دورہ آسٹریلیا: پی سی بی کے ایک تیر سے تین شکار

محمد یوسف انجم  پير 21 اکتوبر 2019
کپتان سرفراز احمد سمیت شعیب ملک اور محمد حفیظ بھی ٹیم میں اپنی جگہ نہیں بناسکے۔ (فوٹو: فائل)

کپتان سرفراز احمد سمیت شعیب ملک اور محمد حفیظ بھی ٹیم میں اپنی جگہ نہیں بناسکے۔ (فوٹو: فائل)

کرکٹ پاکستان کا وہ واحد کھیل ہے جو پوری قوم کو متحد کرتا ہے اور ہر قسم کے اختلافات کے باوجود اس کھیل میں ملنے والی خوشیاں بھی سب کی سانجھی ہوتی ہیں؛ اور دکھ بھی۔ سرفراز احمد کی کپتانی چھن جانے پر تنقید اور مظاہرے ابھی ختم نہیں ہوئے تھے کہ اب توقعات کے مطابق ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق کی جانب سے ان پر ٹیم کے دروازے بھی بند کردیئے گئے ہیں۔

سرفراز سیفی کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھائی جاسکتی ہیں تاہم ایک دم سے، بہ یک بینی و دو گوش، انہیں کرکٹ سے باہر کردیا جائے گا، اس کا اندازہ نہیں تھا۔ چیف سلیکٹر مصباح الحق نے یہ تو جواز پیش کیا ہے کہ ان کی فارم اچھی نہیں اور یہ کہ وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرکے دوبارہ کم بیک کرسکتے ہیں۔

پاکستان میں ویسے تو کسی بھی وقت کچھ بھی ممکن ہے لیکن ایک بات اس وقت صاف ظاہر ہے کہ سرفراز جتنا بھی پرفارم کرلیں، لیکن جب تک مصباح الحق اور پی سی بی کا موجودہ سیٹ اپ ہے اس وقت تک سرفراز پر قومی کرکٹ ٹیم کا بند دروزاہ کھل نہیں پائے گا۔

مصباح الحق صرف سرفراز احمد پر ہی بھاری ثابت نہیں ہوئے بلکہ دو اور سابق کپتانوں شعیب ملک اور محمد حفیظ بھی حسرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔

کیریبیئن پریمیئر لیگ (سی پی ایل) میں شعیب ملک کی پرفارمنس خاصی متاثر کن تھی جس پر ان کی آسٹریلیا روانگی یقینی نظر آرہی تھی لیکن شعیب ملک کے ساتھ کپتانی کے امیدوار محمد حفیظ بھی ڈومیسٹک اور لیگز تک محدود کردیئے گئے ہیں۔ ایک ہی وار میں تین سابق کپتان اب سابق کرکٹرز کہلانےکےلیے بھی خود کو تیار کرلیں!

امام الحق کو پرچی کہیں یا کچھ بھی، ان پر پہلے انضمام الحق کی وجہ سے تنقید ہوتی رہی۔ اب مصباح الحق بھی ان کی خوبیوں کے معترف نظر آرہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ امام نے ملنے والے مواقع سے خوب فائدہ اٹھایا ہے، لیکن پرچی کی چھاپ ان پر شاید تب تک برقرار رہے کہ جب تک وہ کھیل رہے ہیں۔ دوسری جانب عثمان قادر کی شمولیت سے ایک بات طے ہوگئی ہے کہ ان کا آسٹریلوی شہرت پانے کا سپنا اب سپنا ہی رہ سکتا ہے۔

دورہ آسٹریلیا کی اعلان کردہ ٹیموں میں نسیم شاہ اور موسیٰ خان کی شمولیت سمجھ میں ضرور آتی ہے۔ نسیم شاہ کا تعلق لوئر دیر سے ہے لیکن ٹیپ بال کے بعد ہارڈ بال سے کھیلنے کا ان کا سفر لاہور سے ہوا؛ اور اس کا کریڈٹ نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے ساتھ موجود عبدالقادر اکیڈمی کو جاتا ہے جہاں سے ٹریننگ لینے کے بعد اکیڈمی کے انچارچ سلمان قادر نے انہیں لاہور کی طرف سے کھیلنے کا موقع دلا کر سلیکٹر کی توجہ اس نوجوان اور برق رفتار بولر کی جانب مبذول کروائی۔

انڈر 19 ایشیا کپ کے بعد انڈر 19 ورلڈ کپ میں نسیم شاہ سب کے دل جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ چترال میں پیدا ہونےوالے پیسر موسیٰ خان نے اسلام آباد میں اپنی صلاحیتوں کے مظاہرے کے بعد نیشنل کرکٹ اکیڈمی تک رسائی حاصل کی۔ انہیں بھی انڈر 19 اور اکیڈمی کی پیداوار کہاجاسکتا ہے۔

وقار یونس نے بھی جن چار بولرز کا خاص طورپر ذکر کیا ہے ان میں شاہین آفریدی اور محمد حسنین کے ساتھ نسیم شاہ اور موسیٰ خان شامل ہیں۔ یہ چاروں پاکستان کے تیز ترین بولرز ہیں اور خوش قسمتی سے چاروں کو آسٹریلیا کی تیز وکٹوں پر موقع مل رہا ہے۔ یہ دورہ ان کی زندگی بدل سکتا ہے۔

خوش دل شاہ اور کاشف بھٹی نے ڈومیسٹک کرکٹ میں بہت پرفارم کیا ہے، اب انہیں بھی خود کو انٹرنیشنل کرکٹ میں منوانا ہوگا۔ عمران خان سینئر اور محمدعرفان کےلیے بھی نیک تمنائیں۔ فاسٹ بولرز کےلیے آسٹریلیا سب سے آئیڈیل جگہ ہے، ان کےپاس ہیرو بننے کا یہ اچھا موقع ہے جس کےلیے انہیں سخت محنت کرنا ہوگی، بصورت دیگر زیرو تو خود ہی کھلاڑی بن جاتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Muhammad Yousuf Anjum

محمد یوسف انجم

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے، سینئر صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں اور اسپورٹس رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ پچھلے کئی سال سے ’’ایکسپریس نیوز‘‘ سے وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔