کروانے کے ریٹ مقرر ہیں۔

سڑکوں پر ہی قانون نظر نہیں آتا
پاکستان کی تمام سڑکوں پر تجاوزات قائم ہیں، کوئی گلی محلہ ایسا نہیں کہ جہاں عارضی دوکانیں، ریڑھیاں اور ٹھیلے موجود نہ ہو ں۔ لوگوں نے اپنی دکانیں سڑکوں تک بڑھائی ہوئی ہیں، صرف چند بڑ ی سڑکیں یا ’’بلیووارڈ ‘‘ چھوڑ کر ہر سڑک کے بیچ میں کاروبار ہو رہا ہے۔ ریڑھیوں اور ٹھیلوں کی بہتات کی وجہ سے بعض بازاروں کا نام ہی ’’ ریڑھیوں والا بازار ‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔ ٹاؤن شپ، اچھرہ اور لاہور کے دوسرے علاقوں میں ریڑھیوں والے بازار ضرور ہوتے ہیں۔ عابد مارکیٹ مزنگ چونگی، ہال روڈ اور شاہ عالمی کے علاقوں کی تجاوزات ہی کسی کو نظر نہیں آتیں۔ مینار پاکستان سے لیکر ٹھوکر نیاز بیگ لاہور تک ہر مصروف سڑک پر پھلوں کی ریڑ ھیوں کی بہتات نظر آتی ہے، مگر حکومت اور متعلقہ محکموں کو کچھ بھی نظر نہیں آتا ۔

تجاوزات ختم کروانے کے ذمہ دار تمام محکموں کے ملازمین کو صرف اپنی ’’ دیہا ڑیوں‘‘ سے غرض ہے۔ تمام سڑکیں پھلوں اور دوسرے کاروبار کیلئے نہیں، ٹریفک کیلئے ہیں، تمام شہری سڑکوں پر سفر کرنے کا باقاعدہ ٹوکن ٹیکس کی مد میں فیس ادا کرتے ہیں۔ تجاوزات ختم کرنے کے معاملے میں اپوزیشن کے بیکار شور کی پرواہ نہ کی جائے۔ پاکستانی قوم کو نظم وضبط میں لانے کا آغاز سڑکوں اور گلیوں سے ہی ہوگا ۔ روز گار کے سلسلہ میں تجاوزات یا کسی بھی خلاف ِ قانون کام کی اجازت دی ہی نہیں جا سکتی ۔ اسمگلروں، چوروں، ڈاکوؤں، منشیات فروشوں اور دوسرے جرائم پیشہ افراد کی مانند تجاوزات قائم کرنے والوں نے بھی خلاف قانون راستہ اپنایا ہے جس کا سدباب ہونا چاہیے۔ روزگار کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو بھی ناجائز کام کی اجازت دی جائے۔ ہر سڑک پر تجاوزات سے لاقانونیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

بدمعاشوں اور قبضہ گروپوں کے اڈے ختم کرنے میں کیا رکاوٹ ہے
یہ بات بھی فہم سے بالاتر ہے کہ ملک کے ہرحصے میں بدمعاشوں، غنڈوں، منشیات فروشوں ،قبضہ گروپوں اور ناجائز فروشوں کے باقاعدہ اڈے قائم ہیں، یہ اڈے بدمعاشی کی ’’نرسریاں‘‘ ہیں، ان اڈوں میں ’’کن ٹٹے‘‘ اور ’’ رنگ باز‘‘ بیٹھے ہیں، یہ لوگ شریف شہریوں کی رقومات اینٹھ لیتے ہیں، املاک پر قبضہ کر لیتے ہیں یا زور زبردستی سے املاک اونے پونے خرید لیتے ہیں، یہ اڈے اور یہ بدمعاش پوشیدہ بھی نہیں ہوتے، ان کی باہمی دشمنیوں اور قتل وغارت کی داستانیں بھی عام ہیں مگر حکومت وقت بھی ان چند افراد پر ہاتھ ڈالنے سے کنی کتراتی ہے۔

کئی علاقوں کی وجہ شہرت ہی بدمعاشوں کے اڈے اور بدمعاش ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے حلقہ انتخاب جو گوالمنڈی وغیرہ کے علاقوں پر مشتمل تھا میں ہر دور میں بدمعاشوں کی ’’ متوازی حکومت ‘‘ قائم رہی ہے۔ ماضی کے بیشتر بدمعاش ریاض گجر، ٹیپو ٹرکاں والا وغیرہ وفات پاچکے ہیں مگر ان کے جان نشین اب بھی بڑے دھڑلے سے ’’یہ اڈے ‘‘ چلا رہے ہیں، ہر علاقے میں بدمعاشوں کی متوازی حکومت قائم ہوئی ہے تقریباً تمام سیاسی نمائندے ان اڈوں پر حاضری دینا اور بدمعاشوں کی حمایت حاصل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، اس ضمن میں صوبائی حکومت صرف یہ وضاحت کر دے کہ علی الاعلان بدمعاشی کرنے والے ان غنڈوں اور قبضہ گروپوں پر کوئی قانون لاگوکیوں نہیں ہوتا؟ علاقہ تھانہ، ایس ایچ اواور پولیس نفری کی ذمہ داری کیا ہے ؟ شریف عوام کو تحفظ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ لاقانونیت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ عام افراد سرمایہ کاری کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اس بات کا نوٹس کب لیں گے؟ انڈر ورلڈ اور مافیاز ختم کرنے کیلئے اقدامات کب اٹھائے جائیں گے؟

ہر مارکیٹ میں موجود اسمگلنگ کا مال کہاں سے آتا ہے ؟
پاکستان کی کوئی بھی مارکیٹ ایسی نہیں ہے کہ جہاں اسمگل شدہ اشیاء نہ ہوں، عوام حیران کہ یہ اسمگل شدہ مال کن راستوں سے آرہا ہے؟ اگر کچھ راستے اور سڑکیں ایسی ہیںکہ جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے موجود نہیں ہوتے اور یہ مال اُن راستوں سے آجاتا ہے تو پھر پورا ملک ہی غیر محفوظ ہے۔ دہشت گردوں کی پوری فوج اسلحہ لیکر ان راستوں سے اہم مارکیٹوں تک پہنچ سکتی ہے اور انھیں بھی کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی۔ محکمہ کسٹم، پولیس، ایف آئی اے اور دوسرے محکموں کو یہ سب کچھ نظرکیوں نہیں آتا؟ اسمگلروں اور اسمگل شدہ اشیاء بیچنے والے تاجروں کو کس کی پشُت پناہی حاصل ہے؟ ’’تحریک انصاف‘‘ میں شامل عوامی نمائندوں کی نگاہوں سے یہ سب کچھ ایک دم اوجھل کیوں ہوگیا ہے؟

یہ ہول سیل مارکیٹیں ہمیشہ کھلی جگہ پر قائم کی جاتی ہیں تاکہ سامان لانے اور پہنچانے میں کوئی دِقت نہ ہو مگر شہر لاہور کی تقریباً تمام ہول سیل مارکیٹیں اندروں شہر کی ان گلیوں میں قائم ہیں کہ جہاں سے اکیلے بندے کا گزرنا محال ہوتا ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ ان علاقوں میں رہائشی مکانات کو پلازوں میں تبدیل کرنے کی اجازت کس نے دی؟ کونسلروں، ایم پی ایز اور یہاں کے ایم این اے کے علم میں یہ لاقانونیت کیوں نہیں آئی؟ اگر یہ سب کچھ ’’ عوامی نمائندوں ‘‘ اور سرکاری ملازمین کے باہمی تعاون اور مِلی بھگت کی وجہ سے ہوا ہے تو کسی کو بھی کٹہرے میں کیوں نہیں لایا گیا؟

کیا یہ نظام بھی بدنیت افراد کی کمزور بیساکھیوں پر کھڑا ہے؟ کیا موجودہ حکومت کسی ’’ عوامی ردعمل ‘‘ کے خوف کی وجہ سے لاقانونیت پر نکیل نہیں ڈال سکی؟ کیا آج بھی غیر ذمہ دار اور مفاد پرست عناصر ریاست سے بھی مضبوط ہیں؟ ایسے لاتعداد سوالات ہر ذہن میں کلبلا رہے ہیں، حکومت کو ان سوالات کا جواب بھی دینا پڑے گا اور ان کا حل بھی بتانا پڑے گا۔ مگر شائد موجودہ حکومت بھی بیماری کی صحیح تشخص کر سکی ہے، نہ ہی موثر علاج تجویز کر سکی ہے ۔شائد پانچ سال ایسے ہی پورے ہو جائیں گے۔

ایم اے پاس کو سر جن لگانے کا حکم شاہی
ایک دفعہ ایک ایسے بیوروکریٹ سے ملاقات کا اتفاق ہوا کہ جنہوں نے ایم بی بی ایس کرکے سی ایس ایس ( مقابلے کا امتحان) دیا، امتحان اور انٹر ویو میں کامیاب ہونے کے بعد انھیں سول ایڈ منسٹریشن میں بطور اے سی تعینات کردیا گیا، جب وہ بطور ڈپٹی کمشنر تعینات تھے تو میں نے ایک سوال کیا کہ ’’ میڈیکل کے شعبے یعنی وزات صحت میں بھی تو انتظامی شعبے ہیں وہاں تعینات کیوں نہیں کیا گیا؟ اس سوال کا جواب دینے کی بجائے وہ ان ڈاکٹرز، انجنیئرز اور ایم بی اے حضرات اور چارٹرڈ اکاونٹس کا بتانے لگے کہ جو اسوقت سول بیوروکریسی کے انتظامی اُمور کے شعبوں میں تعینات ہیں، ہمارے مسا ئل کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ تقر یباً ہر شعبے میں اس شعبے سے متعلقہ قابل اور اہل افراد کی کمی ہے، لوگ سی ایس ایس کرکے اپنی متعلقہ وزارتوں میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر یا سیکشن افسر بننے کو تر جیح دینے کی بجائے، کسٹم ، پولیس، ایکسائز اور فارن آفس کو ترجیح دیتے ہیں، اور حکومت بھی ان کی خواہش کا احترام کرتی ہے۔ ایسے بندوں کو غیر متعلقہ محکموں میں کام کرتے دیکھ کر ایک بھارتی ریاست کے وہ مہاراجہ یاد آجاتے ہیں، جن کے پاس اُس زمانے کا ایم اے پاس سفارشی نوجوان ملازمت کیلئے آیا، تو انھوں نے اُسے ہسپتال میں ’’ سرجن‘‘ لگانے کے احکامات جاری کردئیے، پہلے والے سرجن کو کوتوال لگانے کا حکم دیا اور کوتوال کو جیل میں ڈالنے کا حکم دیدیا۔ وطن عزیز میں کئی جگہ ایسے ہی مناظر نظر آتے ہیں ، جب تک ہر محکمے میں ایکسپرٹ نہیں لگائے جائیں گے، اداروں کی ترقی مشکل ہی ہے، اس وقت اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت تمام بیوروکریٹس اور سر کاری افسران کی متعلقہ شعبے کی تعلیم اور مہارت دیکھتے ہوئے انھیں متعلقہ شعبوں میں تعینات کرے۔

مفید پراجیکٹس تو جاری رہنے چاہئیں
پچھلے ادوار میں شروع ہونے والے عوامی مفاد کے پراجیکٹس کو مکمل ہونا چاہیے، اگر ممکن ہو تو جاری رہنے بھی چاہئیں۔ جیسے کہ پرویز الٰہی دور کے مفید پراجیکٹس مثلاً ریسیکو 1122 اور ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں تمام ادویات کی مفت فراہمی کو اگلے ادوار میں بند نہیں کیا گیا۔ اب شہباز شریف دور میں طالبعلموں کیلئے خریدے گئے۔ 5000 لیپ ٹاپ خراب ہو رہے ہیں اگر مزید تقسیم ممکن نہیں تو کم از کم یہ لیپ ٹاپ ہی تقسیم کردیں۔ طالبعلموں میں نہیں کرنے تو سرکاری دفاتر میں ہی تقسیم کردیں کہ دفتری کاموں میں سہولت ہو، اور بھی کئی ایسے کام ہیں جنہیں جاری رکھنا چاہیے۔ پیسہ تو قوم کا خرچ ہوا ہے کسی کی اپنی جیب سے تو نہیں گیا۔ پراجیکٹس جاری نہ رہنے سے کسی کا کیا نقصان ہوگا ۔ ماسوائے قو م کے نقصان کے!n

کہیں بھی تبدیلی نظر نہیں آتی
جمہوری نظام کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہر علاقے سے بلدیاتی سطح سے لیکر ایم این اے کی سطح تک وہ افراد منتخب کئے جائیں کہ جو اپنے علاقے کے تمام مسائل اور ’’ جغرافیے‘‘ سے واقف ہوں وہ اپنے علاقے کی عوام کے مفاد کے خلاف کوئی کام نہ ہونے دیں ۔ وہ اپنے علاقے کی عوام کے محافظ ہوتے ہیں، محکمہ پولیس اور دوسرے تمام سر کاری ادارے عوام کے حقوق اور تحفظ کیلئے انکے معاون ہوتے ہیں ، باکردار اور دیا نتدار عوامی نمائندے اگر باصلاحیت بھی ہوں تو انکے علاقے میں کسی قسم کا ایسا مسئلہ ہی نہ پیدا ہو کہ کسی کو بھی کوئی تکلیف پہنچے ، کسی کی حق تلفی ہو، کوئی سرکاری ملازم کسی کے ساتھ زیادتی کر سکے، مفاد عامہ کے تمام کاموں میں کوئی رکاوٹ درپیش ہو ، جمہوریت میں کو نسلر سے لیکر وزیراعظم تک ایک مربوط سیاسی نظام ہوتا ہے، مگر ہر علاقے میں نا انصافی، لاقانو نیت، غنڈہ گردی اور لاتعداد عوامی مسائل نظرآتے ہیں۔ سرکاری مشینری عوام و نمائندوں کو کسی خاطر میں ہی نہیں لاتی، اس جمہوری نظام میں بھی عوام لاوارث اور بے بس ہے، کہیں بھی تبدیلی نظر نہیں آتی،اس حکومت پر بنیادی ذمہ داری یہی عائد ہوتی ہے کہ وہ سر کاری مشینری کے اختیارات متعین کرے۔ عوامی نمائندوں کو پولیس اور دوسرے سر کاری اہلکاروں کا تابع بنانے کی بجائے عوامی مفادات کے کاموں میں انھیں سیاسی اور عوامی نمائندوں کا تابع بنایا جائے۔ اگر وزیر اعظم اور ان کے ساتھی ترقی یافتہ ممالک کے جمہوری نظام سے واقف ہیں تو تبدیلی کیلئے انھیں اس ملک میں ’’ صفر ‘‘ سے سفر شروع کرنا پڑے گا۔ان ممالک کی طرح سیاسی اور حکومتی اداروں کو عوام کے مفادات کا نگہبان بنانا پڑے گا۔ عوام کو ملک سے بددل کرنے والے عناصر کو ریاست کا بد ترین مجرم قرار دیا جائے گا، مگر موجودہ حکومت ان بنیادی مسائل اور معاملات میں بھی ابھی تک خاموش ہے !!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔