دشمن سے تجارتی و اقتصادی جنگ : ہم کتنے تیار ہیں؟

ایکسپریس ٹریبیون رپورٹ  پير 21 اکتوبر 2019
بھارت سے فارماسیوٹیکل خام مال کی درآمد بند ہوجاتی تو دواؤں کی قیمتوں کو پر لگ جاتے

بھارت سے فارماسیوٹیکل خام مال کی درآمد بند ہوجاتی تو دواؤں کی قیمتوں کو پر لگ جاتے

کراچی:  مشہور چینی جنرل، عسکری حکمت عملی ساز، کھاری اور فلسفی Sun Tzu نے کہا تھا کہ جنگ کا سپریم آرٹ لڑے بغیر اپنے دشمن کو زیر کرنا ہے۔ امریکا کے ساتھ تجارتی جنگ کے تناظر میں یوں نظر آتا ہے کہ چین اس آرٹ میں انتہائی مہارت رکھتا ہے۔

امریکا نے چینی اشیاء کی درآمدات پر ڈیوٹی میں اضافے کی دھمکی دے کر تجارتی جنگ کا آغاز کیا، چین نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے ایسے اقدامات کیے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا ووٹ بینک تباہ ہوگیا۔ واضح طور پر معاشیات، سیاست سے لے کر خارجہ و داخلہ پالیسی سمیت ہر شے پر حاوی ہوچکی ہے اور اسے جنگ میں بہ طور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پائلٹ کو رہا کرنے کے خیرسگالی اقدام کو سراہنے کے بجائے بھارت ، پاکستان کو ایف اے ٹی ایف سے بلیک لسٹ کرانے کی پوری کوشش کررہا تھا۔ تاہم بھارت کی تمام تر کوششوں اور خواہش کے باوجود ایف اے ٹی ایف نے آئندہ برس فروری تک پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اب جبکہ چار ماہ کے لیے بلیک لسٹ ہونے کا خطرہ ٹل گیا ہے تو ان پہلوؤں پر غور کرنا چاہیے کہ ملک ان حالات سے کیسے دوچار ہوا اور اس کی کون سی کمزوریاں ہیں جن سے دشمن فائدہ اٹھاسکتا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کے معاملے کے علاوہ دوسرا بڑا لوپ ہول جو پلوامہ واقعے کے بعد سامنے آیا وہ بھارت سے تجارت کی معطلی تھی۔ یہ حقیقت تھی کہ مقامی فارماسیوٹیکل انڈسٹری 50فیصد خام مال بھارت سے درآمد کرتی ہے۔ اگر یہ درآمد بند ہوجاتی تو دواؤں کی قیمتیں آسمان کو چُھونے لگتیں۔ خوش قسمتی سے بھارتی کمپنیان خام مال کی برآمد کے لیے تیار تھیں اور دوسری جانب حکومت پاکستان نے فارماسیوٹیکل کے خام مال کی درآمد پر سے پابندی ختم کردی تھی۔ اس صورت حال سے سبق لیا جانا چاہیے کیوں کہ آئندہ ایسی صورتحال درپیش ہونے پر سماج میں شورش و بے چینی پھیل سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔