تین طرح کا نظام تعلیم

ظہیر اختر بیدری  پير 21 اکتوبر 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

وزیر اعظم نے کہا ہے کہ آج ملک میں تین طرح کا نصاب تعلیم چل رہا ہے۔ عمران خان نے کہا ہے تعلیم سے دوری کی وجہ سے آج مسلمان تنزلی کا شکار ہے، انگریز نے منصوبے کے تحت مسلمانوں کا تعلیمی مزاج ختم کیا جس کا نتیجہ تعلیم کی افراتفری کی شکل میں سامنے آیا۔

انھوں نے کہا کہ ملک میں تین طرح کا نصاب نا انصافی ہے، عمران خان مدارس کے طلبا سے خطاب کر رہے تھے۔ وزیر اعظم نے ایک اہم اعلان کیا کہ ہم طبقاتی نظام تعلیم ختم کر دیں گے کیونکہ موجودہ تعلیمی نظام کی وجہ سے عوام کی اکثریت اوپر نہیں آ سکتی، یکساں نظام تعلیم ملکی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ آج ہر جگہ مسلمان قتل ہو رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اسی لاکھ افراد کو کھلی جیل میں بند کر دیا گیا ہے۔

عمران خان نے وزارت تعلیم کے زیر اہتمام دینی مدارس کے طلبا میں تقسیم انعامات کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے، کیونکہ عمران خان جانتے تھے کہ تعلیم کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ 7 سو سال تک دنیا کے مسلمان ممتاز ترین سائنسدان تھے، دینی مدارس کے طلبا کو بھی دینی تعلیم کے علاوہ عصری تعلیم کا بھی موقع دیا جائے۔

تاکہ دینی مدارس کے طلبا بھی عصری تعلیم حاصل کر سکیں اور ترقی کر سکیں۔ انھوں نے کہا کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آج ہر جگہ مسلمان ظلم کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تعلیم میں یکسانیت لا کر تحقیق کی راہ ہموار کی جائے، یکساں نصاب کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے تاکہ طلبا ہر شعبے میں اپنی کارکردگی بتائیں۔ بعد ازاں وزیر اعظم کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کمیٹی بنا دی گئی ہے تا کہ طلبا ہر سطح پر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔

بعد ازاں وزیر اعظم کی سربراہی میں اعلیٰ سطح اجلاس ہوا جس میں سی پیک کے تحت مختلف شعبوں میں پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ سی پیک دونوں ملکوں کی ترقی کا مظہر ہے۔ سی پیک منصوبوں میں رکاوٹیں دور کرنی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چین کا دورہ اور چینی وزیر اعظم سے ملاقاتیں پاک چین دوستی کو مزید مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہوں گی۔

وزیراعظم عمران خان کے خیالات انتہائی صائب ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے ملک میں پلانٹڈ تعلیمی ترقی کی وجہ ایک افراتفری کا ماحول ہے۔ اس حوالے سے جو علم پڑھایا جا رہا ہے، وہ غیر منصوبہ بند ہے، ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے کہ تعلیم کے شعبے کی ہر ضرورت کو اولین ترجیح دی جائے۔ ایک عرصے سے غیر منصوبہ بند تعلیم دی جا رہی ہے۔

غیر منصوبہ بندی کا مطلب غیر معینہ ہماری قومی زندگی میں کتنے عام ڈاکٹروں کی ضرورت ہے؟ کتنے طلبا کو سائنس کی تعلیم کی ضرورت ہے، کتنے نوجوانوں کو کیمسٹری میں تعلیم کی ضرورت ہے، کتنے طلبا کی فزکس میں تعلیم کی ضرورت ہے، اس حوالے سے ایک تعلیمی چارٹ بنانے کی ضرورت ہے جو قومی ضروریات کو مدنظر رکھ کر بنایا جائے۔ تا کہ آیندہ زندگی میں ضرورت کے مطابق طلبا کی تعلیم کا انتظام کیا جائے۔

ہمارا ملک زرعی ہے اصولاً زرعی شعبے کو اولیت دی جائے اور اسی حوالے سے مزید تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں رٹا فکیشن کا کلچر عام ہے اور رٹا فکیشن کے سعادت مند طالب علم ہماری تعلیمی صنعت کا کوڑھ ہیں۔ یہ کلچر آج تک چل رہا ہے جس کی وجہ اس شعبے میں ٹیلنٹ کی شدید کمی ہے۔ ہمارے ملک میں ایٹی چیوڈ کو اور زیادہ منظم اور مربوط بنانا چاہیے اور اسے ہمارے تعلیمی رجحان کے مطابق بنانا چاہیے۔ زندگی میں جدوجہد کرنے کی الگ الگ راہیں ہیں اور اسی کے حوالے سے طلبا کو کوئی میدان دیا جاتا ہے تا کہ قومی زندگی میں ایک تال میل ایک ہم آہنگی پیدا ہو۔ بلاشبہ ہر طالب علم کی مستقبل کے لیے چوائس مختلف ہوتی ہے لیکن قومی مطمعنظر میں ہم آہنگی ضروری ہوتی ہے۔

بدقسمتی سے ہمارا ملک بہت پسماندہ ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی پسماندگی کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہماری پسماندگی کا عالم یہ ہے کہ ایک کروڑ سے زیادہ چائلڈ لیبر ہمارے پاس ہے۔ چائلڈ لیبر دراصل غربت کی مجبوری ہے جو ماں باپ اتنے غریب ہیں کہ اپنے بچوں کو باضابطہ تعلیم نہیں دلوا  سکتے وہ مجبوری میں چائلڈ لیبر کے لیے بھیج دیتے ہیں اور اس کا ضمنی پروڈکٹ یہ ہے کہ چائلڈ لیبر محرومیوں اور ناآسودگیوں کا شکار ہوتا ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ چائلڈ لیبر سخت محرومیوں کا شکار رہتا ہے، یہ علیحدہ سے کوئی محرومی ہے نہ بیماری، یہ ہمارے معاشرے کی عام بیماری ہے جو غریب طبقات کا مقدر بنی ہوئی ہے۔

ہمارا معاشرہ جس زہر ناک طبقاتی گھٹن اور طبقاتی محرومیوں کا شکار ہے یا شکار بنا دیا گیا ہے کہ نوجوان طبقہ بڑی حد تک محرومیوں کا شکار ہے اور کسمپرسی کی زندگی گزارتا ہے جس کی وجہ معاشرے میں جرائم کو فروغ ملتا ہے۔ اصل میں ہم نے یہ کالم نوجوان طبقے کو یہ احساس دلانے کے لیے لکھا ہے کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے کیا وہ رضاکارانہ ہے یا جبریہ؟ اگر جبریہ ہے تو دنیا کا کوئی فلسفہ اسے درست نہیں کر سکتا۔

ہمارا معاشرہ طبقاتی ہے اور ان طبقاتی معاشروں میں غریب نوجوان طبقے کی کوئی پسند ہوتی ہے نہ مرضی۔ وہ حاشیے پر زندہ رہتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غریب طبقات کو یوں ہی ساری زندگی حاشیے پر گزار دینی چاہیے یا اس کرپٹ سسٹم کے خلاف بغاوت کر دینی چاہیے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔