نوابزادہ لیاقت علی خان، ایک عظیم لیڈر، ایک عظیم انسان

نسیم انجم  اتوار 20 اکتوبر 2019
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

آج 16 اکتوبر کو ہم سب ان کی یادوں اور یوم شہادت کے چراغوں کی لو کو بڑھانے کے لیے جمع ہوئے ہیں ۔ لیاقت علی خان محب وطن، دیانت دار، راست باز، باوقار لیڈر کے طور پر دنیا کے سامنے آئے اور اپنے حسن عمل، صبر و تحمل، عجز و انکسار کی بدولت تاریخ کے صفحات پر امر ہوگئے۔

وہ نواب تھے، جاگیردار تھے، منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے تھے، دولت کا انبار، زمین، جائیداد، نوکر چاکر، کسی چیز کی کمی نہ تھی، جب انگلینڈ تعلیم حاصل کرنے گئے تو گھر والوں نے ان کے لیے تعیشات زندگی کی چیزیں مہیا کردیں کہ یہ ان کی ضروریات تھیں۔ ایک گاڑی، ملازم، خانساماں لیکن پاکستان کے قیام کے لیے انھوں نے عیش و عشرت کی زندگی کو خیرباد کہا اور جدوجہد پاکستان اور قیام پاکستان کے لیے تن، من، دھن کی بازی لگا دی۔

پاکستان کے یہ عظیم المرتبت سپوت یکم اکتوبر 1895 کو ضلع کرنال کے ایک جاگیردار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا اسم گرامی اور وجہ شہرت رکن الدولہ شمشیر جنگ نواب رستم علی خان تھی۔ والدہ محترمہ محمودہ بیگم کا تعلق سہارنپور سے تھا۔ لیاقت علی خان کا تعلیمی سلسلہ کچھ اس طرح بنتا ہے کہ ابتدا میں گھر میں ہی تعلیم حاصل کی اور پھر 1910 میں مزید تعلیم کے لیے علی گڑھ اور پھر علی گڑھ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد لیاقت علی خان انگلستان چلے گئے اور 1921 میں بیرسٹری کی سند حاصل کی۔ وہ دور بھی کیا دور تھا جب والدین کم عمری میں ہی اور خاص طور پر دوران تعلیم اپنے بچوں کی شادی کرکے اپنے فرائض سے سبکدوش ہوجاتے تھے، لیاقت علی خان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، ابھی آپ تعلیم مکمل نہیں کرسکے تھے کہ ان کی شادی ان کی چچا زاد جہانگیرہ بیگم سے کردی گئی اس شادی کے کچھ عرصے بعد ہی لیاقت علی خان کی دوسری شادی رعنا بیگم سے ہوئی ان سے دو صاحبزادے اکبر علی خان اور اشرف علی خان پیدا ہوئے جب کہ ایک بیٹا ولایت علی خان پہلی بیگم کے بطن سے تھے۔ اس طرح لیاقت علی خان کو تین اولادیں، اولاد نرینہ کی شکل میں اللہ نے نعمت کے طور پر عطا کیں۔

لیاقت علی خان نے بیرسٹری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد باقاعدہ وکالت شروع کردی۔ تعلیمی ادوار میں ہی سیاست کی طرف راغب ہوگئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منزل کی طرف رواں دواں تھے۔لہٰذا 1936 میں ضلع مظفر نگر یوپی سے قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اس کے ساتھ ہی انھوں نے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آکسفورڈ یونیورسٹی میں ’’ہندوستانی مجلس‘‘ کے نام سے ایک مجلس قائم کی، اس میں ہندوستان کی ترقی اور سیاسی امور پر گفتگو ہوتی تھی، لیاقت علی خان نے ’’خازن‘‘ کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیے۔ سیاسی سفر جاری رہا اور وہ کامیابی کی منزلیں طے کرتے چلے گئے۔ انھوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی رکنیت حاصل کی۔ یہ سن 1923 کا زمانہ تھا۔

لیاقت علی خان شروع میں جداگانہ انتخاب کے مخالف تھے لیکن وہ وقت بھی آیا جب آپ جداگانہ انتخاب کے سب سے بڑے داعی کے طور پر سامنے آئے اور پھر کامیابیوں کا سفر اس طرح جاری رہا کہ 1930 میں بلامقابلہ ضلع مظفر نگر یوپی کی نشست پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے اور جب 1937 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم نو کی گئی تو قائد اعظم محمد علی جناح نے نوابزادہ لیاقت علی خان کی مخلصانہ کوششوں، جستجو اور اخلاص کو دیکھتے ہوئے انھیں تین سال کے لیے اعزازی سیکریٹری مقرر کردیا۔

اس 1941 میں روہیل کھنڈ کی نشست سے مرکزی اسمبلی کے رکن منتخب کیے گئے۔ لیاقت علی خان 1946 میں قائم ہونے والی عبوری حکومت میں پنڈت جواہر لال نہرو کی کابینہ میں مسلم لیگ کے نمایندے کی حیثیت سے بطور وزیر خزانہ نامزد ہوئے۔ آپ نے اسمبلی میں بجٹ پیش کیا، جسے غریب آدمی کا بجٹ کہا گیا۔ 1945 میں ڈیسائی ’’لیاقت پیکٹ‘‘ کے نام سے ایک معاہدہ عبوری حکومت میں نمایندگی کے اصول پر کیا گیا اور 1946-1945 میں مسلم لیگ کے نمایندے کی حیثیت سے شملہ کانفرنس میں شریک ہوئے۔

نوابزادہ لیاقت علی قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست اور تحریک پاکستان کے ممتاز و معتبر رہنما تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ میں قائد اعظم کے بعد لیاقت علی خان کو دوسرے عظیم رہبر کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ قائد اعظم کی سربراہی میں آپ نے دن رات کام کیا اور ہر سیاسی میدان میں نمایاں کردار ادا کیا۔

قیام پاکستان کی تعمیر و تشکیل میں لیاقت علی خان نے شب و روز کا چین گنوایا۔ قائد اعظم اور دوسرے رہنماؤں کے ساتھ اپنے مقصد کے لیے ڈٹے رہے اور بڑی سے بڑی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا۔ آزاد ملک کے حصول کے لیے لوگوں کو قتل ہوتے اور آزادی کے متوالوں کا سڑکوں پر بہتا ہوا خون، اپنا گھر بار، جائیداد، دولت، پیسہ قربان کیا تب کہیں پاکستان وجود میں آیا لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان کے دشمن بھی پروان چڑھتے رہے، انھیں نہ کل پاکستان کی تخلیق پسند تھی اور نہ آج۔ چنانچہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کو 16 اکتوبر 1951 کو اس وقت شہید کردیا گیا جب وہ کمپنی باغ راولپنڈی میں ایک جلسہ عام سے خطاب فرما رہے تھے تو سید اکبر نامی شخص نے گولی مار کر انھیں شہادت کا تاج پہنادیا۔ ان کی زبان سے جو آخری الفاظ ادا ہوئے وہ یہ تھے کہ خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔‘‘

لیاقت علی خان ہی وہ عظیم شخصیت تھے جنھوں نے قائد اعظم کے انتقال کے بعد فعال کردار ادا کیا، ان کے دور حکومت میں دہلی میں ’’لیاقت نہرو‘‘ معاہدہ ہوا، جس کے تحت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی۔ 1950 میں ہی امریکا سے مالی و فوجی امداد کا معاہدہ عمل میں آیا اور لیاقت علی خان کو پاکستان مسلم لیگ کا صدر نامزد کیا گیا لیکن جب 1951 شروع ہوتا ہے تو بھارت اپنی نوے فیصد فوج پاکستان کی سرحد پر بھیج دیتا ہے تو لیاقت علی خان نے مکہ دکھا کر خبردار کیا اور ان کا یہ مکا تاریخ پاکستان میں بہادری و شجاعت کی علامت بن گیا، اس کی اہمیت کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ لیاقت علی خان کے جاہ و جلال سے جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔ ان کے دور کے اہم کارناموں میں اسمبلی میں قرارداد مقاصد کی منظوری بھی شامل ہے۔

نئی دہلی میں پاکستانی سفارتخانہ لیاقت علی خان کا ذاتی گھر تھا، جسے 1947 میں پاکستان کے لیے وقف کردیا گیا۔ شہادت کے وقت ان کے اندرونی لباس میں پھٹی ہوئی بنیان اور پیروں میں جو جرابیں تھیں ان میں سوراخ تھے۔ پاکستان بننے کے بعد انھوں نے ایک انچ زمین کا کلیم نہیں کیا، سادگی اور غربت کی یہ انتہا تھی کہ پیوند لگی اچکن، تین پتلونیں اور تین قمیضیں تھیں۔ چینی کا کوٹہ ختم ہوجانے کے بعد وہ اور ان کا خاندان پھیکی چائے پینے پر مجبور تھا، ان کا کوئی ذاتی بینک اکاؤنٹ نہیں تھا۔

ایک موقع پر لیاقت علی خان نے کہا تھا کہ ’’ایک غریب قوم کا وزیر اعظم اپنے لیے نئے کپڑے، وافر مقدار میں کھانا اور ذاتی گھر رکھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔‘‘ شہادت کے بعد قوم نے انھیں ’’شہید ملت‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ اللہ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا تھا:

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

(قائد اعظم اکیڈمی میں پڑھا گیا مضمون)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔