خلفشار سے سچ ابھرے گا

سعید پرویز  پير 21 اکتوبر 2019

دنیا کے باقی رہ جانے کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ آج کا ایڈیٹوریل پڑھ کر دہل کر رہ گیا ہوں۔ لکھا ہے ’’بچوں کے جنسی استحصال کا عالمی نیٹ ورک پکڑے جانے کا انکشاف‘‘ مختصراً تفصیل لکھ رہا ہوں ’’امریکی، برطانوی اورکورین حکام نے واشنگٹن میں نیوز بریفنگ میں انکشاف کیا ہے کہ انھوں نے بچوں کے عالمی پورنوگرافی نیٹ ورک کے سب سے بڑے گینگ کا سراغ لگا کر متعدد ملزموں کو گرفتار کرلیا ہے۔

ویب سائٹ کو دس لاکھ سے زیادہ لوگ استعمال کر رہے ہیں۔ اس نیٹ ورک نے بہت بڑی مارکیٹ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔‘‘ یہ لوگ تقریباً تمام امریکی ریاستوں میں پائے جاتے ہیں، اس کے علاوہ برطانیہ، جنوبی کوریا، جرمنی اور گلف کے دو ملکوں چیک ری پبلک، کینیڈا، آئرلینڈ اور اسپین میں بھی موجود ہیں۔ ’’ڈارک نیٹ سائٹس‘‘ انٹرنیٹ کی دنیا کا انتہائی مکروہ اور شرمناک حصہ ہیں‘‘ اداریہ نگار نے آخر میں لکھا ہے ’’پاکستان میں بھی بچوں سے زیادتیوں اور قتل کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان کی حکومت کو بھی اپنے سائبر کرائمز نیٹ ورک کو زیادہ سے زیادہ فعال بنانا چاہیے تاکہ یہ بیماری جو ترقی یافتہ ملکوں میں پھیل چکی ہے، اسے یہاں اپنے پنجے گاڑنے سے پہلے ہی ختم کردیا جائے۔‘‘ مجھے ڈاکٹر شاہد مسعود یاد آجاتے ہیں، جب بھی ایسا واقعہ سنتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے ایسی ہی باتیں کی تھیں، ایسے ہی گھناؤنے گروہوں کا ذکر کیا تھا، جو پاکستان میں بھی اس مکروہ، انسانیت سوز عمل کا باقاعدہ حصہ بنے ہوئے ہیں، بچوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیوز باہر کے ملکوں میں مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں۔

اس مکروہ کاروبار سے پہلے بھی بچوں کے ساتھ یہ ظالمانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے، جو آج بھی جاری ہے۔ غریب ملکوں سے بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے یا غریب والدین سے گھرکے کام کاج کے لیے خلیجی ریاستوں میں لے جایا جاتا ہے اور پھر انھیں اونٹوں کی دوڑ میں استعمال کیا جاتا ہے۔

خلیجی ریاستوں کے شیخ اونٹوں کی دوڑ کو دیکھتے ہیں، اونٹ کی پیٹھ پر بندھا بچہ تکلیف سے جتنا زور سے روتا ہے چلاتا ہے، اونٹ اتنا ہی تیز دوڑتا ہے اور مسلمان کہلانے والے شیوخ پورے ذوق وشوق سے اونٹوں کی اس دوڑ کو دیکھتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں اور اس ذوق وشوق میں اکثر معصوم بچے اپنی جان سے چلے جاتے ہیں۔

امریکا، برطانیہ و دیگر ترقی یافتہ ممالک میں کتنی بڑی بڑی یونیورسٹیاں ہیں جہاں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے پوری دنیا میں انسان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں اور دنیا میں علم کے اجالے پھیلاتے ہیں، مگر انھی ترقی یافتہ ترین ممالک میں انتہائی گھناؤنے انسانیت سوز جرائم بھی کیے جاتے ہیں۔

بچوں کے جنسی استحصال کو جرم کہنا بھی بہت کم درجے کا اظہار ہے۔ ایسے جرم کو مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ کیا نام دیا جائے۔ ایسے لوگوں کو جو ان جرائم میں حصے دار ہیں انھیں انتہا درجے کی سزائیں دینی چاہئیں۔ حالانکہ ان ترقی یافتہ ترین ممالک میں ’’ہم جنس پرستی‘‘ کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور مرد مرد، عورت عورت آپس میں ’’گھر بسائے‘‘ زندگی گزارتے ہیں۔ اتنی غیر انسانی ، غیر مہذب اور ایڈز جیسی مہلک بیماری کا موجب بننے والی ’’آزادی‘‘ کے باوجود ’’انسان‘‘ کو قرار نہیں آرہا ہے اور وہ مزید ’’مکروہات‘‘ کا مرتکب ہو رہا ہے۔

حضرت لوطؑ کی قوم ’’ہم جنس پرستی‘‘ جیسی برائی میں مبتلا تھی۔ حضرت لوطؑ نے اپنی قوم کو بہت سمجھایا مگر ان کی قوم نہیں مانی اور نتیجہ یہ نکلا کہ قوم لوط غرق ہوگئی اور یہ مکروہ فعل آج بھی جاری ہے۔ ہم پاکستانی اس مکروہ فعل میں بری طرح ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہمارے اردگرد یہ کام ہو رہا ہے اور لوگ عزت کے مارے خاموش رہتے ہیں۔

میں ابھی دو ماہ پہلے جولائی اگست کے مہینے کینیڈا میں گزار کے آیا ہوں۔ میں نے وہاں دیکھا کہ ہمارے ایشیائی اپنے بچوں کی طرف سے بہت پریشان رہتے ہیں۔ حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ ترقی یافتہ ترین کینیڈا میں سچ بولا جاتا ہے۔ قانون کا دھیان رکھا جاتا ہے، ملاوٹ اور کم وزن اشیا خور ونوش کا وہاں دور دورکوئی نشان نہیں ہے، انسان اور جانورکی جان برابرکا درجہ رکھتی ہے۔

میں نے یہ تمام اچھی باتیں وہاں خود دیکھیں، مگر ہمارے ایشیائی خصوصاً پاکستانی اپنے بچوں کی طرف سے پریشان رہتے ہیں۔ بچے وہاں انٹرنیٹ کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور اسی انٹرنیٹ سے بہت سی گھناؤنی برائیاں پھوٹتی ہیں۔ آپ اپنے بچوں کو انٹرنیٹ سے علیحدہ نہیں کرسکتے۔ آپ اپنے بچوں پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتے، اٹھارہ سال کی عمر کے بعد بچوں کو تمام تر خود مختاری قانوناً مل جاتی ہے۔

باہر کے ممالک میں ’’یہ کام‘‘ قانوناً ہو رہے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں اور ’’سب‘‘ جانتے ہیں ہمارے ہاں بھی یہ ’’کام‘‘ علی الاعلان ہوتے ہیں اور ان کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ مگر یہ بچوں کے ساتھ زیادتی اور پھر انھیں قتل کردینا، یہ تو ہرگز ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ ایکسپریس اخبار کے اداریہ نویس نے یہ بالکل درست لکھا ہے کہ ’’پاکستان میں بھی بچوں سے زیادتیوں اور قتل کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، پاکستان کی حکومت کو بھی اپنے ’’سائبر کرائمز نیٹ‘‘ ورک کو زیادہ سے زیادہ فعال بنانا چاہیے تاکہ یہ بیماری جو ترقی یافتہ ملکوں میں پھیل چکی ہے اسے یہاں اپنے پنجے گاڑنے سے پہلے ہی ختم کردیا جائے۔‘‘

آخر میں کچھ اپنے ملک کے سیاسی حالات کے بارے میں۔ ہندوستان روزانہ ہمارے بارڈر پر فائرنگ کر رہا ہے۔ ہمارے دو تین شہری شہید اور دو تین زخمی ہو رہے ہیں، کشمیر کا مسئلہ بھی انتہائی گمبھیر ہوچکا ہے۔ مسلم ممالک ایک دوسرے سے جنگ کر رہے ہیں یا جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں، مودی کہتا ہے ’’اپنا ملک سنبھالا نہیں جاتا اورکشمیر لینے چلے ہیں‘‘ ان حالات میں قوم تتر بتر نظر آرہی ہے۔

سارے سیاست دان جھوٹ بولے جا رہے ہیں اور جھوٹ سے باز نہیں آرہے۔ ذاتی لڑائیاں ہو رہی ہیں اور جب ’’کچھ‘‘ ہوجائے گا تو سارے ’’ٹھنڈے ٹھار‘‘ ہوکر دبک کر بیٹھ جائیں گے۔ ہم اللہ رسول کی نہیں مانتے تو یہ اقبال، فیض، جالب کس کھیت کی مولی ہیں۔ بہرحال ہمیں یقین ہے کہ اسی خلفشار سے سچ ابھرے گا اور باطل غرق ہوگا۔ عوام بہت باشعور ہیں، وہ سب دیکھ رہے ہیں، سب سمجھ رہے ہیں اور فیصلے کر رہے ہیں۔ میں وضاحت نہیں کروں گا، خود ہی دیکھو اور سمجھو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔