آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا

شاہد سردار  اتوار 20 اکتوبر 2019

انسان کو سماجی جانور کہا جاتا ہے، لیکن خود اسے بھی حیوانوں کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھنے کا کہا گیا ہے۔

اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ انسانوں نے حیوانوں سے بہت سی چیزیں سیکھی ہیں جیسے شکارکرنا ، ہوا میں اڑنا، پانی میں تیرنا ، چھلانگ لگانا ، دوڑنا ، پھرتی، ہوشیاری ، عیاری ، بہادری، بزدلی ، لاغری یا کمزوری اور طاقت وغیرہ۔ اور یہ بھی درست ہے کہ برسہا برس سے انسان اپنی بقا کا انحصار اور اپنی طرز زندگی کے طورطریقے کا انتظام و اہتمام جانوروں پر ہی کرتا چلا آیا ہے، اسی لیے آج بھی قدرت کی اس صناعی کے ذریعے ہم کئی بیماریوں کا علاج بھی ڈھونڈ رہے ہیں اور اس میں کامیابی بھی حاصل کر رہے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں بیشتر انسانوں کو ان کی عادات، خصائل کے حوالے سے جانوروں سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اللہ میاں کی گائے سیدھے سادھے لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، موٹی خواتین کو بھینس کہا جاتا ہے، کمزور یا بزدل لوگوں کے لیے بکری کی اصطلاح معروف ہے۔ نڈر، جری یا بہادری کے لیے برسہا برس سے شیرکا لقب الاٹ ہے۔ بے وقوف یا کم عقل لوگوں کو گدھا کہا اور سمجھا جاتا ہے، غیر معمولی لمبے آدمی کو اونٹ سے ملا دیا جاتا ہے۔

کتا بڑا ہی وفادار اور جانثارجانور ہے، بیشتر ممالک میں اس سے سراغ رسانی کا کام لیا جاتا ہے۔ گھروں میں چوکی داری کے کام میں بھی بہت آتا ہے۔ ایک امریکی مزاح نگار کے بقول کہ ’’ بچپن میں ہم لوگ اتنے غریب تھے کہ گھر میں کتا رکھنا افورڈ نہیں کرسکتے تھے چنانچہ رات کو چوروں سے محفوظ رہنے کے لیے ہم تمام اہل خانہ باری باری بھونکنے کی ڈیوٹی انجام دیتے تھے۔‘‘

کئی لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ بلاوجہ بھونکتے ہیں۔ ہمارے اطراف میں زیادہ بک بک کرنے والوں سے لوگ اکثر چڑتے اور انھیں خاموش رہنے کی تلقین کرتے ہیں لیکن زیادہ بولنے کی عادت میں مبتلا شخص ’’اچھا ایک بات بولوں؟ ‘‘ کہہ کہہ کر بولتا چلا جاتا ہے اور سننے والا ’’ اچھا بھونکو ‘‘ کہہ کر اسے سنتا رہتا ہے۔ ہماری دانست میں انسانوں کا بولنا اورکتوں کا بھونکنا ان کا بنیادی حق ہے۔

ہم نے دنیا جہاں میں ہونے والی زبانوں کو بہت سے نام دیے ہوئے ہیں لیکن کتوں کی زبان کو ہم نے جو نام دیا ہے وہ ’’ بھونکنا ‘‘ ہے۔ حالانکہ یہ تعصب کی انتہا ہے، وہ بے چارے اگر آپس میں کوئی معقول یا ضروری بات بھی کر رہے ہوں تو ہم اسے بھی بھونکنے کے زمرے میں لے لیتے ہیں۔ کتا جیسا کہ ہم نے پہلے کہا وفادار جانور ہے لیکن اس کی وفاداری کا بھی کوئی پاس نہیں رکھتا اور اگر کوئی انسان دوسرے انسان کو کتا کہے تو اسے گالی کی طرح لیا یا سمجھا جاتا ہے۔ سور حرام جانور ہے اسی لیے زیادہ تر ہمارے معاشرے میں ناپسندیدہ شخص کو سور کا بچہ حرف عام میں کہا جاتا ہے۔

کوے کا شمار انتہائی ذہین و فطین پرندوں میں کیا جاتا ہے، غالباً یہی وجہ ہے کہ اسے باقی پرندوں کی طرح پنجروں میں قیدکرکے نہیں رکھا جاتا۔ کوے گنتی کرسکتے ہیں، حساب کتاب کے کام میں مہارت رکھتے ہیں ہر چیز مل بانٹ کر کھاتے ہیں ، اتحاد واتفاق کی اہمیت و افادیت سے آگاہ ہیں افسوس اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود آج اکیسویں صدی کا انسان کسی جانور سے کچھ سیکھنے کا روادار نظر نہیں آتا۔ کوے سے متعلق اردو ادب میں بہت کچھ لکھا گیا اور بیشتر محاوروں میں اس بے چارے کو منفی انداز میں پیش کیا گیا۔ مثال کے طور پر ’’ کوا چلا ہنس کی چال‘‘ یوں کوے کو بہت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کوے کی فاختہ سے ان بن ہو تو بھی انھی کو ہی ظالم کہا جاتا ہے، کوے کو انتہائی ظالم ، جابر اور بے رحم پرندے کے طور پر مشہور کیا گیا ہے۔

چالاک یا ضرورت سے زیادہ ہوشیار خواتین کے لیے ’’ لومڑی‘‘ کی اصطلاح بہت عام ہے، پھرتیلے شخص کو چیتے یا گھوڑے سے ملایا جاتا ہے، ابن الوقت یا مطلب برار شخص کے لیے ’’ طوطا چشم ‘‘ کا خطاب مخصوص ہے۔ جس طرح کرکٹ کے شعبے میں کھلاڑیوں کا پٹھا بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، اسی طرح الو کا پٹھا بھی ہمارے معاشرے میں اپنا کردار ’’بطریق احسن‘‘ ادا کرتا چلا آرہا ہے، کسی سے غلطیاں مسلسل سرزد ہوتی رہیں تو اسے الوکا پٹھا کا خطاب دے دیا جاتا ہے۔ بے وفا، سخت ذہنی، دلی یا مالی صدمہ دینے والوں کو آستین کا سانپ کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے کسی شاعر نے خوب کہا ہے کہ:

جنگل میں سانپ شہر میں بستے ہیں آدمی

سانپوں سے بچ کے آئیں تو ڈستے ہیں آدمی

ویسے بھی انسان وہ واحد حیوان ہے جو اپنا زہر اپنے دل میں رکھتا ہے۔چوہا بھی ایک جانور ہے جسے بے بس و لاچار لوگوں کو سمجھا جاتا رہا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بہادر سے بہادر یا معقول سے معقول آدمی بھی شادی کے بعد شیر سے چوہے بن جاتے ہیں اور اسی حیثیت میں وہ قبر میں چلے جاتے ہیں۔ سیاست میں دیکھ لیں حزب اختلاف (اپوزیشن) میں ہر شخص شیر ہوتا ہے، وہ حکومت کرنے والوں کو للکارتا ہے، آئی ایم ایف، اور ورلڈ بینک پر لعنت بھیجتا ہے امریکا، برطانیہ اور بھارت کو دھمکیاں دیتا ہے لیکن یہی شیر اقتدار میں آتے ہی چوہا بن جاتا ہے اور فوری طور پر عالمی طاقتوں اور مالیاتی اداروں کے سامنے قلم  دوات لے کر بیٹھ جاتا ہے اور ڈکٹیشن لینا شروع کر  دیتا ہے۔ امریکا، برطانیہ، روس اور بھارت سبھی کی خوشامد کرنے لگتا ہے۔

غورکیا جائے تو اشرف المخلوقات یا باضمیر بہادر اور اصول پسند انسان کو چوہا بنانے والی اصل چیز اس کی خواہشات اور حقیقت سے چشم پوشی یا مصلحت کوشی ہوتی ہے۔ انسان اپنے مفاد، اپنی انا، اپنی غرض اور دنیاوی چیزوں کے حصول کے لیے دراصل چوہا بن جاتا ہے۔ ایم این اے اور ایم پی اے یعنی وفاقی اور صوبائی وزرا کو تو چھوڑیں وہ بلدیاتی نظام میں کونسلر بننے کے لیے چوہا بن جاتا ہے۔ انسانی ہوس اور اس کے نظام کی وجہ سے ہمارے ملک کی کثیر آبادی (حکمرانوں سمیت) چوہوں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے، ان کی شکلیں، ان کی شناخت تبدیل ہو رہی ہے ایسے میں چوہوں کی بستی میں جو چند انسان رہ جائیں گے ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوجائے گا۔

لیکن باوجود اس کے آج کے انسانوں کو جانوروں ہی سے سیکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ انسان اپنا درجہ تو صدیوں سے بھول چکا ہے۔ اسی لیے  تو کبھی بوسنیا، کبھی چیچنیا، کبھی روہنگیا کے مسلمان ذبح ہوتے ہیں اورکشمیر میں تو یہ عمل مسلسل 72 سالوں سے جاری و ساری ہے۔ فلسطین کے بارے میں توکچھ نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔ واقعی انسان نے اپنے ہی  جیسے انسان کو تڑپانے اور اذیت دینے کے کتنے حربے ایجاد کر رکھے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔