امریکا سے مذاکرات، پاکستان کا طالبان پر غیر اعلانیہ جنگ بندی کیلیے دباؤ

کامران یوسف  پير 21 اکتوبر 2019
پاکستان کی کوششوں سے اس ماہ طالبان اور زلمے خلیل کے مذاکرات میں اعتماد بحال کرنے پر اتفاق ہوا ،قیدی رہا کیے گئے
 فوٹو: فائل

پاکستان کی کوششوں سے اس ماہ طالبان اور زلمے خلیل کے مذاکرات میں اعتماد بحال کرنے پر اتفاق ہوا ،قیدی رہا کیے گئے فوٹو: فائل

 اسلام آباد:  پاکستان نے امریکا سے مذاکرات دوبارہ شروع کرانے کیلئے طالبان پر زوردیا ہے کہ اگروہ اس مرحلے پر کھل کر جنگ بندی کااعلان نہیں کرسکتے تو غیراعلانیہ جنگ بند کردیں۔

امریکا نے پاکستان کی اس تجویز سے اتفاق کیاہے اور کہا ہے کہ اگر طالبان ایسی کوئی یقین دہانی کرادیں تو وہ مذاکرات کیلیے تیار ہے۔اگست میں طالبان اور امریکی خصوصی نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کے مابین امن معاہدے پراتفاق ہوچکا تھا اور صدر ٹرمپ نے طالبان وفد کو کیمپ ڈیوڈ میں مذاکرات کی دعوت بھی دیدی تھی لیکن اس میں اچانک رکاوٹ اس وقت پیدا ہوگئی جب ٹرمپ انتظامیہ کے بعض ارکان نے اس معاہدے کو ’’سرنڈر‘‘قراردیکر اسے ماننے سے انکارکردیا ۔ٹرمپ انتظامیہ معاہدے میں سیزفائرکا لفظ شامل کرکے طالبان سے مکمل جنگ بندی یا تشدد کو کم ازکم سطح پر لانے کی یقین دہانی چاہتی تھی لیکن طالبان نے اسے ماننے سے انکارکردیا تھا۔

اس پر صدر ٹرمپ کو امن عمل ’’ڈیڈ‘‘قراردینے کا اعلان کرنا پڑا ۔پاکستان جس کی کوششوں سے دوحہ مذاکرات شروع ہوئے تھے نے فریقین کو مذاکرات کی میزپر لانے کیلئے کوششیں جاری رکھیں اور اس ماہ کے اوائل میں طالبان وفد ملابرادر کی سربراہی میں پاکستان آیا ۔امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کو بھی یہاں بلایا گیا ،اس دوران فریقین میں مذاکرات کے دو ادوار ہوئے۔مذاکرات سے باخبر ذرائع نے ایکسپریس ٹریبون کو بتایا کہ پاکستان نے طالبان پرزوردیا ہے کہ وہ غیرعلانیہ جنگ بندی کریں یا تشدد کو کم سے کم سطح پر لانے کی یقین دہانی کرائیں۔

طالبان نے اس کی ابھی پوری طرح یقین دہانی تو نہیں کرائی تاہم فریقین اعتماد بحال کرنے کے بعض اقدامات پر متفق ہوگئے ہیں۔گزشتہ دنوں فریقین میں قیدیوں کے تبادلے بھی اعتماد بحال کرنے کی انہی کوششوں کا حصہ تھے۔پاکستان اب پرامید ہے کہ امریکہ اورطالبان جلد مذاکرات کی میزپر آجائیں گے،امریکی وزیردفاع مارک ایسپرکا دورہ کابل اسی سلسلے کی کڑی ہے۔دوران سفر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے دورے کا مقصد افغان مسئلے کا پرامن حل نکالنا ہے۔ وہ کسی ایسے معاہدے کے لیے پرامید ہیں جس سے اٹھارہ سال سے جاری افغان جنگ کا خاتمہ ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔