افغانستان میں 2019 عام شہریوں کے لیے سب سے خونی سال، اقوام متحدہ

ویب ڈیسک  ہفتہ 19 اکتوبر 2019
افغان خاتون ایک قبرستان سے گزر رہی ہیں۔ فوٹو : فائل

افغان خاتون ایک قبرستان سے گزر رہی ہیں۔ فوٹو : فائل

کابل: افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات سمیت سیکیورٹی فورسز اور جنگجوؤں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں 9 ماہ کے دوران 2 ہزار 563 شہری اپنی جانوں سے گئے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (UNAMA)   کی جانب سے جاری اعداد و شمار میں ہولناک انکشافات کیے گئے ہیں۔ رواں برس جنوری سے ستمبر کے دوران مختلف واقعات میں 2 ہزار 563 شہری ہلاک ہوئے جن میں 261 خواتین اور 631 بچے شامل ہیں۔ یہ 2014 کے بعد 9 ماہ میں ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

اقوام متحدہ کے معاون مشن برائے افغانستان (UNAMA) کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ رواں برس کے 9 ماہ کے دوران دہشت گردی اور جھڑپوں کے واقعات میں 5 ہزار 676 افراد زخمی بھی ہوئے جن میں 662 خواتین اور 18 سو 36 بچے شامل ہیں۔

یہ خبر پڑھیں: افغانستان میں شدت پسندوں کا مسجد پر مارٹرگولے سے حملہ، 62 نمازی شہید

ادھر کابل حکومت کے نمائندوں نے شہریوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کا ذمہ دار طالبان کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ سے شدت پسندوں کی سفاکیت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ طالبان کا ہدف اب ’سوفٹ ٹارگٹس‘ ہیں۔

دوسری جانب طالبان نے شہریوں کی ہلاکتوں میں حکومت کے ملوث ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ فوجی آپریشن کے نام پر گھروں پر بمباری کرکے شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس بات کی نشاندہی پہلے بھی کئی عالمی ادارے کرچکے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خونی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں کا ہو رہا ہے۔ خواتین اور بچے اس جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں۔ عالمی قوتیں افغانستان میں جنگ بندی کیلیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔