شور برپا ہے خانۂ دل میں

نادر شاہ عادل  پير 21 اکتوبر 2019

رحیم بخش ایک عام مستری ، ایک میکنک تھا۔ اس کے ورکشاپ میں پرانے ٹرک ،کاریں، جیپیں اور کوچز لائی جاتیں اور وہ ان کو دن بھر ڈینٹ پینٹ کر کے برانڈ نیو شکل دے کر مالک کو دے دیتا تھا۔ یہی اس کا روزگار تھا۔

اس نے زندگی میں منظم تعلیم حاصل نہیں کی ، بالکل لیاری کے کاکا غلام علی کی طرح ، اس نے بھی علاقے کے ایک مستری سے ان کے گیراج کے سامنے بیٹھ کر اے بی سی ڈی پڑھنا شروع کی۔ یہی کاکا غلام علی عمر عزیز کی آخری سانس تک انگریزی اخبار’’ ڈان‘‘ کا کرائم رپورٹر تھا ۔

رحیم بخش نے گلی کے مدرسے میں رسمی خواندگی کا پروسیس پورا کیا ، سیپارہ پڑھا، قرآن کی تعلیم حاصل کی ، اردو اخبار بھی پڑھ لیتا تھا۔ بی بی سی کا وہ پرستار تھا۔ اس کی خبریں اور سیربین پروگرام سنے بغیر وہ کبھی ورکشاپ بند نہیں کرتا تھا۔ اسے  محلے میں60-70 کی دہائی کے عجیب وغریب عوامی مبصرکی شہرت نصیب ہوئی۔

بلکہ آپ اسے آج کی اصطلاح میں  تجزیہ کارکہہ سکتے ہیں، وہ بڑی روانی سے بی بی سی کی خبروں اور حالات حاضرہ پر اپنی ماہرانہ رائے دیتا، اس کی نظر اور  ذہن کی توسیع اپنے شاندار اثرات کے ساتھ مجھے کشاں کشاں میڈیا کے فلسفی مارشل میکلوہن کے قریب لارہی تھی۔ رحیم بخش میرا پڑوسی تھا۔ میں اکثراپنا فالتو وقت اس کے پاس بیٹھ کرگزارتا، وہ اپنا معمول کا کام نہیں روکتا تھا، اس کے ہاتھ چلتے تھے، اس کی گفتگو اس کے ہاتھوںسے گہری مطابقت رکھتی تھی، اس کا بڑابیٹا الہی بخش اس کا اسسٹنٹ تھا۔ چھوٹا بیٹا کالو ، مولابخش اور وحید وغیرہ اوزار لانے اور صفائی کے دیگرکاموں میں اس کی مدد کرتے۔

میرے مشاہدہ میں کئی بار آیا کہ ایک زنگ آلود حادثوں سے چور سالوں پرانا ٹرک کس طرح مرمت کے مراحل سے گزر سکتا ہے، مگر یہ جب ان کے پاس لایا گیا تو میرے تصور میں نہ تھا کہ اس ٹرک کو زندہ سلامت ایک نئے ٹرک کے سانچے میں ڈھالنے والا رحیم بخش واقعی  اپنے کام میں کتنا ماہر ہے۔ اس کے ہاتھوں میں خدا نے کیسی طاقت اور صلاحیت دی تھی۔ وہ ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے ‘‘ کا فارمولا جان چکا تھا۔ اسے اپنے عہدکی مشینی زندگی کے کمالات اور چھوٹے سے کام کو بھی مشینی قوت، ذہانت، اختراعی وجدان اور اقتصادی حالات کے مطابق مکمل کرنے کا یقین تھا۔

آج رحیم بخش ، وہ استاد بے بدل، شریف النفس مستری اور قناعت پسند محنت کش ہم میں موجود نہیں۔ لیکن اس کی یادیں میرے لاشعور کا حصہ ہیں جب کہ اس کے اور مارشل میکلوہن کے درمیان اب رشتہ صرف مشینی زندگی کا ہے، وہ میکلوہن کے فلسفہ کے مطابق قبائلی اور میکانیکل  عہد کا بندہ تھا۔اس کے دور کی  زندگی اتنی بے ہنگم نہ تھی، سیاسی اور میڈیائی ماحول اس قدر پر شورنہ تھا اور نہ  ’’بقائے اصلح‘‘ survival of the fittest کے خنجر سے لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے تھے۔

کچھ ایسے یاد ماضی کے عذابوں سے دور یادوں کے سائے میں  ہم نے سوچا کہ کیوں نہ مارشل میکلوہن کی کتاب ’’انڈر اسٹینڈنگ میڈیا اینڈ دی ایکسٹنشن آف مین‘‘ کے چند  حوالوں سے نئی نسل کے نمایندوں کو آگاہ کریں۔ ہر چند کہ میڈیا کسی قسم کی توسیع کے کوئی واضح امکان یا روشن افق وا  رکھنے کا سزا وار نہیں مگر شجر سے پیوستہ رہنے میں کیا مضائقہ ہے۔

مارشل میکلوہن کے ذہن رسا کا اندازہ یوں لگا لیجیے کہ وہ شخص 50ء کی دہائی میں جو کتاب لکھ رہا ہے ابھی اس کی اشاعت اور طباعت کو وقت چاہیے تھا پھر جب یہ کتاب چھپ جاتی ہے تو ہمیں کئی سالوں کے بعد اسے جستہ جستہ پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے ۔ یہ میڈیا کا ایسا  فلسفی تھا جس نے کئی سال پہلے کہا تھا کہ ۔As electrically contracted,the globe is not more than a village ۔

وہ دنیا کے پھیلاؤ، وسعتوں اور گلوبلائزیشن کے اثرات و مضمرات کی روشنی میں پہلے سمجھ چکا تھا کہ دنیا عالمی گاؤں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ تین ہزار سال کے در انفجار (امپلوژن) کے بعد ٹکڑوں میں بٹی اور میکانیکل ٹیکنالوجی کے ذریعے مغربی آدمی کی دنیا اندر کے انقلاب، اتھل پتھل اور زلزلوں سے دوچار ہے، اس کیفیت کو ناصرکاظمی کے اس شعر نے واضح کردیا ہے۔

شور   برپا  ہے  خانۂ   دل  میں

کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

اس میکانیکل عہد میں ہم نے اپنے اجسام کو خلاء کی وسعتوں تک بڑھا دیا ، اب ایک صدی بعد ہم نے بڑھاوا  دے کر اسے اپنے مرکزی اعصابی نظام کی توسیع سے جوڑ دیا ہے ۔ یہ توسیع اب عالمی نوعیت کی ہے۔میکلوہن کا کہنا ہے کہ کوئی توسیع چاہے انسانی جلد کی ہو، ہاتھ پاؤں کی،  اعصابی اور سماجی پیچیدہ سسٹم کو متاثر کرتی ہے۔ اس نے ایک دلچسپ بات کی کہ میرے پبلشر نے مجھ سے کہا کہ آپ کی کتاب کا میٹر 75 فیصد نیا ہے جب کہ ایک کتاب کی کامیابی کی مہم جوئی 10 فیصد نئے پن کے بغیر ممکن نہیں۔

میکلوہن کے مطابق میکانیکل عہد میں جو آج رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہے ۔الیکٹرک ٹیکنالوجی غالب آرہی ہے، کئی اعمال کسی تشویش کے بغیر کیے جاتے ہیں، ماضی میں رفتارکی سستی اور وقت کی آہستگی کے باعث کسی ایک ایکشن کا ری ایکشن آنے میں وقت لگتا تھا ، مگر آج ایکشن اور ری ایکشن ایک ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ لیکن ہم مسلسل طرز کہن کے انداز میں سوچتے ہیں، ہماری سپیس جداگانہ ہے، وقت کے انداز پرانی ڈگر کے ہیں، مغربی انسان نے ٹیکنالوجی کی بدولت خواندگی سے یہ طاقت اور استعداد حاصل کی کہ رد عمل کے بغیر اسے عمل کی استعداد مل گئی، برقی (الیکٹریکل) رفتار سماجی اور سیاسی عمل کو ایک جھٹکے سے ملا دیتی ہے، انسانی شعور بلند ہوا ہے، ذمے داری کا احساس بڑھ گیا ہے۔

یہ امپلوزیو فیکٹر ہے جس نے سیاہ فام انسان کی حیثیت بدل کر رکھ دی ہے، آپ اسے روک یا محدود نہیں کرسکتے، اب وہ ہماری زندگیوں میں داخل ہوگیا ہے اور ہم اس کی زندگی میں۔ یہ میڈیا کی بدولت ہوا ہے ، ہمیں اس کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ اس عہد کو ہم امپلوژن کی وجہ سے مایوسی، تشویش اور الجھن کا عہد کہتے ہیں۔

مارشل میکلوہن کہتے ہیں کہ اگر انیسویں صدی ایڈیٹوریل چیئر کی  تھی تو آج کی صدی سائیکاٹرسٹ کے صوفے کی ہے۔ ہر عہد کا اپنا کلچر، اپنا تصوراتی ماڈل اور علمی پیمانہ ہوتا ہے، جو ہر شخص سے منسوب ہوتا ہے، اورہر چیز اس سے جڑی ہوئی ہوتی ہے، ہمارے عہد کا طرہ امتیاز تبدیلی ہے، مسلط کردہ کوئی پیٹرن نہیں، ہم اچانک اس جستجو میں لگ گئے کہ ہرچیز اور یہ لوگ اپنی ہستی  Beingsکو ڈیکلئیر کردیں۔

کوئی رابرٹ تھیو بولڈ کی طرح میڈیا کو اکنامک ڈٰپریشن کا طعنہ دے سکتا ہے۔ ایک اور اضافی فیکٹر بھی ہے جو ڈیپریشن کو کنٹرول کرسکتا ہے، اور یہ چیز اس کی ترقی کی تفہیم ہے، میڈیا کی انسانی انفرادی توسیعات کی آفریشن اور تحقیق و آزمائش خود بھی میڈیا کے بعض شعبوں کے عمومی مشاہدہ کی متقاضی ہیں، اسی سے انسان کی توسیع کو سمجھا جا سکتا ہے۔

اسی سے ہم اس ناختم ہونے والے گونگے پن کا جائزہ لے سکتے ہیں جو اقدار اور سماج میں ہر توسیع کے ساتھ نمودار ہوتی ہے۔ یاد رہے اپنی اس کتاب میں میکلوہن نے میڈٖیا کی اس طاقت کا ذکر بھی کیا ہے جو معاشرے کو بے حسی (Numbness)، عدم دلچسپی اور بے رخی کے بھنور میں ڈال دیتی ہے اور ہمارے جیسے کلچر میں جو زمانے سے عادی ہے محض کنٹرول کی خاطر ہرشے کو تقسیم کردیتی ہے، بالآخر یہی چیز ہمارے لیے صدمہ کا باعث بن جاتی ہے، جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آپریشنل اور عملی طور پر میڈیم ہی میسیج ہے (medium is the message)۔

مطلب یہ ہے کہ انفردی اور سماجی مضمرات و اثرات  کسی بھی میڈیم کے ہوں اور جو ہرتوسیع سے متعلق ہوتے ہیں، وہ درحقیقت ہمارے تعلقات اور توسیع یا نئی ٹیکنالوجی کی شکل اور نتیجہ کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں، لہذا خود کاریت ، آٹومیشن جو انسانی اجتماع کی جدید شکل ہے ملازمین کے خاتمہ کی نوید تو لاتی ہے، اور یہ سچ ہے، لیکن اس کا منفی نتیجہ نکلتا ہے۔

چنانچہ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ وجہ مشین نہیں  بلکہ وہ سوال ہے کہ ہم نے مشینوںکے ساتھ کیا کیا؟ حقیقت یہ ہے کہ آٹومیشن سے جابزjobs پیدا ہوتی ہیں، انسان کو اپنے کام میں گہرائی ملتی ہے، وہ انوالو ہوجاتا ہے،انسانی اشتراک عمل پھیلتا ہے جسے معدوم ہوتی میکانیکل ٹیکنالوجی نے تباہ کردیا تھا۔ مارشل نے کہا کہ جب IBM نے دریافت کیا کہ اس کا کام آفس میں مشین اور آلات کی فراہمی نہیں ہے ، اس کا بنیادی وظیفہ انفارمیشن سروسز ہے تو اس نے اپنے اس کام کی نئی جستجو شروع کی۔ مارشل میکلوہن کا کہنا ہے کہ الیکٹرک لائٹ عام لوگوں کی توجہ کا باعث نہیں بنتی، بطور ایک کمیونیکیشن میڈیم اس کا کوئی کنٹنٹ  نہیں اور یہی سبب ہے کہ وہی شے اس کی ایک قابل قدر مثال بن جاتی ہے۔

ادھر لوگ بھی میڈیا کے مطالعہ میں ناکامی سے دوچار ہیں۔ میکلوہن کے مطابق الیکٹرک لائٹ اور پاور دو الگ چیزیں ہیں۔ وہ یہ بھی انکشاف کرتے ہیں کہ کسی شے کی تقلید following سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا بجز تبدیلی کے۔ اس فلسفی کا کہنا تھا کہ نپولین بونا پارٹ نے تین مشتعل اور رقابتوں پر کمربستہ اخبارات کو ہزاروں سنگینوں سے زیادہ خطرناک قراردیا تھا۔

اس انتباہ کی معروضیت کو ہم پیداشدہ سیاسی صورتحال میں سامنے رکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مستری رحیم بخش کی اپنی زندگی اور کام سے کیسی کمٹمنٹ تھی اور آج سیاست کمٹمنٹ اور خدمت کے کتنے درد انگیز بحران کا شکار ہے۔ ہم بطور قوم موجود بحران اور میڈیا کی طاقت کا ایک دلچسپ و اہم استعارہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔