افہمام وتفہیم سے مسائل حل کریں

ایڈیٹوریل  پير 21 اکتوبر 2019
گھیراؤ جلاؤ سے ملک کو سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوگا ، اس سے صرف دشمن کو ہی فائدہ ہوگا (فوٹو: فائل)

گھیراؤ جلاؤ سے ملک کو سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوگا ، اس سے صرف دشمن کو ہی فائدہ ہوگا (فوٹو: فائل)

مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کو روکنے کے لیے ایک جانب حکومت مذاکرات کی دعوت دے رہی ہے تو دوسری جانب مارچ روکنے کے لیے سخت ترین سیکیورٹی انتظامات بھی کیے جا رہے ہیں اور حکومتی وزراء کے جانب سے سخت بیانات بھی جاری کیے جارہے ہیں۔

علاوہ ازیں ذرایع کے مطابق مذاکرات میں ناکامی اور مارچ اور دھرنے کی ضد پر قائم رہنے کی صورت میں جے یو آئی (ف) کے اہم رہنماؤں کو نظر بند کرنے کے آپشن پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے قائم کی گئی حکومتی کمیٹی کے سربراہ وزیر دفاع پرویز خٹک نے ہفتے کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کا استعفیٰ ناممکن بات ہے۔

وزیر اعظم نے مذاکرات کے لیے سینئر لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنا دی ہے، اب اپوزیشن میںسے جس کے جو مطالبات ہیں وہ بتا دے، ہم غورکریں گے، آج بھی کچھ لوگ کمیٹی میں ناموں پراعتراض کررہے ہیں مگر ہم نے سنجیدگی ظاہرکرنے کے لیے اسپیکراور چیئرمین سینیٹ کو شامل کیا ہے، اب ساری اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں جو بات بھی ہوگی وہ ٹیبل پر ہی ہوگی، ہم جمہوری لوگ ہیں،بیٹھ کر بات کریں گے۔

اپوزیشن والے اگرمطالبات نہیں بتائیں گے توافراتفری ہو گی، ہم اپنا فرض ادا کر چکے ہیں، ہم نے گھبرا کر کمیٹی نہیں بنائی، یہ جمہوریت کے معاملات ہیں، پی پی پی، ن لیگ اور جے یو آئی کو مذاکرات کا پیغام بھیجا ہے، اگر کوئی بات نہیں کرتا تو اس کا مطلب ہے ان کا ایجنڈا کچھ اور ہے۔

مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور اس میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے شریک ہونے کے اعلانات نے ملک کی سیاسی فضا میں غیریقینی اور عدم استحکام پیدا کر دیا ہے۔ شروع میں مولانا فضل الرحمن کے بیانات کو سنجیدہ نہیں لیا گیا لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو حالات کی نزاکت کا احساس ہوگیا ہے ، اسی لیے اس نے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی ہے جو ایک مثبت پیش رفت ہے ۔

ابھی حکومت کو آئے 14ماہ کا عرصہ بیتا ہے اور وہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے اور معاشی استحکام لانے کے دعوے کر رہی ہے کہ ایک بار پھر حکومت کے خلاف دھرنوں اور مارچ کا ماحول پیدا ہو رہا ہے۔ اس قسم کی صورتحال سے کاروباری سرگرمیاں مزید سست ہونے کے خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں۔ملک میں تاجر بھی احتجاج کررہے ہیں، حکومت کو اس معاملے کو خوش اسلوبی سے طے کرنا چاہیے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپوزیشن کی جانب سے دھرنوں اور مارچ کی روایت نئی نہیں لیکن ڈاکٹر طاہر القادری اور تحریک انصاف کے دھرنے نے جو روایت ڈالی اس میں پیش رفت اب مولانا فضل الرحمن کے مارچ کے اعلانات کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ اس سے قبل تحریک لبیک بھی اسلام آباد میں دھرنا دے چکی ہے۔

وزیر دفاع پرویز خٹک نے پی ٹی آئی کے احتجاجی مارچ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دھرنے کی وجہ اور تھی‘ تمام راستوں کے بند ہونے پر دھرنا دیا تھا‘ مجھ پر بھی شیلنگ کی گئی، ہم نے اس وقت بھی مذاکرات کیے تھے‘ یہ لوگ کنٹینر میں آ کر بات کرتے تھے‘ پاناما معاملے پر کمیشن کا فیصلہ ہم نے مانا تھا‘ کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا‘ شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ یہ نا اہل حکومت ہے ہم بھی اس کا جواب دیں گے،پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ مسلح جتھوں کی اجازت نہیں، ہم نے دیکھا کہ ڈنڈوں پر خاردار تاریں لگائی گئی تھیں، قانون میں اس کی اجازت نہیں ہے۔

وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود نے تشویش ظاہرکی کہ مدارس کے بچے دھرنے میں استعمال ہورہے ہیں، ہم سارے ملک کے بچوں کے محافظ ہیں، آج ملکی حالات ایسے نہیں کہ احتجاج کیا جائے ،آج کشمیرکا اصل ایشو پیچھے چلا گیا ہے، آج ملک کی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے جو جلد بہتر ہو جائے گی۔

اخباری اطلاعات کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے حکومتی کمیٹی کی مذاکرات کی پیشکش کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔اس حوالے سے اپوزیشن رہنماؤں نے مولانا فضل الرحمان کو تجویز دی ہے کہ اے پی سی یا اپوزیشن کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے تاکہ حکومت سے مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ اور آیندہ کی حکمت عملی کا اعلان کیا جائے۔

پی ٹی آئی ذرایع کے مطابق حکومت اپوزیشن کا جواب آنے کے بعد مارچ سے نمٹنے کی حکمت عملی کو حتمی شکل دے گی۔ اگر احتجاج سے اسلام آباد یا ملک کے دیگر حصوں میں امن وامان خراب ہونے کا خدشہ ہوا تو پھر اپوزیشن رہنماؤں کو نظر بند یا گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ انتہائی ضرورت پڑنے پر اسلام آباد کی سیکیورٹی رینجرز یا فوج کے سپرد کرنے کا فیصلہ بھی ہو سکتا ہے۔ وفاقی حکومت نے طے کیا ہے کہ آزادی مارچ کو ریڈ زون میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔اگر صورتحال خراب ہونے کا انتہائی خدشہ ہوا تو کرفیو کا آپشن استعمال کرنے پر غور کیا جائے گا۔

اس وقت حکومت کو معیشت اور کشمیر جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے‘ بھارتی فورسز نے گزشتہ روز بھی کنٹرول لائن پر سیزفائر کی خلاف ورزی کی اور سول آبادی پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں پاک فوج کا ایک جوان شہید ہوگیا جب کہ 5شہری بھی شہید ہوئے ، بھارت کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ادھر ملک کی معاشی حالت بھی امن کی تمنائی ہے، اگر امن اور سیاسی استحکام ہوگا تو کاروبار چلیں گے۔

ایسی صورت میں ملک کسی اندرونی خلفشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگر ملک میں کوئی ڈیڈ لاک پیدا ہوتا اور کسی کی جان و مال کو نقصان پہنچتا ہے تو اسے کسی طور بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بہتر ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں ملک کو کسی نئے بحران سے دوچار کرنے اور مشکل میں ڈالنے کے بجائے مذاکرات اور افہام وتفہیم کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں، ملک کے استحکام کے لیے یہی بہترین راستہ ہے۔

گھیراؤ جلاؤ سے ملک کو سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوگا ، اس سے صرف دشمن کو ہی فائدہ ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔