پاکستان کرکٹ میں اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ جاری

عباس رضا  اتوار 20 اکتوبر 2019
انوکھے فیصلوں کا بوجھ کون اٹھائے گا؟۔ فوٹو: فائل

انوکھے فیصلوں کا بوجھ کون اٹھائے گا؟۔ فوٹو: فائل

ہر میگا ایونٹ میں ناقص کارکردگی کے بعد ٹیم اور مینجمنٹ میں اکھاڑ پچھاڑ پاکستان کرکٹ کی روایت رہی ہے، اس بار بھی کہانی کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے، انگلینڈ میں ورلڈ کپ ختم ہونے کے بعد چلنے والی تبدیلیوں کی لہر ابھی تک رکنے کا نام نہیں لے رہی۔

پاکستان کرکٹ میں اہم فیصلوں کی ذمہ دار کرکٹ کمیٹی پہلی بار فعال ہوئی تو ایسے فیصلے کرنا شروع کئے جن میں مفادات کا تضاد تھا، مصباح الحق نے وسیم اکرم اور دیگر ارکان کے ہمراہ پہلے ہیڈ کوچ مکی آرتھر اور معاون سٹاف کو رخصتی کا پروانہ جاری کیا، پھر پی سی بی نے سابق کپتان کو ہیڈ کوچ کے ساتھ چیف سلیکٹر بھی مقرر کرکے دہری ذمہ داریاں سونپ دیں، حیران کن بات یہ ہے کہ وقار یونس جو کبھی ہیڈکوچ کیلیے مضبوط امیدوار نظر آتے تھے اور ماضی میں مصباح الحق بطور کپتان ان کی رہنمائی میں کھیل چکے انہوں نے بھی بولنگ کوچ کی نوکری بخوشی قبول کر لی،کسی بیٹنگ کوچ کا تقرر نہ کئے جانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس ذمہ داری کا بوجھ بھی مصباح الحق کے کاندھوں پر ہے۔

ہیڈکوچ و چیف سلیکٹر کے انوکھے فیصلوں کا سلسلہ سری لنکا کیخلاف سیریز سے شروع ہوا، ون ڈے مقابلوں میں تو پاکستان نو آموز ٹیم پر 2-0سے برتری ثابت کردی، ٹی ٹوئنٹی مقابلوں کیلیے شائقین بہت پر جوش تھے، ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا سفر تیز ہونے پر ہر کوئی شاداں نظر آتا تھا لیکن قومی ٹیم کی انتہائی مایوس کن کارکردگی نے مزا کرکرا کردیا، عمر اکمل اور احمد شہزاد جیسے چلے ہوئے کارتوسوں کو آزمانے کا تجربہ مصباح الحق نے کیا، ٹیم کا کمبی نیشن بری طرح متاثر ہوا لیکن رسوائی کپتان اور پوری ٹیم کی ہوئی، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ عالمی نمبر ون پاکستان اپنے ہوم گراؤنڈ پر ہی سٹار کرکٹرز کے بغیر آنے والے مہمان ٹیم کے ہاتھوں کلین سویپ کی خفت اٹھائے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گرین شرٹس کی کارکردگی شایان شان نہیں تھی، صدمے کی کیفیت میں پوری قوم رہی لیکن ایسی بھی نوبت نہیں آئی تھی کہ جلد بازی میں غلط فیصلے کردیئے جاتے، ضرورت اس امر کی تھی کہ اپنی غلطیوں پر غور کرتے، ان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جاتی، آسٹریلوی کنڈیشنز کو پیش نظر رکھتے ہوئے قومی ٹی ٹوئنٹی کپ سے ایک دو ایسے نئے چہرے تلاش کیے جاتے جو کارکردگی دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور صرف بابر اعظم کے کندھوں پر بیٹنگ کا بوجھ نہ رہے لیکن ڈومیسٹک ایونٹ ختم ہونے سے قبل ہی عجیب سی صورتحال پیدا کردی گئی۔

کپتان سرفراز احمد کو ٹیسٹ کرکٹ سے فارغ کرکے ان کا بوجھ کم کیا جا سکتا تھا، اس کے بعد امید کی جاسکتی تھی کہ شاید دیگر دونوں فارمیٹ میں بھی ان کی کارکردگی بہتر ہوتی لیکن پی سی بی نے مکمل اکھاڑ پچھاڑ کا فیصلہ کرتے ہوئے ان کو ٹیسٹ کیساتھ ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی قیادت سے بھی ہٹا دیا، دونوں فارمیٹ میں بطور کپتان بھی ان کی جگہ نہیں بچی، پاکستان کی اگلی ون ڈے سیریز جولائی میں ہے، اس لئے فی الحال کوئی باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا، تاہم نوشتہ دیوار یہی ہے کہ سرفراز احمد ایک روز کرکٹ میں بھی نظر نہیں آئیں گے، چیئرمین پی سی بی احسان مانی کی جانب سے اشک شوئی کرتے ہوئے انہیں ڈومیسٹک کرکٹ میں فارم بحال ہونے کے بعد واپسی کا راستہ کھولا ہے لیکن ماضی میں اس انداز میں نکالے جانے والے کئی کرکٹرز اب یاد ماضی بن چکے، سرفراز احمد کا نام بھی اس فہرست میں درج ہوتا نظر آرہا ہے۔

یہ بڑا عجیب سا لگتا ہے کہ کسی ایسے کرکٹر کو قیادت سے الگ کردیا جائے جس نے ایک عرصہ تک ٹیم کو عالمی نمبر ون برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہو، سرفراز احمد کے دورے کپتانی پر نظر ڈالی جائے تو اصل صورتحال کھل کر سامنے آجاتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستان ٹیم کی ٹیسٹ کرکٹ میں کارکردگی کا گراف نیچے ہی رہا،طویل فارمیٹ کے 13میچز میں سے انہوں نے 4جیتے، 8ہارے، ایک ڈرا ہوا،پاکستان اس وقت عالمی رینکنگ میں ساتویں نمبر پر ہے، سرفراز احمد نے اپنے دور کپتانی میں کوئی سنچری سکور نہیں کی،اس دوران ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے بہترین سکور 94گزشتہ سال ابوظبی میں آسٹریلیا کیخلاف میچ میں بنایا، گزشتہ دورہ جنوبی افریقہ میں کی 6اننگز میں سے 3میں انہیں کھاتہ کھولنے کی بھی مہلت نہیں ملی۔ سرفراز احمد کا بطور کپتان ون ڈے میں مجموعی ریکارڈ مناسب ہے، ان کے زیر قیادت پاکستان نے 50ون ڈے میچ کھیلے،28میں فتح اور 20میں شکست ہوئی،چیمپئنز ٹرافی بھی جیتی، گرین شرٹس عالمی رینکنگ میں اس وقت چھٹے نمبر پر ہیں۔

سرفراز احمد نے چیمپئنز ٹرافی سیمی فائنل میں ناقابل شکست 61کی اننگز کھیلتے ہوئے فتح میں اہم کردار ادا کیا تھا،اس کے بعد 44ون ڈے میں انہوں نے 29سے کم کی اوسط سے رنز بنائے، ان میں سے 18اننگز میں انہوں نے بیٹنگ نہیں کی یا 15سے کم سکور پر ناٹ آؤٹ رہے،مزید 12میچز میں وہ 15سے پر آؤٹ ہوئے،اس دوران صرف 3ففٹیز بنائیں۔سرفراز احمد کا سب سے شاندار ریکارڈ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں رہا، پاکستان نے 37میں سے 29میچ جیتے، 8ہارے، ان میں سے 3ناکامیاں سری لنکا کیخلاف لاہور میں کھیلی جانے والی سیریز میں تھیں،ان شکستوں کے باوجود گرین شرٹس کی عالمی نمبر پوزیشن کو کوئی خطرہ نہیں،اس فارمیٹ میں سرفراز احمد کی ذاتی کارکردگی بھی اتنی خراب نہیں رہی،قیادت سنبھالنے کے بعد ان کی اوسط 28سے کم ہوکر 26.6ہوئی،مسلسل 11سیریز فتوحات کا عالمی ریکارڈ بنانے کے باوجود سرفراز احمد کی کپتانی محفوظ نہیں رہ سکی۔

یہ فیصلے اس لئے بھی حیران کن ہیں کہ بابر اعظم قومی ٹیم کی بیٹنگ میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتے ہیں، کوئی بھی فارمیٹ ہو، اگر ان کا بیٹ نہ چلے تو آنے والے بیٹسمین بھی اعتماد کھو بیٹھتے ہیں،چیمپئنز ٹرافی اور بعد ازاں بھی چند سیریز میں فخرزمان بطور اوپنر اچھا آغاز فراہم کرتے رہے جس کی وجہ سے بابر اعظم کو اپنے نیچرل کھیل کا مظاہرہ کرنے کی مہلت مل جاتی اور وہ سیٹ ہوکر لمبی اننگز کھیلنے میں کامیاب ہوجاتے، فخرزمان نے اپنی تکنیک پر کام نہیں کیا، دنیا بھر کر بولرز ان کی کمزوریاں بھانپ چکے،ٹاپ آرڈر میں امام الحق عام طور پر اعتماد ہوتے ہیں لیکن ان سے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں کسی دھماکہ خیز اننگز کی توقع نہیں کی جاسکتی،احمد شہزاد کا تجربہ بری طرح ناکام ہوچکا،سری لنکا کیخلاف ون ڈے سیریز میں بابر اعظم کی پر اعتماد سنچری نے ہی بولرز کا اعتماد متزلزل کیا تھا، ٹی ٹوئنٹی میچز میں ان کا بیٹ نہیں چلا تو پوری بیٹنگ ہی ڈگماتی نظر آئی۔

بیرون ملک بھی بیٹنگ کا زیادہ تر بوجھ بابر اعظم اٹھاتے رہے ہیں،ان کو ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا کپتان بنائے جانے سے ذاتی کارکردگی متاثر ہونے کا خدشہ رد نہیں کیا جاسکتا، ماضی میں سچ ٹنڈولکر جیسے عظیم بیٹسمین نے بھی قیادت سے توبہ کرلی تھی،بابر اعظم کا ذاتی ڈسپلن بہترین ہے،ٹریننگ اور پریکٹس شیڈول کی پابندی کے معاملے میں سابق ہیڈ کوچ مکی آرتھر کے بعد مصباح الحق کو بھی کوئی شکایت نہیں رہی، نوجوان کرکٹرز کی تمام تر توجہ کرکٹ پر مرکوز رہتی اور اسی لئے سکینڈلز اور آف دی فیلڈ غیر ضروری سرگرمیوں سے بھی دو رہتے ہیں لیکن اس عمر میں ان پر قیادت کا بوجھ ڈالنا مناسب فیصلہ نہیں لگتا، آسٹریلیا کے ٹورز میں ناکامیاں کئی نامور کپتانوں اور کرکٹرز کے مستقبل کھاچکیں، نومبر میں سیریز کے دوران بابر اعظم کی ذاتی کارکردگی پر اثر پڑا تو اس کہ ذمہ داری کون قبول کرے گا۔

دوسری جانب اظہرعلی کا بطور ٹیسٹ کپتان انتخاب دیکھا جائے تو اس پر سوال اٹھائے جاسکتے ہیں، پاکستان کے سب سے تجربہ کار بیٹسمین ضرور ہیں لیکن گذشتہ دو سال سے وہ طویل فارمیٹ میں قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے، یونس خان اور مصباح الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد اظہرعلی 25 ٹیسٹ اننگز میں صرف ایک سنچری سکور کرنے میں کامیاب ہوسکے،جنوبی افریقہ کے خلاف آخری ٹیسٹ سیریز میں بیٹنگ کا دارومدار ان پر تھا لیکن مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا، 2 بار صفر پر آؤٹ ہوئے، اس سیریز میں ان کا سب سے بڑا سکور 36 رنز تھا، اظہر علی کا کپتانی کا انداز دفاعی رہا ہے، وہ اس سے قبل صرف ایک ٹیسٹ میں کپتانی کر چکے جس میں پاکستان کو شکست ہوئی تھی، گرچہ لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران انہوںنے آسٹریلیا کیخلاف سیریز میں بے خوف اور جارحانہ کرکٹ کھیلنے کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن ہیڈ کوچ مصباح الحق کے مائنڈ سیٹ کا عکس ان کے مزاج میں بھی رچا نظر آتا ہے۔

ورلڈکپ 2015کے بعد مصباح الحق کی رخصتی ہوئی تو انہیں کی سفارش پر اظہر علی کو ون ڈے ٹیم کا کپتان بنایا گیا تھا لیکن یہ تجربہ بری طرح ناکام ہوا،بہتری کی توقع تو ہمیشہ رکھنا چاہیے لیکن ماضی میں اظہر علی کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ایسا ہوتا نظر نہیں آتا، آسٹریلیا کیخلاف سیریز کے لیے سکواڈز کا اعلان پیر کو ہونا ہے، اس میں بھی کئی غیر متوقع فیصلے سامنے آسکتے ہیں،سلیکٹرز کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بولرز کا انتخاب ہے،محمد عامر کی ریٹائرمنٹ، وہاب ریاض کی طویل فارمیٹ سے رخصتی، حسن علی، محمد عباس کی مشکوک فٹنس اور شاداب خان کی ناقص فارم کو پیش نظر رکھتے ہوئے نئے بولرز کو موقع دیا جاسکتا ہے، قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں دو روز کوئی میچ نہ ہونے کی وجہ سے بولنگ کوچ وقار یونس بولرز کی صلاحیتوں کو پرکھ اور نکھار رہے ہیں، متاثر کن کارکردگی پیش کرنے والوں کو آسٹریلیا روانگی کا ٹکٹ مل سکتا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔