مذہبی کارکن، ہوشیار باش

ظہیر اختر بیدری  منگل 22 اکتوبر 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں سیاست کا کاروبار ایک مخصوص پیٹرن پر چل رہا ہے، وہی افراد ہیں، وہی طبقات ہیں، عوام سے وہی وعدے ہیں ، وہی فریب ہیں، وہی دھوکے ہیں۔ اس سیاسی پیٹرن کا نتیجہ یہ ہے کہ طبقاتی تضادات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ ویسے تو یہ صورتحال ہر اس ملک میں ہے ،جہاں سرمایہ دارانہ نظام ہے لیکن اس میں شدت وہاں ہے جہاں سرمایہ داری، جاگیرداری ہمرکاب ہیں۔ اگرچہ اب صنعتکار طبقہ بھی پر پرزے نکال رہا ہے لیکن سیکڑوں سال پر مشتمل جاگیردارانہ نظام اتنا مضبوط ہے کہ اسے نہ کارکنوں کی کمی کا مسئلہ درپیش رہتا ہے نہ کام میں کسی قسم کی رکاوٹ نظر آتی ہے ۔ سندھ اور پنجاب کے دیہی علاقے جاگیردارانہ  نظام کے گڑھ بھی ہیں اور نرسریاں بھی ہیں۔

پاکستان میں لوٹ مار کا جو نظام رائج ہے اس میں یہ دونوں طبقات پیش پیش ہیں۔ اگرچہ اس لوٹ مار کو پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔ عمران حکومت کے آنے سے اس میں رکاوٹ پڑی ہے چونکہ احتساب کے اس نظام میں اس بار بڑے چھوٹے کو نہیں دیکھا جا رہا ہے لہٰذا ماضی کے وہ ظل سبحانی جو ناک کے قریب سے مکھی کو گزرنے نہیں دیتے تھے اب ’’مکھیوں‘‘ سے دوستی کر رہے ہیں۔

اگرچہ اس امتیازی احتساب سے ایلیٹ کی مراعات میں کوئی فرق نہیں پڑا اور وہ جیلوں کے اندر بھی اسی ٹھاٹھ باٹ سے ہے جس طرح  جیلوں کے باہر اپنے محلوں میں رہتا تھا لیکن اسے یہ بندش بھی ذرہ برابر پسند نہیں۔کرپشن اور لوٹ مار (اربوں کی) کا پروپیگنڈا اتنا شدید ہوا ہے اور ہو رہا ہے کہ عوام اب اس لٹیری کلاس سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ عوام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے اب بڑے پریشان ہیں کہ اب عوام ان کے کنٹرول سے باہر ہوگئے ہیں۔

اس سخت ترین حالات میں عوام کا ساتھ چھوڑ جانا ایک المیے ایک سانحے سے کم نہیں۔ایسی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے ایلیٹ کے ذہن رسا نے جو حکمت عملی سوچی ہے اسے اگرچہ موثر کہا جاسکتا ہے لیکن اول تو اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ دوئم یہ ایلیمنٹ راستے میں کسی وقت بھی بھاگ کھڑا ہوسکتا ہے کیونکہ میڈیا میں اس نئے گٹھ جوڑ کے حوالے سے مختلف آرا سامنے آرہی ہیں جو مذہبی کارکنوں کو کنفیوژکر رہی ہیں۔ اس گٹھ جوڑ کا نام اگرچہ آزادی مارچ رکھا گیا ہے۔ لیکن کارکن حیران ہیں کہ آزادی کو گزرے اب 72 سال ہو رہے ہیں۔

اب کون سی تحریک آزادی عوام کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔72 سالہ بربادیوں عوام کی زبوں حالیوں کے بعد اب عوام کو کس آزادی مارچ سے روشناس کرایا جا رہا ہے۔ عوام ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں۔ غربت و افلاس کے بعد عوام کو اب کون سے آزادی مارچ سے متعارف کرایا جا رہا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ احتساب کے نام پر جو عذاب آیا ہے وہ اگرچہ بڑا تکلیف دہ ہے لیکن سب سے زیادہ تکلیف دہ 50-50 لاکھ کی گاڑیوں میں گھومنے والے، اب سڑکوں پر بغیر پروٹوکول پھرتے ہیں کہ

پھرتے ہیں میر خوارکوئی پوچھتا نہیں

مذہبی جماعتوں کا ایک ایجنڈا ہوتا ہے دین کی خدمت، روزہ، نماز کی عوام کو تلقین، برائیوں اور برے کاموں سے بچنا، نیکی کا رواج برے کاموں سے اجتناب ان دینی امور کے بجائے عمران خان مردہ باد، تحریک انصاف بائے بائے جیسے نو ایجاد نعروں نے کارکنوں کے ذہنوں کو پراگندہ کر دیا ہے۔ وہ حیران ہیں کہ کس پٹری سے کس پٹری پر آگئے ہیں۔

انھیں کس طرف لے جایا جا رہا ہے، موجودہ حکومت دین کے حوالے سے بھی بڑی ایمانداری سے خدمات انجام دے رہی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ ہے۔ حکومت نے اس حوالے سے کشمیر کے مسئلے کو ساری دنیا میں بڑے پیمانے پر متعارف کرانے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے ایسا کسی سابق حکومت نے نہیں کیا تھا۔اسلامی ممالک سمیت دنیا کے چھوٹے بڑے ملکوں کے ساتھ تعلقات کا ریوائیول خاص طور پر بڑے ملکوں امریکا، روس، چین، برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ سے تعلقات میں بہتری کی کوششیں ایسے کام ہیں جو حکومت کے خارجہ تعلقات کو مضبوط تر کر رہے ہیں۔

کشمیر کے مسئلے پر بھارت ہمیشہ نیک نام بنا رہتا تھا عمران حکومت نے کشمیر کے حوالے سے اس قدر جامع پالیسی بنائی ہے کہ آج بھارت ساری دنیا سے منہ چھپاتا پھر رہا ہے۔ عمران حکومت نے کشمیر کو ایک عالمی مسئلے کی حیثیت سے ساری دنیا میں روشناس کرانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے او آئی سی اور چین، ترکی کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی مکمل حمایت کر رہے ہیں۔

ہاں عوام کو حکومت سے ایک شکایت بلکہ بڑی شکایت ہے وہ یہ کہ مہنگائی نے ان کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کا جواب یہ ہے کہ ماضی میں اشرافیہ نے 24 ہزار ارب ڈالر مغربی ملکوں سے جو قرض لیا تھا یہ مہنگائی اسی کا ثمر ہے اس کے علاوہ کوئی ایسی بات نہیں جو ’’ آزادی مارچ‘‘ کا باعث بن سکے۔

بلاشبہ تحریک  چلنی چاہیے بلکہ سخت ترین چلنی چاہیے لیکن 72 سالہ اقتداری ایلیٹ کے خلاف، تحریک چلنی چاہیے لیکن جمہوریت کے نام پر خاندانی حکمرانیوں کے خلاف تحریک چلنی چاہیے لیکن لوٹ مار کرپشن کے خلاف تحریک چلنی چاہیے لیکن جاگیرداری نظام کے خلاف تحریک چلنی چاہیے اربوں کی کھلی کرپشن کے خلاف تحریک چلنی چاہیے، مذہب کے سیاسی استعمال کے خلاف تحریک چلنی چاہیے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جو ان ساری برائیوں کی جڑ ہے تحریک  چلنی چاہیے طبقاتی نظام کے خلاف جو ملک کے 90 فیصد عوام کو روٹی سے محتاج کر رکھا ہے تحریک چلنی چاہیے دو فیصد ایلیٹ کے خلاف جو قوم کی اسی فیصد دولت پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔

غریب مذہبی کارکن انتہائی ایماندار اور دین کے شیدائی ہوتے ہیں۔ ایلیٹ اپنے طبقاتی مفادات بچانے اور کھویا ہوا اقتدار واپس لانے کے لیے ہر طرف سے مایوس ہوکر مذہبی کارکنوں کی طرف آرہا ہے مذہبی کارکن ہوشیار باش!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔